ماں اور باپ کے رشتے ایسے ہیں کہ
جن کا دنیا میں کوئی بدل نہیں لہذا اپنے
ماں باپ کی خوب خوب خدمت کرکے ، ان کے
دل جیتنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔ کیوں کہ ماں باپ کی ایک دعا ہی انسان کی دنیا و
آخرت سنوارنے کے لیے کافی ہے۔ ذیل میں وہ
دس باتیں بتائی جا رہی ہیں جن سے آپ اپنے ماں باپ کا دل جیت سکتے ہیں ۔
نمبر ایک: والدین کو وقت دیجئے ۔ ۔۔
آج
کے دور میں نوجوان لڑکے لڑکیوں کی دلچسپی کے لیے بہت سی چیزیں ایجاد ہو گئی ہیں۔
ویڈیو گیمز، کمپیوٹر، ٹی وی، سوشل میڈیا اور دوستوں کا ایک وسیع حلقہ انہیں اس
قابل ہی نہیں چھوڑتا کہ وہ اپنے والدین کے پاس تھوڑا وقت گزار سکیں۔ مگر یاد رکھیں کہ آپ چاہے کتنے ہی
بڑے ہوجائیں، اپنے والدین کی نظر میں بچے ہی ہیں۔ جو اپنے جگر گوشے کو ہر دم اپنے
قریب دیکھنا چاہتے ہیں۔ آپ کی باقی تمام خدمات سے بڑھ کر جو چیز آپ کے والدین کے
لیے نہایت قیمتی ہے وہ آپ کا ان کے پاس بیٹھنا ہے۔ کوشش کریں کہ یہ بیٹھنا خانہ
پوری اور جبر والا نہ ہو بلکہ ایسا ہو جیسے دو انتہائی محبت کرنے والے دوست ایک
دوسرے کی گفتگو سے لطف اندوز ہوا کرتے ہیں ۔
نمبر دو: ان کو مرکزی حیثیت دیجئے۔۔۔
جب والدین بوڑھے ہو جائیں تو انہیں کسی کونے میں
چارپائی پر ڈال کر نہ رکھ دیں بلکہ ان کو ہر معاملہ میں مرکزی حیثیت دیں۔ ہر معاملہ میں والدین کو محسوس کروائیں کہ گھر کے سارے کام ان کے مشورے ہی سے چل رہے ہیں ۔
کچھ یاد ہے کہ جب آپ چھوٹے تھے اور اپنے والدین کی کوئی بھاری چیز اٹھانے میں مدد
کرتے تھے تو وہ آپ کا دل رکھنے کے لیے آپ کو یہی احساس دلاتے تھے کہ وزن تو دراصل
آپ ہی نے اٹھایا ہوا ہے۔ بس یہی قرضہ اب واپس لوٹانے کا وقت ہے۔
نمبر تین: اکتاہٹ اور بیزاری کے اظہار سے پرہیز کیجئے ۔۔۔
عمر کے ساتھ ساتھ انسان کی یاداشت بھی کمزور ہو
جاتی ہے اس لیے جب آپ کے والد یا والدہ آپ کو کوئی ایسا واقعہ سنائیں جو کہ آپ ان
کی زبانی کئی بار سن چکے ہوں تو بیزاری کے اظہار کے بجائے ایسی دلچسپی اور غور سے
سنیں جیسے وہ واقعہ آپ پہلی بار سن رہے ہیں۔ جب وہ بات کریں تو ان کی بات درمیان میں نہ
کاٹیں، یہ ادب کے بھی خلاف ہے اور یہ چیز ان کے اندر احساس کمتری پیدا کردے گی۔
نمبر چار: ان کے سامنے وہ چیزیں نہ کھائیں جن سے ڈاکٹر نے انہیں پرہیز کرنے کا کہا ہے۔۔۔
مثال کے طور پر بڑی عمر میں اکثر افراد کو شوگر
ہو جاتی ہے۔ تو کوشش کریں کہ ان کے سامنے میٹھی چیزیں لب شیریں ،ربڑی ،دودھ دلاری
،آئسکریم،وغیرہ ایسی چیزیں جو نفس کو بہت زیادہ بھاتی ہیں ہر گز نہ کھائیں ۔ آم کے
دنوں میں ان کا دل بھی آم کھانے کو ایسا ہی کرتا ہے جیسا کہ آپ کا۔
نمبر پانچ: جب گھر میں کوئی چیز، جیسے پھل فروٹ وغیرہ لائیں تو امی کو دیجئے کہ امی جان آپ ہی تقسیم کیجیے ، اسی طرح مثلاً اگر قربانی کی گئی ہے تو والد کو کہئے کہ ابو جان آپ بتائیے کس طرح حصے نکالنے ہیں اور کس کس کو دینے ہیں۔ بازار جاتے وقت ان سے معلوم کر لیں کہ انہیں کوئی چیز چاہیے تو نہیں۔ یہ چیز ان کو بہت زیادہ خوش کر دے گی۔
نمبر چھ: اگر آپ بیرون ملک یا کسی دوسرے شہر میں رہتے ہوں تو جب گھر پر فون کریں تو پہلے والدین سے بات کریں اس کے بعد اپنے بیوی بچوں سے۔ اسی طرح جب آپ سامان کا بیگ بیرون ملک سے لائیں تو والدین کے سامنے کھولیں، کہ تجسس تو ان کے اندر بھی بچوں والا ہی ہوتا ہے، بس وہ اظہار نہیں کرتے۔ والدین کا کوئی ذریعہ آمدن نہ ہو تو اپنی گنجائش کے مطابق ان کا جیب خرچ مقرر کردیں۔ بالکل اس طرح جیسے بچپن میں وہ آپ کو جیب خرچ دیا کرتے تھے تاکہ وہ اپنی مرضی سے جس طرح چاہیں خرچ کریں۔
نمبر سات : جب اپنی فیملی کو گھمانے پھرانے کے لیے کسی مقام پر لے جائیں تو والدین کو بھی لے کر جائیں، ان کو گھر پر چھوڑ کر جانا انتہائی برا عمل ہے۔ ہاں اگر خود ہی نہ جانا چاہیں تو پھر مضائقہ نہیں۔ ان کے سامنے ہمیشہ امید کی باتیں کریں، مایوسی والی باتیں، بری خبریں اور واقعات، جن کا ان سے کوئی تعلق ہی نہ ہو، ذکر کرنا ان کی صحت پر برے اثرات مرتب کرسکتا ہے۔
نمبر آٹھ: بہن بھائیوں میں نفرت والی باتوں سے اجتناب کیجئے ۔۔۔
بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ اپنے والدین کے
سامنے اپنے سگے بھائی یا بہن کی برائی کرتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ والدین دل رکھنے کی خاطر ہاں میں ہاں ملائیں مگر یہ چیز
ان کو بہت تکلیف دیتی ہے اور انہیں رنجیدہ کر دیتی ہے۔ یہ یاد رکھیں کہ دنیا کے
باقی رشتے مطلبی ہوسکتے ہیں مگر والدین کا رشتہ اپنی اولاد کے لیے بے لوث ہوتا ہے۔
اس لیے ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی اولاد ہمیشہ آپس میں شیر و شکر رہے۔ دنیا کا
کوئی باپ یا ماں یہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ ان کی اولاد آپس میں لڑے یا تفرقہ کی
شکار ہوجائے۔
نمبر نو: گھر میں کسی تنازع کی صورت میں آپ فریق نہ بنیں۔۔۔
تنازع آپ کے والدین کا آپس میں بھی ہو سکتا ہے
اور آپ کے والدین اور آپ کی بیوی کے
درمیان بھی۔ ایسی صورت میں آپ نے جج بن کر فیصلہ نہیں کرنا بلکہ حکمت کے ساتھ
معاملہ کو ٹھنڈا کرنا ہے۔
نمبر دس: ادب و احترام کیجئے ۔۔۔
ان کے سامنے اپنی آواز پست رکھیں اور گفتگو میں
ایسے الفاظ استعمال نہ کریں جو ان کے مرتبے کے مطابق ہوں۔ کبھی انہیں یوں نہ بولیں کہ آپ نے ہمارے لیے کیا
کیا؟ یہ جملہ انتہائی تکلیف دہ ہے ،اولاد
کی زندگی والدین کے سبب ہے لہٰذا، ہمیشہ
اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کے سامنے ان کی محنتوں اور قربانیوں کا تذکرہ کریں۔
جن کے والدین وفات پا چکے ہوں وہ ان کے لیے ہر نماز میں دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کی بخشش فرمائے اور ان پر اس طرح رحم فرمائے جس طرح انہوں نے بچپن کی بے بس زندگی کے دوران ان پر رحم کیا تھا۔۔۔ آمین ۔
(