انسان دوبارہ زندہ ہوگیا



شیخ حبیب الرحمن صاحب ’’پراسیکیوٹنگ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس ‘‘ نے 11اپریل 1971کو امام اہلسنت سیدی اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے 51ویں عُرسِ مبارک کے موقع پر لاہور میں اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ  کی یہ کرامت تقریر میں سُنائی جو اُن کی اپنی آپ بیتی ہے ۔

محترم شیخ صاحب نے فرمایا کہ یہ1920کا واقعہ ہے، میرے دانت نکلنے کا زمانہ تھا، اُس وقت عمر تقریباً ایک سال کی ہو گی ،میرے والدین کے بیان کے مطابق میں اُس وقت بہت کمزور تھا ،بخار کی زیادتی تھی، رفتہ رفتہ بیماری شدت پکڑ گئی اور نمونیہ ہو گیا ،اور سانس بند ہو گیا، حتیٰ کہ میرے والدین نے مجھے مُردہ قرار دے دیا اور رضائی میں لپیٹ کر علیحدہ رکھ دیا ۔

 سب گھر والے میری موت کے صدمہ سے رو روکر نڈھال ہو گئے، میں اُن کا اکلوتا بچہ تھا ۔ میرے ماں باپ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ  کے زیرِ سایہ ایک قریبی مکان میں رہائش پذیر تھے ۔

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ  کو بھی اس اَلم ناک واقعہ کا علم ہوا تو آپ غمگین ہو ئے ،علالت کی تفصیل دریافت فرمائی، چند تعویذ عطا فرمائے اور ہدایت فرمائی کہ ان کی دھونی بچہ کے ناک میں دی جائے۔

میرے ماں باپ کو چونکہ بے حد عقیدت تھی اس لیے اُنہوں نے حسب ِ ارشاد تعمیل کی اور ساتھ ساتھ کفن دفن کی تیاریاں بھی ہو رہی تھیں کہ اچانک رضائی کے اندر سے میرے رونے کی آواز سنائی دی ۔والدہ صاحبہ نے دوڑ کر منہ سے رضائی ہٹائی تو حیران رہ گئی کہ “میں دوبارہ زندہ ہو چکا تھا”۔

ہر طرف خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ یہ اعلیٰ حضر ت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ  کی دُعا کا نتیجہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ اور رحمت سے مجھ کو ایک مرتبہ پھر زندگی عطا فرمائی میری عمر اب پچاس سال سے کچھ زائد ہے مگر میں اب تک اعلیٰ حضرت کی برکتوں کا اثر اپنے اندر محسوس کرتا ہوں۔

(الشاہ احمد رضا از مفتی غلام سرو رقادری مطبوعہ مکتبہ فریدیہ ساہیوال ص 180)