مسجد نبوی میں پہلے منبر نہیں تھا، کھجور کے تنا کا
ایک ستون تھا اسی سے ٹیک لگا کر آپ ﷺ خطبہ پڑھا کرتے تھے ۔ جب ایک انصاری عورت نے
ایک منبر بنوا کر مسجد نبوی میں رکھا تو آپ ﷺ نے اس پر کھڑے ہو کر خطبہ دینا شروع
کر دیا ۔
تو وہ ستون اس قدر زور زور سے رونے لگا کہ قریب تھا
کہ جوش گریہ سے پھٹ جائے اور اس رونے کی آواز کو مسجد نبوی کے تمام نمازیوں نے
اپنے کانوں سے سنا۔
ستون کی
گریہ و زاری کو سن کر حضور رحمۃ للعالمین ﷺ منبر سے اتر کر آئے اور ستون پر تسکین
دینے کے لئے اپنا مقدس ہاتھ رکھ دیا اور اس کو اپنے سینہ سے لگا لیا تو وہ ستون اس
طرح ہچکیاں لے لے کے رونے لگا جس طرح رونے والے بچے کو جب چپ کرایا جاتا ہے تو وہ
ہچکیاں لے لے کر رونے لگتا ہے۔
بالآخر جب آپ نے ستون کو اپنے سینہ سے چمٹا لیا تو
وہ سکون پا کر خاموش ہو گیا اور آپ نے ارشاد فرمایا کہ ستون کا یہ رونا اس بنا پر
تھا کہ یہ پہلے خدا کا ذکر سنتا تھا اب جو نہ سنا تو رونے لگا۔
اور
حضرت بریدہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی حدیث میں یہ بھی وارد ہے کہ حضورِ اکرم صلی اﷲ
تعالیٰ علیہ وسلم نے اس ستون کو اپنے سینہ سے لگا کر یہ فرمایا کہ اے ستون! اگر تو
چاہے تو میں تجھ کو پھر اسی باغ میں تیری پہلی جگہ پر پہنچا دوں تا کہ تو پہلے کی
طرح ہرا بھرا درخت ہو جائے اور ہمیشہ پھلتا پھولتا رہے اور اگر تیری خواہش ہو تو
میں تجھ کو جنت کا ایک درخت بنا دینے کے
لئے خدا سے دعا کر دوں تا کہ جنت میں خدا کے اولیاء تیرا پھل کھاتے رہیں۔
یہ سن کر
ستون نے اتنی بلند آواز سے جواب دیا کہ آس پاس کے لوگوں نے بھی سن لیا، ستون کا
جواب یہ تھا کہ یا رسول اﷲ!(ﷺ) میری یہی تمنا ہے کہ میں جنت کا ایک درخت بنا دیا
جاؤں تا کہ خداکے اولیاء میرا پھل کھاتے رہیں اور مجھے حیات جاودانی مل جائے۔
حضور ﷺنے فرمایا کہ : اے ستون! میں نے تیری اس آرزو
کو منظور کر لیا۔ پھر آپ نے سامعین کو مخاطب کرکے فرمایا کہ اے لوگو! دیکھو اس
ستون نے دارالفناء کی زندگی کو ٹھکرا کر دارالبقاء کی حیات کو اختیار کر لیا۔
ایک
روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ آپ ﷺنے ستون کو اپنے سینہ سے لگا کر ارشاد فرمایا کہ
مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے کہ اگر میں اس ستون کو
اپنے سینہ سے نہ چمٹاتا تو یہ قیامت تک روتا ہی رہتا۔
واضح
رہے کہ ستون کے رونےوالا یہ معجزہ احادیث اور سیرت کی کتابوں میں گیارہ صحابیوں سے
منقول ہے جن کے نام یہ ہیں:(۱)حضرت جابر
بن عبد اﷲ(۲)حضرت اُبی
بن کعب(۳)حضرت انس
بن مالک(۴)حضرت عبد
اﷲ بن عمر(۵) حضرت عبد
اﷲ بن عباس(۶) حضرت سہل
بن سعد(۷) حضرت ابو
سعید خدری(۸) حضرت بریدہ
(۹) حضرت ام سلمہ
(۱۰) حضرت مطلب بن
ابی وداعہ (۱۱) حضرت عائشہ
رضی اﷲ تعالیٰ عنہم،