پلاسٹک کا سیب


ایک جنگل میں بندروں کا ایک غول رہتا تھا اس جنگل میں چونکہ بہت زیادہ تعداد میں پھل وغیرہ اُگتے تھے اس لیے وہ سب بندر بہت اطمینان اور خوشی سے رہتے تھے۔

ایک دن ایسا ہوا کہ ایک سائنسدان اپنے بیٹے  کے ساتھ اسی جنگل میں ریسرچ کے لیے آیا۔ خیمہ نصب کرنے کے بعد سائنسدان تو پودوں کے سیمپل اکھٹے کرنے نکل کھڑا ہوا مگر وہ لڑکا اس خیمہ کی تزین و آرائش کے لیے پیچھے رک گیا۔ اس نے پہلے زمین پر ایک پراناقالین بچھایا۔ پھر اس قالین پر بستر لگائے۔خیمے کی درمیانی ٹیک سے برقی لالٹین لٹکائی اور اس کے عین نیچے ایک چھوٹی سی میز اور اس پر سجاوٹی سیبوں سے بھرا ایک پیالہ رکھ دیا۔وہ سیب دیکھنے میں بہت تازہ، خوبصورت اور بڑے لگ رہے تھے۔

تمام بندر درختوں پر بیٹھے ان مصنوعی سیبوں کو لالچ سے دیکھ رہے تھے۔ لڑکا خیمہ کے سامنے کی جگہ صاف کرنے کے لیے ذرا باہر نکلا تو ایک بندر نے تیزی سے جھپٹا مارا اور ایک مصنوعی سیب اٹھا لیا اور عین اسی وقت لڑکے کی نظر بھی اس پر پڑ گئی۔ لڑکے نے فوراً بندوق اٹھا کر نشانہ لیا اور فائر داغ دیا۔ مگر تمام بندر اتنی دیر میں وہاں سے بھاگ گئے تھے تو لڑکے نے باقی سیب وہاں سے اٹھاکر  بکسےمیں رکھ دئیے ۔

ادھر کافی دیر تک بھاگنے کے بعد تعاقب نہ ہونے کا یقین ہونے پر تمام بندر رک گئے۔ چوربندر نے ہاتھ بلند کرکے سب کو سیب دکھایا۔ سب بندر حیرت سے اس بندر کو دیکھنے لگے اور اس کو خوش قسمت گرداننے لگے کہ اسے ایسا اچھا سیب مل گیا اور کوشش کرنے لگے کہ ایک بار اس مصنوعی سیب کو ہاتھ لگا کر دیکھ سکیں۔

چور بندر نے سب کو جھڑکا اور یہ مصنوعی سیب لے کر ایک درخت کی سب سے اونچی شاخ پر جا بیٹھااور سیب کو کھانے کے لیے اسے منہ میں لے کر دبایا۔ مگریہ مصنوعی سیب سخت پلاسٹک کا بنا ہوا تھا جسے چبانے سے بندر کے دانتوں میں درد ہونے لگا۔ بندر نے دو تین بار اور کوشش کی مگر ہر بار اسے درد ہونے لگتا ۔

وہ دن چور بندرنے اسی اونچی شاخ پر بھوکے رہ کر گزارا۔ اگلے دن وہ نیچے اتر آیا۔ دوسرے تمام بندر اسے احترام سے دیکھنے لگے کیونکہ اس وقت بھی اس کے ہاتھ میں وہ مصنوعی سیب موجود تھا۔ دوسرے بندروں سے ملنے والا احترام دیکھ کر اس بندر نے اس سیب پر اپنی پکڑ اور مضبوط کر دی۔ اب دوسرے بندر پھلوں کی تلاش میں نکل گئے اور تیزی سے ایک درخت سے دوسرے درخت پر چھلانگ لگاتے ہوئے پھل توڑ توڑ کر کھانے لگے۔
چور بندر کے ایک ہاتھ میں چونکہ مصنوعی سیب تھا اس لیے وہ درختوں پر نہیں چڑھ سکا۔ مگر وہ سیب بھی ہاتھ سے چھوڑنا نہیں چاہتا تھا۔ اس لیے وہ سارا دن بھوکا پیاسا رہا اور یہی سلسلہ اگے کچھ دنوں تک چلتا رہتا۔ دوسرے بندر اس کے ہاتھ میں مصنوعی سیب ہونے کی وجہ سے عزت کرتے مگر اسے کھانے کے لیے کچھ نہیں دیتے۔

بھوک سے بے حال وہ بندر اتنا نڈھال ہو چکا تھا کہ اس کو اپنا آخری وقت نظر آ رہا تھا۔ اس نے ایک بار پھر اس سیب کو کھانے کی کوشش کی مگر اس بار میں نتیجہ مختلف نہ تھا۔ اس کے دانت اس مرتبہ بھی درد کر رہے تھے۔ چور بندر کو اپنی آنکھوں کے سامنے درختوں سے لٹکے ہوئے پھل نظر آ رہے تھے مگراس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ ان درختوں پر چڑھ سکتا۔ آہستہ آہستہ اس کی آنکھیں ہمیشہ کے لیے بند ہو گئیں۔ جان نکلتے ہی اس کی گرفت مصنوعی سیب پر ڈھیلی ہو گئی اور وہ مصنوعی سیب اس کے ہاتھ سے نکل  گیا۔

شام کو باقی بندر آئےانہوں نے مرے ہوئے بندر کی لاش پر کچھ آنسو بہائے افسوس کیا اور اس کی لاش کو پتوں سےڈھانپ دیا۔ ابھی وہ اتنا کر ہی رہے تھے کہ ایک دوسرے بندر کو وہی مصنوعی سیب ملا۔ اور اس نے اپنا ہاتھ بلند کر کے سب کو وہ سیب دکھانا شروع کر دیا

دنیا کی مثال بھی اس پلاسٹک کے سیب کی طرح ہے اس سے حاصل کچھ نہیں ہوتا۔ جب کہ اس کو دیکھنے والے اس سے متاثر ہو رہے ہوتے ہیں اور دنیا کو ہاتھ میں رکھنے کا دعوی دار آخر کار خالی ہاتھ اس دنیا سے چلا جاتا ہے۔ جھوٹا دکھاوا انسان کو پہلے تھکا دیتا ے پھر مار ڈالتا ہے۔

رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا  :ـ جو شخص ہمیشہ دنیا کی فکر میں مبتلارہے گا (اور دین کی پرواہ نہ کرے گا )تو اللہ تعالیٰ ا س کے تمام کام پریشان کر دے گا اور ا س کی مفلسی ہمیشہ اس کے سامنے رہے گی اور اسے دنیا اتنی ہی ملے گی جتنی اس کی تقدیر میں لکھی ہوئی ہے اور جس کی نیت آخرت کی جانب ہو گی تو اللہ تعالیٰ اس کی دل جمعی کے لئے ا س کے تمام کام درست فرما دے گا اور ا س کے دل میں دنیا کی بے پروائی ڈال دے گا اور دنیا اس کے پاس خودبخود آئے گی۔ 
( ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب الہم بالدنیا، ۴/۴۲۴، الحدیث: ۴۱۰۵ )

اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو اپنی دنیوی بہتری کے ساتھ ساتھ اپنی اخروی تیاری کی طرف بھی توجہ کرنے اور اس کے لئے بھر پور کوشش کرنے کی توفیق عطا فرمائے ،،،  آمین۔(  منجانب : سوشل میڈیا ، دعوت ِ اسلامی)