حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ

 

 ان کا نام صدی بن عجلان ہے مگر یہ اپنی کنیت ہی کے ساتھ مشہور ہيں ۔ بنو باہلہ کے خاندان سے ہیں اس لئے باہلی کہلاتے ہیں ۔ مسلمان ہونے کے بعد سب سے پہلے صلح حدیبیہ میں شریک ہوکر بیعۃ الرضوان کے شرف سے سرفراز ہوئے ۔

دو سو پچاس حدیثیں ان سے مروی ہیں اورحدیثوں کے درس واشاعت میں ان کو بے حد شغف تھا ، پہلے مصر میں رہتے تھے پھر حمص چلے گئے اوروہیں  ۸۶ھ میں اکانوے برس کی عمر میں وفات پائی۔ بعض مؤرخین نے ان کا سال وفات   ۸۱ھ تحریر کیا ہے ۔ یہ اپنی داڑھی میں زردرنگ کاخضاب کرتے تھے ۔

    
ان کی ایک کرامت یہ ہے کہ جس کو وہ خود بیان فرمایا کرتے تھے کہ رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ان کو بھیجا کہ تم اپنی قوم میں جاکر اسلام کی تبلیغ کرو چنانچہ حکم نبوی کی تعمیل کرتے ہوئے یہ اپنے قبیلہ میں پہنچے اور اسلام کا پیغام پہنچایا

مگر ان کی قوم نے ان کے ساتھ بہت برا سلوک کیا، کھانا کھلانا تو بڑی بات ہے پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں دیا بلکہ ان کا مذاق اڑاتے ہوئے اوربرابھلا کہتے ہوئے ان کو بستی سے باہر نکال دیا۔

یہ بھوک پیاس سے انتہائی بے تاب اورنڈھال ہوچکے تھے لاچار ہوکر کھلے میدان ہی میں ایک جگہ سوگئے تو خواب میں دیکھا کہ ایک آنے والا (فرشتہ)آیا اور ان کو دودھ سے بھرا ہوا ایک برتن دیا۔ یہ اس دودھ کو پی کر خوب جی بھر کر سیراب ہوگئے ۔ خدا کی شان دیکھئے کہ جب نیند سے بیدار ہوئے تو نہ بھوک تھی نہ پیاس۔

 اس کے بعد گاؤں کے کچھ خیر پسند اورسلجھے ہوئے لوگوں نے گاؤں والوں کو ملامت کی کہ اپنے ہی قبیلہ کا ایک معزز آدمی گاؤں میں آیا اورتم لوگوں نے اس کے ساتھ شرمناک قسم کی بدسلوکی کرڈالی جو ہمارے قبیلہ والوں کی پیشانی پر ہمیشہ کے لیے کلنک کا ٹیکہ بن جائے گی ۔

یہ سن کر گاؤں والوں کو ندامت ہوئی اوروہ لوگ کھانا پانی وغیرہ لے کر میدان میں ان کے پا س پہنچے تو انہوں نے فرمایا کہ مجھے تمہارے کھانے پانی کی اب کوئی ضرورت نہیں ہے مجھ کوتو میرے رب نے کھلا پلاکر سیراب کردیاہے اور پھر اپنے خوا ب کا قصہ بیان کیا۔

گاؤں والوں نے جب یہ دیکھ لیا کہ واقعی یہ کھا پی کر سیراب ہوچکے ہیں اوران کے چہرے پر بھوک وپیاس کا کوئی اثر ونشان نہیں حالانکہ اس سنسان جنگل اور بیابان میں کھانا پانی کہیں سے ملنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تو گاؤں والے آپ کی اس کرامت سے بے حد متأثر ہوئے یہاں تک کہ پوری بستی کے لوگوں نے اسلام قبول کرلیا۔

   
 حضرت ابو امامہ باہلی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   بہت ہی سخی اورفیاض آدمی تھے ۔ کسی سائل کو بھی اپنے دروازے سے نامراد نہیں لوٹاتے تھے ۔
 ایک دن ان کے پاس صرف تین ہی اشرفیاں تھیں اور یہ اس دن روزہ سے تھے اتفاق سے اس دن تین سائل دروازہ پر آئے اورآپ نے تینوں کو ایک ایک اشرفی دے دی ۔ پھر سورہے ۔ باندی کہتی ہیں کہ میں نے نماز کے لیے انہیں بیدارکیا اوروہ وضو کر کے مسجدمیں چلے گئے ۔

 مجھے ان کے حال پر بڑا ترس آیا کہ گھر میں نہ ایک پیسہ ہے نہ اناج کا ایک دانہ ، بھلا یہ روزہ کس چیز سے افطارکریں گے ؟ میں نے ایک شخص سے قرض لے کر رات کا کھانا تیار کیا اورچراغ جلایا۔

 پھر میں جب ان کے بستر کو درست کرنے کے لیے گئی تو کیا دیکھتی ہوں تین سو اشرفیاں بستر پر پڑی ہوئی ہیں ۔ میں نے ان کو گن کر رکھ دیا وہ نماز عشاء کے بعد جب گھرآئے اورچراغ جلتا ہوا اور بچھا ہوا دسترخوان دیکھاتو مسکرا ئے اورفرمایا کہ آج تو ماشاء اللہ میرے گھر میں اللہ عزوجل کی طرف سے خیر ہی خیر ہے ۔

 پھر میں نے انہیں کھانا کھلایا اورعرض کیا کہ اللہ تعالیٰ آپ پر رحم فرمائے آپ ان اشرفیوں کو یونہی لاپرواہی کے ساتھ بستر پر چھوڑ کر چلے گئے اور مجھ سے کہہ کر بھی نہیں گئے کہ میں ان کو اٹھا لیتی آپ نے حیران ہوکر پوچھا کہ کیسی اشرفیاں؟میں تو گھر میں ایک پیسہ بھی چھوڑ کر نہیں گیا تھا۔

یہ سن کر میں نے ان کا بستراٹھاکر جب انہیں دکھایا کہ یہ دیکھ لیجئے اشرفیاں پڑی ہوئی ہیں تو وہ بہت خوش ہوئے لیکن انہیں بھی اس پر بڑا تعجب ہوا۔ پھر سوچ کر کہنے لگے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے میری امدادغیبی ہے میں اس کے بارے میں اس کے سوا اورکیا کہہ سکتاہوں۔

اللہ تعالیٰ کی ان پررحمت  ہو اور  ان کےصدقے ہماری مغفرت ہو ،،، آّمین ۔



( کرامات صحابہ ، ص؛212 تا 215 ، مدینہ لائبریری ، دعوت اسلامی )

(  منجانب : سوشل میڈیا ، دعوت ِ اسلامی)

حضر ت عبداللہ بن عمرو بن حرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ

  
یہ مدینہ منورہ کے رہنے والے انصاری ہیں اورمشہور صحابی حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے والد ماجد ہیں ۔ قبیلہ انصار میں یہ اپنے خاندان بنی سلمہ کے سردار اور رحمت عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے بہت ہی جاں نثار صحابی ہیں ۔

جنگ بدر میں بڑی بہادری اورجاں بازی کے ساتھ کفار سے لڑے اور   ۳ ھ میں جنگ احد کے دن سب سے پہلے جام شہادت سے سیراب ہوئے ۔
    
بخاری شریف وغیرہ کی روایت ہے کہ انہوں نے رات میں اپنے فرزند حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلا کر یہ فرمایا: میرے پیارے بیٹے!کل صبح جنگ احد میں سب سے پہلے میں ہی شہادت سے سرفراز ہوں گا اوربیٹا سن لو!رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے بعد تم سے زیادہ میرا کوئی پیارا نہیں ہے لہٰذا تم میرا قرض ادا کردینا اور اپنی بہنوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا یہ میری آخری وصیت ہے ۔
   
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ واقعی صبح کو میدان جنگ میں سب سے پہلے میرے والد حضرت عبداللہ بن عمروبن حرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی شہید ہوئے۔

    
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ جنگ احد کے دن جب میرے والدحضرت عبداللہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مقدس لاش کو اٹھا کر بارگاہ رسالت میں لائے تو انکا یہ حال تھا کہ کافروں نے ان کے کان اورناک کو کاٹ کر ان کی صورت بگاڑدی تھی۔

 میں نے چاہا کہ ان کا چہرہ کھول کر دیکھوں تو میری برادری اورکنبہ قبیلہ والوں نے مجھے اس خیال سے منع کردیا کہ لڑکا اپنے باپ کا یہ حال دیکھ کر رنج وغم سے نڈھال ہو جائے گا۔

 اتنے میں میری پھوپھی روتی ہوئی ان کی لاش کے پاس آئیں تو سید عالم حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ تم ان پر روؤیا نہ روؤ  فرشتوں کی فوج برابر لگاتاران کی لاش پر اپنے بازوؤں سے سایہ کرتی رہی ہے ۔
    
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ جنگ احد کے دن میں نے اپنے والد حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک دوسرے شہید(حضرت عمروبن جموح رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کے ساتھ ایک ہی قبرمیں دفن کردیا تھا ۔
پھر مجھے یہ اچھا نہیں لگا کہ میرے باپ ایک دوسرے شہید کی قبر میں دفن ہیں اس لئے میں نے اس خیال سے کہ ان کو ایک الگ قبر میں دفن کروں ۔

چھ ماہ کے بعد میں نے ان کی قبر کو کھود کر لاش مبارک کو نکالاتو وہ بالکل اسی حالت میں تھے جس حالت میں ان کو میں نے دفن کیا تھا بجز اس کے کہ انکے کان پر کچھ تغیر ہوا تھا۔ 
   
اورابن سعد کی روایت میں ہے کہ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چہرے پر زخم لگا تھاا ور ان کا ہاتھ ان کے زخم پر تھا جب ان کا ہاتھ ان کے زخم سے ہٹایا گیا تو زخم سے خون بہنے لگا ۔

پھر جب ان کا ہاتھ ان کے زخم پر رکھ دیا گیا تو خون بند ہوگیااوران کا کفن جو ایک چادر تھی جس سے چہرہ چھپا دیا گیا تھا اوران کے پیروں پر گھاس ڈال دی گئی تھی ، چادر اورگھاس دونوں کو ہم نے اسی طرح پر پڑا ہوا پایا۔
  
پھر اس کے بعد مدینہ منورہ میں نہروں کی کھدائی کے وقت جب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ اعلان کرایا کہ سب لوگ میدان احد سے اپنے اپنے مردوں کو ان کی قبروں سے نکال کر لے جائیں

توحضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دوبارہ چھیالیس برس کے بعداپنے والد ماجدحضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبر کھود کر ان کی مقدس لاش کو نکالا تومیں نے ان کو اس حال میں پایا کہ اپنے زخم پر ہاتھ رکھے ہوئے تھے ۔

جب ان کا ہاتھ اٹھایا گیا تو زخم سے خون بہنے لگا پھر جب ہاتھ زخم پر رکھ دیا گیا تو خون بند ہوگیا اور ان کا کفن جو ایک چادر کا تھا بدستو رصحیح و سالم تھا۔ 
    
حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اپنی زمین کی دیکھ بھال کے لیے ''غابہ ''جا رہا تھا تو راستہ میں رات ہوگئی ۔ اس لئے میں حضرت عبداللہ بن عمروبن حرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبر کے پاس ٹھہر گیا ۔ جب کچھ رات گزرگئی تو میں نے ان کی قبر میں سے تلاوت کی اتنی بہترین آواز سنی کہ اس سے پہلے اتنی اچھی قرأت میں نے کبھی بھی نہیں سنی تھی ۔
   
جب میں مدینہ منورہ کو لوٹ کرآیا اورمیں نے حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ کیا اے طلحہ! تم کو یہ معلوم نہیں کہ خدا نے ان شہیدوں کی ارواح کو قبض کر کے زبرجد او ریاقوت کی قندیلوں میں رکھا ہے

اور ان قندیلوں کو جنت کے باغوں میں آویزاں فرمادیاہے جب رات ہوتی ہے تو یہ روحیں قندیلوں سے نکال کر ان کے جسموں میں ڈال دی جاتی ہیں پھرصبح کو وہ اپنی جگہوں پر واپس لائی جاتی ہیں ۔

سبحان اللہ عز و جل ،،، یہ مستند روایات اس بات کا ثبوت ہیں کہ حضرا ت شہداء کرام اپنی اپنی قبروں میں پورے لوازم حیات کے ساتھ زندہ ہیں اوروہ اپنے جسموں کے ساتھ جہاں چاہیں جاسکتے ہیں تلاوت کر سکتے ہیں اور دوسرے قسم قسم کے تصرفات بھی کرسکتے اور کرتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری مغفرت ہو ،، آ مین ۔

(کرامات صحابہ ، ص؛  168 تا 171 ، مدینہ لائبریری ، دعوت اسلامی )

(  منجانب : سوشل میڈیا ، دعوت ِ اسلامی)


حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ

  
   یہ مدینہ منورہ کے وہی خوش نصیب انصاری ہیں جن کے مکان کو شہنشاہ کونین صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے مہمان بن کر شرف نزول بخشااوریہ شہنشاہ دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی میزبانی سے سات ماہ تک سرفراز ہوتے رہے ۔

اوردن رات صبح وشام ہر وقت  اپنے ہر قول وفعل سے ایسی والہانہ عقیدت اورعاشقانه جاں نثاری کا مظاہرہ کرتے رہے کہ مشکل ہی سے اس کی مثال مل سکے گی۔
    
حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ملاقاتیوں کی آسانی کے لیے نیچے کی منزل میں قیام پسند فرمایا۔ مجبوراًحضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اوپر کی منزل میں رہے ۔

 ایک مرتبہ اتفاقاًپانی کا گھڑا ٹوٹ گیا تو اس اندیشہ سے کہ کہیں پانی بہ کر نیچے والی منزل میں نہ چلاجائے اورحضور رحمت عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کو کچھ تکلیف نہ پہنچ جائے ۔ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ گھبراگئے اور سارا پانی اپنے لحاف میں جذب کرلیا ۔

گھر میں بس یہی ایک رضائی تھی جو گیلی ہوگئی ۔ رات بھر میاں بیوی نے سردی کھائی مگر حضوراکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کو ذرہ بھر بھی تکلیف پہنچ جائے یہ گوارا نہیں کیا۔

غرض بے پناہ ادب واحترام اورمحبت وعقیدت کے ساتھ سلطان دارین صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی مہمان نوازی ومیزبانی کے فرائض اداکرتے رہے۔
    حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سخاوت کے ساتھ ساتھ شجاعت اور بہادری میں بھی بے حد طاق تھے ۔ تمام اسلامی لڑائیوں میں مجاہدانہ شان کے ساتھ معرکہ آزمائی فرماتے رہے یہاں تک کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں جب مجاہدین اسلام کا لشکرجہاد قسطنطنیہ کے لئے روانہ ہواتو اپنی ضعیفی کے باوجود آپ بھی مجاہدین کے اس لشکر کے ساتھ جہاد کے لیے تشریف لے گئے اور برابرمجاہدین کی صفوں میں کھڑے ہوکر جہاد کرتے رہے ۔
    
جب سخت بیمار ہوگئے اورکھڑے ہونے کی طاقت نہیں رہی تو  آپ نے مجاہدین اسلام سے فرمایا کہ جب تم لوگ جنگ بندی کروتو مجھے بھی صف میں اپنے قدموں کے پاس لٹائے رکھواور جب میرا انتقال ہوجائے تو تم لوگ میری لاش کو قسطنطنیہ کے قلعہ کی دیوار کے پاس دفن کرنا۔
 چنانچہ  ۵۱ھ میں اسی جہاد کے دوران آپ کی وفات ہوئی اور اسلامی لشکر نے ان کی وصیت کے مطابق ان کو قسطنطنیہ کے قلعہ کی دیوار کے پاس دفن کردیا۔
    
یہ اندیشہ تھا کہ شاید عیسائی لوگ آپ کی قبر مبارک کو کھودڈالیں مگر عیسائیوں پر ایسی ہیبت سوار ہوگئی کہ وہ آپ کی مقدس قبر کو ہاتھ نہ لگا سکے اورآج تک آپ کی قبر شریف اسی جگہ موجود ہے اورزیارت گاہ خلائق خاص وعام ہے جہاں ہر قوم وملت کے لوگ ہمہ وقت  بہت ہی دور دور سے قسم قسم کے مایوس العلاج مریض آپ کی قبر شریف پر شفا کے لئے حاضری دیتے ہیں اور خدا کے فضل وکرم سے شفایاب ہوجاتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صد قے ہماری مغفرت ہو ،،، آمین ۔


( کرامات صحابہ ، ص؛ 181 تا 182 ، مدینہ لائبریری ، دعوت اسلامی )

(  منجانب : سوشل میڈیا ، دعوت ِ اسلامی)

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شاہِ کسریٰ کے لباس کو اہمیت کیوں نہ دی ؟


جنگِ قادسیہ کے بعد حضرتِ سیِّدُنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے امیر المؤمنین حضرتِ سیدناعمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف کسریٰ(یعنی ایران کے بادشاہ) کی تلوار، قمیص، تاج، پٹکا اور دیگر اشیاء بھیجیں۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لوگوں کی طرف دیکھا تو ان میں حضرتِ سیِّدُناسُرَاقَہ بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی موجود تھے، وہ بہت طاقتوراور طویل القامت تھے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ''اے سُرَاقَہ! اٹھو اور یہ لباس پہن کر دکھاؤ ۔''

حضرتِ سیِّدُنا سُرَاقَہ رضی ا للہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:''میرے دل میں پہلے ہی خواہش تھی۔ چنانچہ، میں کھڑا ہوا اور شاہِ ایران کا لباس پہن لیا۔'' امیرالمؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھے دیکھاتو فرمایا:'' اب دوسری جانب منہ کرو۔'' میں نے ایسا ہی کیا۔ فرمایا:'' اب میری طرف منہ کرو۔'' میں آپ کی طرف مُڑگیاتوفرمایا:''واہ بھئی واہ ! قبیلہ مُدْلِج کے اس جوان کی کیا شان ہے! دیکھو تو سہی، شاہِ ایران کا لباس پہن کر، اس کی تلوارگلے میں لٹکا کر کیسالگ رہا ہے! اےسُرَاقَہ! اب جس دن تونے شاہِ ایران کا لباس پہنا وہ دن تیرے لئے اور تیری قوم کے لئے شرف والا تصور کیا جائے گا، اچھا! اب یہ لباس اُتار دو۔''

پھر امیرالمؤمنین حضرتِ سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ بارگاہ خدا وندی جَلَّ جَلَالُہٗ میں اس طرح عرض گزار ہوئے :

 اے میرے پاک پروردگار عز وَجَل

تُونے اپنے نبی ورسول ﷺکو اس (دُنیوی مال) سے منع فرمایا ،حالانکہ وہ تیری بارگاہ میں مجھ سے کہیں زیادہ محبوب ہيں اور مجھ سے بہت زیادہ بلند وبالا ہیں۔ پھر تُونے امیر المؤمنین حضرتِ سیِّدُنا ابو بَکْر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی اس (مال) سے منع فرمایا، حالانکہ وہ تیری بارگاہ میں مجھ سے زیادہ بلند مرتبے والے ہيں ۔پھر تُونے مجھے مال عطا فرما دیا۔ اے ميرے پاک پر وردگار عزوجل ۔۔۔ ! اگر تیری طر ف سے یہ خفیہ تدبیر ہے تومیں اس سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔

     یہ کہہ کر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرتِ سیِّدُنا عبدالرحمن بن عَوْف رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا: '' شام سے قبل اس تمام مال کو غرباء میں تقسیم کردو 


اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہواور اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین۔




(عیون الحکایات ، حصہ :2 ، ص:373 )

(  منجانب : سوشل میڈیا ، دعوت ِ اسلامی)

حسنین کریمین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مشابہت



حدیث مبارکہ کی ایک مشہور کتاب ترمذی شریف میں ہے: مولیٰ مشکل کشاء،شیرِخداحضرت سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم 
 فرماتے ہیں:

امامِ حسن رضی اللہ تعالٰی عنہ سِینے اور سر کے درمیان محبوبِ رحمٰن ﷺ سے بہت مشابہ تھے اور اِمامِ حسین رَضیَ اللہُ تعالٰی عنہ اِس سے نیچے کے حصے میں رسول اللہ ﷺ کے بہت مشابہ تھے۔


حکیم الاُمَّت مُفتی احمد یارخان رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ اس حدیثِ پاک کی شرح میں فرماتے ہیں:خیال رہے کہ حضرت فاطمہ زہرا رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا از سرتا قدم یعنی سر سے لے کر پاؤں تک بالکل ہمشکلِ مصطفیٰ (ﷺ) تھیں۔

آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عنہا کے صاحبزادگان یعنی حسنین کریمین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عنہما میں یہ مشابہت تقسیم کر دی گئی تھی،حضرت امام حسین کی پنڈلی قدم شریف تک اور ایڑی بالکل حضور ﷺ کے مشابہ تھی۔

حضور ﷺسے قدرتی مشابہت بھی اللہ تعالٰی کی نعمت ہےجو اپنے کسی عمل کو حضور ﷺ کے مشابہ کر دے اس کی بخشش ہو جاتی ہے،تو جسے خداتعالٰی اپنے محبوب کے مشابہ کرے،اُس کی محبوبیت کا کیا حال ہو گا۔
(مرآۃ جلد8ص480)

سیدی اعلیٰ حضرت  امام احمد رضا خان  رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نعتیہ کلام پر مشتمل اپنی مشہورِزمانہ   کتاب ’’ حدائقِ بخشش ‘‘ کے ایک  مشہور کلام ’’قصیدہءِ نور ‘‘ میں حسنین کریمین رضی اللہ تعالٰی عنہما کی پیارے آقا ﷺ سے مشابہت کو کچھ یوں بیان فرماتے ہیں :  ؎

ایک سینہ تک مشابہ اِک وہاں سے پاؤں تک        
  حُسنِ سبطین ان کےجاموں میں ہےنِیمانورکا
صاف شکلِ پاک ہےدونوں کےملنےسےعِیاں            
    خطِ  توام میں لکھا ہے  یہ  دو  وَرقہ  نور کا

اللہ تعالیٰ کی ان پر رحمت ہو ان کے صدقے ہماری مغفرت ہو ،،،  آمین ۔

(  منجانب : سوشل میڈیا ، دعوت ِ اسلامی)

بچوں کی حفاظت کے لیے دس تجاویز


شرارتیں بچپن کا حصہ ہوتیں ہے۔ مگر بچوں کی ان شرارتوں پر نظر رکھنا والدین کی ذمہ داری ہے ،  کیونکہ   شرارت ہی شرات میں بعض اوقات ایسا نقصان ہوجاتا ہے جو ساری زندگی کے لیے والدین کو اذیت سے دوچار کرجاتا ہے۔۔۔  بچوں کے معاملے میں درج ذیل باتوں پر  عمل کیا جائےتو   گھر والے پریشانی سے کسی حد تک بچ سکتے ہیں 

بے جا ہ باہر نکلنے کی عادت  ۔۔۔

اگر بچے کی باہرنکلنے کی عادت ہے ۔۔ تو اس کی عادت ختم کرنے کی کوشش کریں،کوشش کریں کہ والد صاحب کے ساتھ ہی بچے گھر سے نکلے یا کہیں کھیلنے جائیں ۔ اس کے دوستوں پر نظر رکھیں، آج کل اغوا  برائے تاوان  یا اغواء کے بعد زیادتی کی وارداتوں کی کثرت ہے۔ ۔۔۔ ایسے بچے بھی اکثر موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔۔۔

بچوں کا نقصان دہ کھیل کھیلنا ۔۔۔

اس بات پر غور کریں کہ بچے ایسا کھیل نہ کھیلیں جو ان کے لیے نقصان کا سبب بن جائے ۔ جیسے دیوار وغیرہ پر چڑھنے کی کوشش کرنا یا پانی،گیس وغیرہ کے پائپ سے لٹکنے کی کوشش کرنا کہ ادھر ہاتھ پھسلا اور ادھر ان کو شدید نقصان ہوا اور یہ نقصان بعض اوقات کسی بڑے سانحہ کاسبب بن سکتی ہیں۔

بچوں کا پانی سے کھیلنا ۔۔۔

چھوٹے بچوں کو پانی کے ساتھ کھیلنے کی عادت ہوتی ہے ایسے وقت میں ان پر نظر رکھنا بے حد ضروری ہے ۔ ایک گھر میں ایک بچہ باتھ روم کے ٹب میں مردہ پایا گیا ۔ وجہ یہ بنی کہ باتھ روم سے پاوؤں پھسلا اور سر پرچوٹ لگی اور پانی کے ٹب میں ڈوبنے کی وجہ سے سانس بند ہوگئی ۔

بچوں کا گیٹ کھول کر باہر سڑک پر نکل جانا ۔۔۔

اس سےکوئی بھی نا خوشگوار واقعہ جنم لے سکتا ہے ، بچوں کا  ایکسیڈنٹ  ہوسکتا ہے۔ گھر کا دروازہ ٹھیک سے لاک رکھیں۔ بچوں کو گھر کے اندر کھیلنے کی عادت ڈالیں۔اور گاڑیوں کی آمدورفت والے روڈ پر کبھی بھی بچوں کو اکیلے نہ جانے  دیں

گھر میں بندھی ہوئی رسیاں  ۔۔۔

اگر کپڑے لٹکانے والی  یا اور کوئی رسی اس پوزیشن میں ہے کہ بچے کے گلے کا پھندا بن جائے یا کسی اور طرح نقصان کا سبب بن سکے تو فوراً اس کو درست کیجئے ۔

زہریلی ادویات وغیرہ ۔۔۔۔

 گھر میں چوہے مار ادویات یا فینائل کی گولیوں  وغیرہ کو کسی ایسی جگہ رکھنا چاہئے جو بچوں کی پہنچ سے دور ہوں ، کچھ والدین لاپرواہی کا مظاہرہ کرتے ہیں، گھٹنوں کے بل چلنے والے بچے ان  کو منہ میں ڈال لیتے ہیں جس سے ان کے جسم میں زہر پھیل جاتا ہے۔ کہاجاتا ہے یہ سب سے بڑی وجہ دریافت ہوئی ہے جس کی وجہ سے بچے اموات کا شکار ہوتے ہیں ۔

بجلی کی ننگی تاریں اور لٹکے ہوئے سوئچ ۔۔۔

 بچے تو کھلونا سمجھ کر ان سے کھیلیں گے اور پھر کبھی کرنٹ لگنے کی صورت میں بچے کو ہونے والے نقصان کو ہر ذی شعور سمجھ سکتا ہے۔اسی طرح  ہیٹر چل رہا ہو یا جلتے ہوئے چولہے کے پاس بچے جاہی نہ سکیں ،اس کا خاص خیال ہوناچاہئے۔

غیر محفوظ سیڑھیاں اور چھتیں۔۔۔

سیڑھیوں پر جنگلے ٹھیک سے نہیں لگے ہوتے ہیں یا بالکل نہیں لگے ہوتے ۔ اور چھت کے اوپر ایسی آڑ نہیں ہوتی جو بچوں کو نیچے گرنے سے بچا سکیں۔ ایسے میں بچے شرارت کرتے کرتے کئی بار اونچائی سے گر جاتے ہیں۔

بھاری اوزار مثلاً پانے وغیرہ کا  غیر محفوظ جگہ ہونا  ۔۔۔  

 کئ بار بچے یہ بھاری اوزار اٹھا کر ان سے کھیلنےلگتے ہیں اور اس سے آپس میں لڑ پڑتے ہیں ، یہ بھاری اوزار ان کے بڑے نقصان کا باعث بن سکتے ہیں ۔

طبعیت  کی خرابی پر لا پرواہی  کرنا ۔۔۔

بچے کو کوئی بیماری ہوتو غفلت نہیں برتنا چاہئے  کہ خود ہی ٹھیک ہوجائے گی ۔ بعض اوقات بروقت تشخیص نہ ہونے کی وجہ سے بیماری اتنی بڑھ جاتی ہے کہ بچوں کے لئے ناقابل تلافی نقصان کا سبب بن جاتی ہے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کے بچوں کو اپنے حفظ و امان میں رکھے ،،،، آمین ۔

(  منجانب : سوشل میڈیا ، دعوت ِ اسلامی)

دفنانے کے بعد جب صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی لاش نہ ملی


    حضرت سیدنا سہم بن منجاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ'' ایک مرتبہ ہم حضرت سیدنا علاء بن حضر می رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ جنگ کے لئے ''دارین'' کی طر ف روانہ ہوئے ۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مستجاب الدعوات تھے، آپ رضی اللہ تعالیٰ علیہ نے راستے میں تین دعائیں کیں اور تینوں مقبول ہوئیں۔راستے میں ایک جگہ پانی بالکل ختم ہوگیا،ہم نے ایک جگہ قافلہ روکا، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وضو کے لئے پانی منگوایا اور وضو کرنے کے بعد دورکعتیں ادا فرمائیں، پھر دعا کے لئے ہاتھ اٹھادیئے اور بارگاہ ِخدا وندی عزوجل میں اس طر ح عرض گزار ہوئے : ’’ اے ہمارے پروردگار عزوجل !ہم تیرے بندے ہیں ،تیری راہ کے مسافر ہیں،ہم تیرے دشمنوں سے جنگ کریں گے ، اے ہمارے رحیم وکریم پروردگار عزوجل !ہمیں بارانِ رحمت سے سیراب فرما دے تا کہ ہم وضو کریں اور اپنی پیاس بجھائیں ۔ ‘‘

     اس کے بعد قافلے نے کوچ کیا۔ ابھی ہم نے تھوڑی سی مسافت ہی طے کی تھی کہ کالی گھٹائیں چھاگئیں اور یکایک بارانِ رحمت ہونے لگی ، سب نے اپنے اپنے بر تن بھرلئے اور پھر ہم وہاں سے آگے چل دیئے ۔

     حضرت سیدنا سہم بن منجاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:'' تھوڑی دور چلنے کے بعد مجھے یاد آیا کہ میں اپنا برتن تو اسی جگہ بھول آیاہوں جہاں بارش ہوئی تھی۔ چنانچہ میں اپنے رفقاء کو بتا کراس طرف چل دیاجہاں بارش ہوئی تھی۔ جب میں وہاں پہنچاتویہ دیکھ کر مجھے بڑی حیرانگی ہوئی کہ ابھی کچھ دیر پہلے جہاں شدید بارش کا سماں تھا اب وہاں بارش کے آثار تک نہ تھے ۔ ایسا لگتا تھا جیسے یہاں کی زمین پر بر سوں سے ایک قطرہ بھی نہیں برسا۔ بہر حال میں اپنے بر تن کولے کر واپس قافلے میں شامل ہوگیا ۔
    جب ہم ''دارین'' پہنچے تو ہمارے اور دشمنوں کے درمیان ٹھاٹھیں مارتا سمند ر تھا۔ ہمارے پاس ایسا سازو سامان نہ تھا کہ ہم سمندر پار کر سکیں۔ ہم بہت پریشان ہوئے اور معاملہ حضرت سیدنا علاء بن حضر می رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بارگاہ میں پیش کیا گیا۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور ان کلمات کے ساتھ دعا کرنے لگے ۔ 

:''یَاعَلِیُّ،یَاعَلِیْمُ،یَاحَلِیْمُ،یَاعَظِیْمُ '' اے ہمارے پروردگار عزوجل! ہم تیرے بندے ہیں اور تیری راہ کے مسافر ہیں ،ہم تیرے دشمنوں سےجنگ کریں گے، اے ہمارے پروردگار عزوجل! ہمارے لئے ان کی طر ف کوئی راستہ بنادے ۔

    آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دعا قبول ہوئی اور ہمارے لئے سمندر میں راستے بن گئے ۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہمیں لے کر سمندر میں اُتر گئے اور ہم نے اس طرح سمندر پار کیا کہ ہمارے کپڑ ے بھی گیلے نہ ہوئے۔جنگ کے بعد جب ہماری واپسی ہوئی تو راستے میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پیٹ میں درد ہونے لگا اور اسی درد کی حالت میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا وصال ہوگیا۔ ہم نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوغسل دینا چاہالیکن پانی بالکل ختم ہوگیا تھا۔ چنانچہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بغیر نہلائے کفن دیا گیا، پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دفن کر دیا گیا ۔

    آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تدفین کے بعد ہم وہاں سے رخصت ہوگئے۔ ایک جگہ ہمارے قافلے کو پانی میسر آیا تو ہم نے باہم مشورہ کیا کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو غسل دے کر دوبارہ دفن کیا جائے ۔چنا نچہ ہم اس جگہ پہنچے جہاں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دفن کیا تھا۔ لیکن وہاں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی لاش موجود نہ تھی۔ خوب تلاش کیا لیکن آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا لاشہ مبارک نہ مل سکا پھر ہمیں ایک شخص نے بتا یا کہ میں نے حضر ت سیدنا علاء بن حضرمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو وصال سے پہلے یہ دعا کرتے سنا تھا :''یَاعَلِیُّ، یَاعَلِیْمُ، یَاحَلِیْمُ،یَاعَظِیْمُ '' اے ہمارے پروردگار عزوجل !میری موت کو ان لوگو ں پر پوشیدہ کر دینا اور میرے ستر کو کسی پر ظاہر نہ فرمانا۔ جب ہم نے یہ سنا تو ہم واپس لوٹ آئے اور ہم سمجھ گئے کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ دعا بھی قبول ہوچکی ہے، اسی لئے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جسم اطہرنہیں مل رہا ۔

    حضرت سیدنا عمر بن ثابت بصری علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:'' ایک مرتبہ بصرہ کے رہنے والے ایک شخص کے کان میں ایک کنکری چلی گئی، طبیبوں نے بہت علاج کیا مگر وہ نہ نکلی بلکہ مزید اندر چلی گئی اور دماغ تک جا پہنچی، اس شخص کا تکلیف کے مارے برا حال تھا، راتوں کی نینداور دن کا آرام وسکون سب برباد ہوگیا ، پھر بصرہ میں حضرت سیدنا حسن بصری علیہ رحمۃ اللہ القوی کے رفقاء میں سے ایک شخص آیا ۔یہ غم کا مارا اس کے پاس پہنچا اور اپنا درد بیان کیا ۔

     حضرت سیدنا حسن بصری علیہ رحمۃ اللہ القوی کے رفیق نے کہا :'' تیرابھلا ہو ، اگر تو چاہتا ہے کہ تیری تکلیف دور ہو جائے تو ان کلمات کے ساتھ اللہ عزوجل سے دعا کر جن کے ذریعے حضرت سیدنا علاء بن حضرمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ دعا کرتے تھے ، انہوں نے صحراؤں اور سمندروں میں ان کلمات سے دعا کی تو ان کی دعا مقبول ہوئی۔پس تو بھی انہیں کلمات کے ذریعے دعا کر۔'' وہ شخص عرض گزار ہوا :''وہ کلمات کون سے ہیں؟'' اس نے بتایا:'' وہ کلمات یہ ہیں:''یَاعَلِیُّ،یَاعَلِیْمُ،یَاحَلِیْمُ،یَاعَظِیْمُ '' جیسے ہی اس شخص نے ان کلمات کے ساتھ دعاکی فوراً اس کے کان سے وہ کنکری نکلی اور دیوار سے جا لگی اور اس شخص کو سکون نصیب ہوگیا۔

    علامہ ابن حجر عسقلانی قدِّس سرہ الربانی فرماتے ہیں:'' حضرت سیدنا علاء بن حضرمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اصل نام ''عبداللہ بن عماد بن اکبر بن ربیعہ بن مالک بن عوف حضرمی'' تھا ۔

    آپ نبی ا کرم ﷺ کے صحابی تھے ، حضور اکرم ﷺ نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو'' بحرین ''کا امیر بنا کر بھیجا ۔حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورِ خلافت میں بھی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بحرین کے امیر رہے اور حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بحرین کاامیر بر قرار رکھا۔

(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہواور اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)

(عیون الحکایات ، جلد: 1 ،ص:88)

(  منجانب : سوشل میڈیا ، دعوت ِ اسلامی)

والدین کا دل جیتنےوالے دس کام


ماں اور باپ کے رشتے ایسے ہیں کہ جن کا دنیا میں کوئی بدل نہیں لہذا  اپنے ماں باپ کی خوب خوب خدمت کرکے ، ان کے دل جیتنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔ کیوں کہ ماں باپ کی ایک دعا ہی انسان کی دنیا و آخرت سنوارنے کے لیے کافی ہے۔  ذیل میں وہ دس باتیں بتائی جا رہی ہیں جن سے آپ اپنے ماں باپ کا دل جیت سکتے ہیں  ۔

نمبر ایک: والدین کو وقت دیجئے ۔ ۔۔
آج کے دور میں نوجوان لڑکے لڑکیوں کی دلچسپی کے لیے بہت سی چیزیں ایجاد ہو گئی ہیں۔ ویڈیو گیمز، کمپیوٹر، ٹی وی، سوشل میڈیا اور دوستوں کا ایک وسیع حلقہ انہیں اس قابل ہی نہیں چھوڑتا کہ وہ اپنے والدین کے پاس تھوڑا وقت  گزار سکیں۔ مگر یاد رکھیں کہ آپ چاہے کتنے ہی بڑے ہوجائیں، اپنے والدین کی نظر میں بچے ہی ہیں۔ جو اپنے جگر گوشے کو ہر دم اپنے قریب دیکھنا چاہتے ہیں۔ آپ کی باقی تمام خدمات سے بڑھ کر جو چیز آپ کے والدین کے لیے نہایت قیمتی ہے وہ آپ کا ان کے پاس بیٹھنا ہے۔ کوشش کریں کہ یہ بیٹھنا خانہ پوری اور جبر والا نہ ہو بلکہ ایسا ہو جیسے دو انتہائی محبت کرنے والے دوست ایک دوسرے کی گفتگو سے لطف اندوز ہوا کرتے ہیں ۔

نمبر دو:   ان کو مرکزی حیثیت دیجئے۔۔۔
 جب والدین بوڑھے ہو جائیں تو انہیں کسی کونے میں چارپائی پر ڈال کر نہ رکھ دیں بلکہ ان کو ہر معاملہ میں مرکزی حیثیت دیں۔  ہر معاملہ میں والدین کو محسوس کروائیں کہ  گھر کے سارے کام ان کے مشورے ہی سے چل رہے ہیں ۔ کچھ یاد ہے کہ جب آپ چھوٹے تھے اور اپنے والدین کی کوئی بھاری چیز اٹھانے میں مدد کرتے تھے تو وہ آپ کا دل رکھنے کے لیے آپ کو یہی احساس دلاتے تھے کہ وزن تو دراصل آپ ہی نے اٹھایا ہوا ہے۔ بس یہی قرضہ اب واپس لوٹانے کا وقت ہے۔

نمبر تین:  اکتاہٹ اور بیزاری کے اظہار سے پرہیز کیجئے ۔۔۔
 عمر کے ساتھ ساتھ انسان کی یاداشت بھی کمزور ہو جاتی ہے اس لیے جب آپ کے والد یا والدہ آپ کو کوئی ایسا واقعہ سنائیں جو کہ آپ ان کی زبانی کئی بار سن چکے ہوں تو بیزاری کے اظہار کے بجائے ایسی دلچسپی اور غور سے سنیں جیسے وہ واقعہ آپ پہلی بار سن رہے ہیں۔  جب وہ بات کریں تو ان کی بات درمیان میں نہ کاٹیں، یہ ادب کے بھی خلاف ہے اور یہ چیز ان کے اندر احساس کمتری پیدا کردے گی۔

نمبر چار:  ان کے سامنے وہ چیزیں نہ کھائیں جن سے ڈاکٹر نے انہیں پرہیز کرنے کا کہا ہے۔۔۔
 مثال کے طور پر بڑی عمر میں اکثر افراد کو شوگر ہو جاتی ہے۔ تو کوشش کریں کہ ان کے سامنے میٹھی چیزیں لب شیریں ،ربڑی ،دودھ دلاری ،آئسکریم،وغیرہ ایسی چیزیں جو نفس کو بہت زیادہ بھاتی ہیں ہر گز نہ کھائیں ۔ آم کے دنوں میں ان کا دل بھی آم کھانے کو ایسا ہی کرتا ہے جیسا کہ آپ کا۔

نمبر پانچ:   جب گھر میں کوئی چیز، جیسے پھل فروٹ وغیرہ لائیں تو امی کو دیجئے  کہ  امی جان آپ ہی تقسیم کیجیے ، اسی طرح مثلاً اگر قربانی کی گئی ہے تو والد کو کہئے کہ ابو جان آپ بتائیے کس طرح حصے نکالنے ہیں اور کس کس کو دینے ہیں۔ بازار جاتے وقت ان سے معلوم کر لیں کہ انہیں کوئی چیز چاہیے تو نہیں۔ یہ چیز ان کو بہت زیادہ خوش کر دے گی۔

نمبر چھ: اگر آپ بیرون ملک یا کسی دوسرے شہر میں رہتے ہوں تو جب گھر پر فون کریں تو پہلے والدین سے بات کریں اس کے بعد اپنے بیوی بچوں سے۔ اسی طرح جب آپ سامان کا بیگ بیرون ملک سے لائیں تو والدین کے سامنے کھولیں، کہ تجسس تو ان کے اندر بھی بچوں والا ہی ہوتا ہے، بس وہ اظہار نہیں کرتے۔ والدین کا کوئی ذریعہ آمدن نہ ہو تو اپنی گنجائش کے مطابق ان کا جیب خرچ مقرر کردیں۔ بالکل اس طرح جیسے بچپن میں وہ آپ کو جیب خرچ دیا کرتے تھے  تاکہ وہ اپنی مرضی سے جس طرح چاہیں خرچ کریں۔

نمبر سات : جب اپنی فیملی کو گھمانے پھرانے کے لیے کسی مقام پر لے جائیں تو والدین کو بھی لے کر جائیں، ان کو گھر پر چھوڑ کر جانا انتہائی برا عمل ہے۔ ہاں اگر خود ہی نہ جانا چاہیں تو پھر مضائقہ نہیں۔ ان کے سامنے ہمیشہ امید کی باتیں کریں، مایوسی والی باتیں، بری خبریں اور واقعات، جن کا ان سے کوئی تعلق ہی نہ ہو، ذکر کرنا ان کی صحت پر برے اثرات مرتب کرسکتا ہے۔

نمبر آٹھ:   بہن بھائیوں میں نفرت والی باتوں سے اجتناب کیجئے ۔۔۔
 بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ اپنے والدین کے سامنے اپنے سگے بھائی یا بہن کی برائی کرتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ والدین  دل رکھنے کی خاطر ہاں میں ہاں ملائیں مگر یہ چیز ان کو بہت تکلیف دیتی ہے اور انہیں رنجیدہ کر دیتی ہے۔ یہ یاد رکھیں کہ دنیا کے باقی رشتے مطلبی ہوسکتے ہیں مگر والدین کا رشتہ اپنی اولاد کے لیے بے لوث ہوتا ہے۔ اس لیے ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی اولاد ہمیشہ آپس میں شیر و شکر رہے۔ دنیا کا کوئی باپ یا ماں یہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ ان کی اولاد آپس میں لڑے یا تفرقہ کی شکار ہوجائے۔

نمبر نو: گھر میں کسی تنازع کی صورت میں آپ فریق نہ بنیں۔۔۔
 تنازع آپ کے والدین کا آپس میں بھی ہو سکتا ہے اور آپ کے والدین اور آپ کی بیوی  کے درمیان بھی۔ ایسی صورت میں آپ نے جج بن کر فیصلہ نہیں کرنا بلکہ حکمت کے ساتھ معاملہ کو ٹھنڈا کرنا ہے۔
 
نمبر دس: ادب و احترام کیجئے ۔۔۔
 ان کے سامنے اپنی آواز پست رکھیں اور گفتگو میں ایسے الفاظ استعمال نہ کریں جو ان کے مرتبے کے مطابق ہوں۔  کبھی انہیں یوں نہ بولیں کہ آپ نے ہمارے لیے کیا کیا؟ یہ جملہ  انتہائی تکلیف دہ ہے ،اولاد کی زندگی والدین کے سبب ہے  لہٰذا، ہمیشہ اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کے سامنے ان کی محنتوں اور قربانیوں کا تذکرہ کریں۔

جن کے والدین وفات پا چکے ہوں وہ ان کے لیے  ہر نماز میں دعا کریں کہ  اللہ  تعالیٰ ان کی  بخشش فرمائے اور ان پر اس طرح رحم فرمائے جس طرح انہوں نے   بچپن کی بے بس زندگی کے دوران  ان پر رحم کیا تھا۔۔۔  آمین ۔


(  منجانب : سوشل میڈیا ، دعوت ِ اسلامی)