ان کا نام صدی بن عجلان ہے مگر یہ
اپنی کنیت ہی کے ساتھ مشہور ہيں ۔ بنو باہلہ کے خاندان سے ہیں اس لئے باہلی کہلاتے
ہیں ۔ مسلمان ہونے کے بعد سب سے پہلے صلح حدیبیہ میں شریک ہوکر بیعۃ الرضوان کے
شرف سے سرفراز ہوئے ۔
دو سو پچاس حدیثیں ان سے مروی ہیں
اورحدیثوں کے درس واشاعت میں ان کو بے حد شغف تھا ، پہلے مصر میں رہتے تھے پھر حمص
چلے گئے اوروہیں ۸۶ھ میں اکانوے برس کی عمر میں وفات پائی۔ بعض مؤرخین نے
ان کا سال وفات ۸۱ھ تحریر کیا ہے ۔ یہ اپنی داڑھی میں زردرنگ کاخضاب کرتے تھے ۔
ان کی ایک کرامت یہ ہے کہ جس کو
وہ خود بیان فرمایا کرتے تھے کہ رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم
نے ان کو بھیجا کہ تم اپنی قوم میں جاکر اسلام کی تبلیغ کرو چنانچہ حکم نبوی کی
تعمیل کرتے ہوئے یہ اپنے قبیلہ میں پہنچے اور اسلام کا پیغام پہنچایا
مگر ان کی قوم نے ان کے ساتھ بہت برا سلوک کیا، کھانا کھلانا تو بڑی بات ہے
پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں دیا بلکہ ان کا مذاق اڑاتے ہوئے اوربرابھلا کہتے ہوئے
ان کو بستی سے باہر نکال دیا۔
یہ بھوک پیاس سے انتہائی بے تاب
اورنڈھال ہوچکے تھے لاچار ہوکر کھلے میدان ہی میں ایک جگہ سوگئے تو خواب میں دیکھا
کہ ایک آنے والا (فرشتہ)آیا اور ان کو دودھ سے بھرا ہوا ایک برتن دیا۔ یہ اس دودھ
کو پی کر خوب جی بھر کر سیراب ہوگئے ۔ خدا کی شان دیکھئے کہ جب نیند سے بیدار ہوئے
تو نہ بھوک تھی نہ پیاس۔
اس کے بعد گاؤں کے کچھ خیر پسند
اورسلجھے ہوئے لوگوں نے گاؤں والوں کو ملامت کی کہ اپنے ہی قبیلہ کا ایک معزز آدمی
گاؤں میں آیا اورتم لوگوں نے اس کے ساتھ شرمناک قسم کی بدسلوکی کرڈالی جو ہمارے
قبیلہ والوں کی پیشانی پر ہمیشہ کے لیے کلنک کا ٹیکہ بن جائے گی ۔
یہ سن کر گاؤں والوں کو ندامت ہوئی اوروہ لوگ کھانا پانی وغیرہ لے کر میدان
میں ان کے پا س پہنچے تو انہوں نے فرمایا کہ مجھے تمہارے کھانے پانی کی اب کوئی
ضرورت نہیں ہے مجھ کوتو میرے رب نے کھلا پلاکر سیراب کردیاہے اور پھر اپنے خوا ب
کا قصہ بیان کیا۔
گاؤں والوں نے جب یہ دیکھ لیا کہ
واقعی یہ کھا پی کر سیراب ہوچکے ہیں اوران کے چہرے پر بھوک وپیاس کا کوئی اثر
ونشان نہیں حالانکہ اس سنسان جنگل اور بیابان میں کھانا پانی کہیں سے ملنے کا کوئی
سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تو گاؤں والے آپ کی اس کرامت سے بے حد متأثر ہوئے یہاں تک
کہ پوری بستی کے لوگوں نے اسلام قبول کرلیا۔
حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت ہی
سخی اورفیاض آدمی تھے ۔ کسی سائل کو بھی اپنے دروازے سے نامراد نہیں لوٹاتے تھے ۔
ایک دن ان کے پاس صرف تین ہی اشرفیاں
تھیں اور یہ اس دن روزہ سے تھے اتفاق سے اس دن تین سائل دروازہ پر آئے اورآپ نے
تینوں کو ایک ایک اشرفی دے دی ۔ پھر سورہے ۔ باندی کہتی ہیں کہ میں نے نماز کے لیے
انہیں بیدارکیا اوروہ وضو کر کے مسجدمیں چلے گئے ۔
مجھے ان کے حال پر بڑا ترس آیا کہ
گھر میں نہ ایک پیسہ ہے نہ اناج کا ایک دانہ ، بھلا یہ روزہ کس چیز سے افطارکریں
گے ؟ میں نے ایک شخص سے قرض لے کر رات کا کھانا تیار کیا اورچراغ جلایا۔
پھر میں جب ان کے بستر کو درست کرنے
کے لیے گئی تو کیا دیکھتی ہوں تین سو اشرفیاں بستر پر پڑی ہوئی ہیں ۔ میں نے ان کو
گن کر رکھ دیا وہ نماز عشاء کے بعد جب گھرآئے اورچراغ جلتا ہوا اور بچھا ہوا
دسترخوان دیکھاتو مسکرا ئے اورفرمایا کہ آج تو ماشاء اللہ میرے گھر میں اللہ عزوجل
کی طرف سے خیر ہی خیر ہے ۔
پھر میں نے انہیں کھانا کھلایا
اورعرض کیا کہ اللہ تعالیٰ آپ پر رحم فرمائے آپ ان اشرفیوں کو یونہی لاپرواہی کے
ساتھ بستر پر چھوڑ کر چلے گئے اور مجھ سے کہہ کر بھی نہیں گئے کہ میں ان کو اٹھا
لیتی آپ نے حیران ہوکر پوچھا کہ کیسی اشرفیاں؟میں تو گھر میں ایک پیسہ بھی چھوڑ کر
نہیں گیا تھا۔
یہ سن کر میں نے ان کا بستراٹھاکر جب انہیں دکھایا کہ یہ دیکھ لیجئے اشرفیاں
پڑی ہوئی ہیں تو وہ بہت خوش ہوئے لیکن انہیں بھی اس پر بڑا تعجب ہوا۔ پھر سوچ کر
کہنے لگے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے میری امدادغیبی ہے میں اس کے بارے میں اس کے
سوا اورکیا کہہ سکتاہوں۔
اللہ تعالیٰ کی ان پررحمت ہو اور
ان کےصدقے ہماری مغفرت ہو ،،، آّمین ۔
( کرامات صحابہ ، ص؛212 تا 215 ، مدینہ لائبریری ، دعوت اسلامی )
( منجانب : سوشل میڈیا ، دعوت ِ اسلامی)
(