ایک پھل کے بدلے بیٹی کی شادی


      ایک بزرگ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ میں ایک سفر کے دوران کسی راستے سے گزر رہا تھا ۔میں روزے سے تھا ،میں نے ایک بہتی نہر کو دیکھا تو اس میں غسل کے لئے غوطہ لگا دیا۔ اچانک میں نے پانی کی سطح پر ایک بہی دانہ(ایک پھل) تیرتے ہوئے دیکھا تو اسے افطار کے لئے اٹھالیا ۔جب میں نے اس سے افطاری کرلی توبہت ندامت ہوئی کہ میں نے کسی دوسرے  کے مال سے افطار ی کرلی ۔

جب صبح ہوئی تو میں اس باغ کے دروازے پر پہنچ گیا جہاں سے نہر نکل رہی تھی ۔میں نے دروازے پر دستک دی تو ایک عمر رسید ہ بزرگ باہر نکلے میں نے ان سے کہا :''کل آپ کے اس باغ سے ایک بہی دانہ دریامیں بہتا ہواگیاتھا میں نے اسے اٹھا کر کھالیا اور اب میں اس پر بہت نادم ہوں مجھے امید ہے کہ آپ اس کا کوئی حل نکالیں گے ۔''

وہ بزرگ بولے:'' میں توخود اس باغ میں مزدو ر ہوں، مجھے یہاں کام کرتے ہوئے چالیس سال ہوگئے مگر میں نے اس کا ایک پھل بھی نہیں کھایا اور اس باغ میں میرا کوئی حصہ نہیں۔'' میں نے پوچھا : ''پھریہ باغ کس کا ہے ؟''انہوں نے کہا کہ ''یہ باغ دوبھائیوں کا ہے جوفلاں جگہ رہتے ہیں ۔''

میں اس جگہ پہنچ گیا،وہاں مجھے ایک ہی بھائی مل سکا۔ میں نے اسے سارا ماجرا بتایاتو وہ کہنے لگا:'' نصف باغ تو میرا ہے لہذا میں آدھا حصہ معا ف کرتا ہوں۔'' میں نے پوچھا : ''میں تمہارے بھائی کو کہا ں ھونڈوں؟''اس نے کہا :'' فلاں فلاں جگہ چلے جاؤ۔'' تو میں اس طر ف چل دیا اور اسے جاکر ساراقصہ سنایا تو اس نے کہا کہ'' خدا عزوجل کی قسم ! میں ایک شر ط پر اپنا حق معا ف کروں گا۔'' میں نے پوچھا کہ'' وہ شر ط کیا ہے؟''وہ بولا کہ'' میں تم سے اپنی بیٹی کا نکاح کروں گا اور تمہیں سودیناردوں گا ۔'' میں نے کہا :'' افسوس کہ مجھے اس کی بالکل حاجت نہیں کیا آپ نہیں جانتے کہ اس ایک پھل کی وجہ سے مجھے کتنی پریشانی ہوئی ہے لہذا میرے لئے کوئی اورحل تلاش کریں ۔'' انہوں نے کہا کہ'' خداعزوجل کی قسم !میں اس شر ط کے بغیر ایسا نہیں کروں گا۔
     
جب میں نے ان کا اصرار دیکھا تو ان کا مطالبہ تسلیم کرلیا اور کہا: ''ٹھیک ہے۔'' انہوں نے مجھے سو دینا ر دئیے اور کہا:'' اس میں سے جتنے چاہو میری بیٹی کے مہر کے طو ر پر دے دو۔'' میں نے سارے دینارواپس کردئیے۔مگر انہوں نے کہا کہ'' سارے نہیں کچھ دینار دے دو۔''پھرجب انہوں نے اپنی بیٹی کا نکاح مجھ سے کردیا تو لوگوں نے اسے اس بات پر ملامت کی کہ'' جب ارباب ِاختیار اور بڑے لوگوں نے تمہاری بیٹی کے لئے پیغام بھیجا تھا تو تم نے انہیں اپنی بیٹی نہیں دی ،تو اس فقیر کو کیوں دے دی جس کے پاس بالکل مال نہیں ہے ؟''تو انہوں نے لوگو ں سے کہا: ''اے لوگو !میں نے پرہیز گاری اور تقویٰ کو ترجیح دی ہے کیونکہ یہ شخص اللہ عزوجل کے نیک بندوں میں سے ہے۔

اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہواور اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین  بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم

(آنسوؤں کا دریا ، ص:113، مدینہ لائبریری، دعوت اسلامی )