حضرت ابراھیم بن بشار عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہ
الغفّار فرماتے ہیں کہ ایک دن میں حضرت ابراھیم بن ادھم علیہ رحمۃُ اللہ الاکرم کے
ساتھ صحراء میں شریک سفر تھا کہ ہمیں ایک قبرنظر آئی ۔
حضرت سَیِّدُنا ابراھیم بن ادھم علیہ رحمۃُ اللہ الاکرم
اس قبر پر تشریف لے گئے اور قبر والے کے لئے دعائے مغفرت کی ، پھر رونے لگے۔
میں نے عرض
کی:یہ قبر کس کی ہے؟ جواب دیا:یہ قبر حمید بن ابراہیم (رَحمَۃُ اللّٰہ تعالٰی
علیہ)کی ہے جویہاں کے تمام شہروں کے گورنر تھے اور دنیا کی محبت میں غرق تھے
، اللہ عَزَّوَجَلَّ نے انہیں بچا لیا۔
اتنا کہنے کے بعد فرمایا: یہ ایک دن اپنی مملکت کی
وسعت اور دنیاوی مال ودولت کی کثرت سے بہت خوش تھے ،اسی دوران جب یہ سوئے تو خواب
میں دیکھا کہ ایک شخص جس کے ہاتھ میں ایک کتاب تھی، ان کے سرہانے آن کھڑا ہوا ۔
حمید نے اس
شخص سے کتاب لے کر اسے کھولا تو اس میں جَلی حروف سے لکھاتھا:فنا ہوجانے والی کو
باقی رہ جانے والی پر ترجیح نہ دے اور اپنی مملکت، حکومت، بادشاہت، خُدام ، غلام
اور لذات وخواہشات میں کھو کر غافل مت ہوجا ،
بے شک جس میں تو مگن ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں ،
بظاہر جو تیری ملکیت ہے وہ حقیقتاً ہلاکت ہے ، جو فرح وسرور ہے وہ حقیقت میں لھو
وغرور ہے ، جوآج ہے اس کا کل کچھ پتہ نہیں ، اللّٰہ عزوَجل کی بارگاہ میں جلدی
حاضر ہوجاؤ کیونکہ اس کا فرمان ہے
ترجمۂ
کنزالایمان:اور دوڑو اپنے رب کی بخشش اور ایسی جنت کی طرف جس کی چوڑان میں سب
آسمان اور زمین آجائیں ،پرہیز گاروں کے لئے تیار کر رکھی ہے ۔
( پ۴،
اٰل عمران:۱۳۳ )
جب یہ نیند سے بیدار ہوئے تو بے
اختیار ان کے منہ سے نکلا :یہ اللّٰہ
عزوَجَل کی طرف سے تنبیہ اور نصیحت ہے ۔پھر کسی کو کچھ بتائے بغیر یہ اپنے ملک سے نکل
آئے اور ان پہاڑوں میں آ بسے ۔
جب مجھے ان کا واقعہ معلوم ہوا
تو میں نے انہیں تلاش کیا اور ان سے اس بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے یہ واقعہ مجھے
سنایا ،پھر میں نے بھی انہیں اپنا واقعہ سنایا۔ میں برابر ان سے ملاقات کے لئے آتا
رہا ، یہاں تک کہ ان کا انتقال ہوگیا اور یہیں ان کو دفن کر دیا گیا۔
اللہ تعالیٰ کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری
مغفرت ہو ،، ، آمین ۔
(نیکیاں برباد ہونے سے بچائیے ، ص : 57 ، مکتبۃ المدینہ ،
دعوت اسلامی )