منقول
ہے کہ مشہور عاشقِ رسول ، سلطان محمود غزنوی
علیہ رَحمۃُ اللّٰہ القوی کے پاس کوئی شخص ککڑی لے کر حاضِر ہوا۔ سُلطان نے ککڑی قَبول
فرما لی اور پیش کرنے والے کو انعام دیا ۔
پھر اپنے ہاتھ
سے ککڑی کی ایک قاش تراش کر اپنے منظورِ نظر غلام ایاز کو عطا فرمائی۔ ایاز مزے لے
لے کر کھا گیا۔پھر سلطان نے دوسری پھانک کاٹی اور خود کھانے لگے تو وہ اس قَدَر کڑوی
تھی کہ زَبان پر رکھنا مشکل تھا ۔
سلطان نے حیرت
سے ایاز کی طرف دیکھا اور فرمایا:’’ ایاز! اتنی کڑوی پھانک تُو کیسے کھا گیا ؟ واہ
! تیرے چہرے پر توذرّہ برابر ناگواری کے اثرات بھی نُمُودار نہ ہوئے ؟‘‘
ایاز نے عرض
کیا: ’’عالی جاہ! ککڑی واقِعی بَہُت کڑوی تھی۔ مُنہ میں ڈالی توعَقْل نے کہا :’’ تھوک
دے ۔‘‘ مگر عشق بول اُٹھا:’’ ایاز خبردار! یہ وُہی ہاتھ ہیں جن سے روزانہ میٹھی اَشیاء
کھاتا رہا ہے، اگر ایک دن کڑوی چیز مل گئی تو کیاہوا! اِس کو تھوک دینا آدابِ محبت
کے خلاف ہے لہٰذا عشق کی رہنمائی پرمیں ککڑی کی کڑوی قاش کھا گیا۔‘‘
اپنے
مولا کی اس قدر نعمتیں استعمال کرنے والا
انسان اگر ایاز کی طرح سوچ بنا لے تو بے صبری
کبھی قریب سے بھی نہیں گزر سکتی۔
اللہ تعالیٰ کی ان پررحمت ہو اور ان کے صدقے
ہماری مغفرت ہو ،،، آمین ۔
(نیکیاں
برباد ہونے سے بچائیے ، ص:47 ، مکتبۃ المدینہ ، دعوت اسلامی)