حضرت داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی حقیقت


حضرت سیِّدُنا داتا علی ہجویری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی کی ولادتِ با سعادت کم وبیش 400 ھ میں غزنی شہر(مشرقی افغانستان)کے محلہ جَلّاب میں ہوئی۔کچھ عرصے بعد آپ کا خاندان محلہ ہجویر میں منتقل ہوگیا ۔ آپ کی کُنیت ابوالحسن، نام علی اور لقب داتا گنج بخش ہے ۔

جس دور مىں حضرت سیدنا داتا على ہجوىرى عَلَیہ رَحمۃُ اللّٰہ القَوی پىدا ہوئے اُس وقت بہت سے علماء ،فضلاء اور اہلِ دانش غزنى مىں رہتے تھے،گویا غزنى کى فضا مىں ہر طرف علم و فکر اور معرفت کا چرچاتھا ، چارسال سے زائد عمر مىں آپ نے حروف شناسى کے بعد قرآنِ مجید پڑھنا شروع کىااورتھوڑے ہی عرصے مىں قرآنى تعلىم مکمل کرنے کے بعدرفتہ رفتہ وقت کے مشہور علماء سے عربى، فارسى، حدىث، فقہ،تفسىر، منطق، فلسفہ اور دیگر علوم و فنون حاصل کئے۔

آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ جواں عمری ہی میں علوم ظاہری کی تکمیل کرچکے تھے، آپ کے علمی مقام کا اندازہ اس واقعے سے لگایا جاسکتا ہےکہ ایک مرتبہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا سلطان محمودغزنوی کی موجودگی میں ایک فلسفی سے مناظرہ ہوا تو آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے اپنی علمی قابلیت سے اس کو  لاجواب کردیا،حالانکہ اس وقت آپ کی عمر زیادہ نہ تھی کیونکہ  اگر اس مناظرے کو سلطان محمود غزنوی کی زندگی کے آخری سال میں بھی فرض کیا جائے تو اس وقت آپ کی عمر مبارک تقریباً20 سال بنتی ہے۔

یوں تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے آپ کو علومِ ظاہرى اور باطنى سے بے حدنوازا تھا اور دىنِ اسلام کے بہت سےاسرار و رموز عطا فرمائے تھے مگر اس کے علاوہ حصولِ علم کیلئے آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے جو سفر اختیار کئے اس سے بھی آپ کوبےحد مشاہدات حاصل ہوئےچنانچہ

 آپ نے مخلوقِ خدا کی خیر خواہی اور طالبانِ معرفت کى رہنمائى کے لىے چند گراں قدر(قیمتی ) کتابیں تصنىف فرمائیں جن میں  منہاج الدىن، بحر القلوب، کتاب فنا و بقا، کشف الاسرار،اورکشف المحجوب وغیرہ  شامل ہیں ۔

 سب سے پہلی کتاب جو آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے 12 سال کی عمر میں لکھی اس کا نام ’’دیوانِ شعر‘‘ ہے۔یہ دیوان صوفیانہ و عارفانہ اشعار پرمشتمل تھامگر افسوس !کسی شخص نے ان سے امانۃً لیا اور خیانت کرتے ہوئے آپ کے نام کی جگہ اپنا نام لکھ کر وہ کتاب اپنی بنالی۔

حضرت داتا گنج بخش رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ سلسلہ جنیدیہ میں بیعت ہوئے تھے  ، یہ وہی سلسلہ ہے جس میں حضورغوث الاعظم سیّدعبدالقادرجیلانی قُدِّسَ سِرّہ النورانی بیعت ہوئے تھے۔

حضرت داتاگنج بخش رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کے مرشد گرامی حضرت سیدنا ابوالفضل محمد بن حسن خُتُلى عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی تھے جن کاسلسلہ 7 واسطوں سے حضرت سیدنا ابوسعیدحسن بصری رَحمَۃُ اللّٰہ تعالی علیہ سے ملتا ہے  ۔

حضرت سیدنا حسن بصری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی وہ جلیل القدرہستی ہیں جو براہِ راست امیرالمؤمنین ،مولامشکل کُشا حضرت سیدنا على المرتضی شیرخداکَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجہہ الکریم سے شرف بیعت اورخلافت کی دولت سے مالامال تھے ۔

حضر تِ داتا گنج بخش رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے حصولِ معرفت کى خاطر بے حد ریاضت و عبادت کى ، حُصولِ علم کی خاطر سفر کی صعوبتیں برداشت کیں، اُونی لباس پہنا،محبتِ الٰہى میں فقرو فاقہ اختیار کیا اور عشقِ حقیقى میں ثابت قدم رہتے ہوئے مصائب و مشکلات میں صبروضبط سے کام لیا آخرکار اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے فضل سے آپ کی معرفت کی تکمیل ہوئی۔

جب آپ کے پیر و مرشد حضرت سیِّدُنا ابوالفضل محمدبن حسن خُتُلی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی کی نظرِ ولایت نے دیکھا کہ میرے مریدِ خاص کے علمِ ظاہری و باطنی سے مخلوق خدا کے فائدہ اٹھانے اور ان کی صحبت سے فیض پانے کا وقت آگیا ہےتو آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے حکم دیا کہ تم (مرکز الاولیا) لاہور روانہ ہوجاؤ اور وہاں جا کر رُشد و ہداىت کا فریضہ انجام دو ۔

اس زمانہ میں غزنى سے لاہور تک کا رستہ کافى دشوار گزار تھا،لہٰذا آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ مرشدِ کریم سے رخصت ہو کر پہلے اپنے وطن غزنى آئے اور وہاں سے حضرت احمد حمادی کرخی اور حضرت ابو سعید ہجویری رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمَا کو ساتھ لے کر تین افراد کے قافلہ کى صورت میں مرکزالاولیا لاہور کى طرف چل دیئے اوربڑی مشقتوں سے پہاڑى رستے طے کرتے ہوئے پہلے پشاور اورپھرغالباً 431 ھ بمطابق 1041ء کو مرکزالاولیا لاہور میں آپ کی آمد ہوئی۔

آپ رحمۃ اللہ علیہ کاوصالِ پُرملال اکثر تذکرہ نگاروں کے نزدیک 20صفرالمظفر 465 ھ کوہوا۔آپ کامزار شریف مرکزالاولیا لاہور (پاکستان) میں ہےاسی مناسبت سے لاہور کو مرکز الاولیاء اورداتا نگر بھی کہا جاتا ہے۔

آپ کے وصال کوتقریباً 974 سال کا طویل عرصہ بیت گیا مگر صدیوں پہلے کی طرح آج بھی آپ کا فیضان جاری ہے اور آپ کا مزارِ فائض الانوار مرجعِ خاص و عام ہےجہاں سخی وگدا، فقیر وبادشاہ، اصفیا واولیااورحالات کے ستائے ہوئے ہزاروں پریشان حال اپنے دکھوں کا مداوا کرنے صبح وشام حاضر ہوتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ کی ان پر رحمت ہو اور ا ن کے صدقے ہماری مغفرت ہو ،،، آمین۔


(فیضان داتا گنج بخش، ص؛ 2 تا 14 ،مکتبۃ المدینہ  ،دعوت اسلامی ،ملخصاً)