امام اہلسنت سیدی اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہ کی ذاتِ
مُبارکہ،سنتِ مُصْطَفٰے صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی
حقیقی معنی میں آئینہ دار تھی ۔ آپ کا اُٹھنابیٹھنا،کھانا پینا ،چلنا پھرنا اور
بات چیت کرنا،سب سنّت کے مُطابق ہوتا تھا۔
سنّتوں سے مَحَبَّت کا یہ عالَم تھا کہ ایک بار آپ
رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کہیں مَدْعُو تھے،کھانا لگا دِیا گیا،سب کو
سرکارِ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے کھانا شُروع فرمانے کا
اِنتِظار تھا ۔
آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ککڑیوں کے تھال میں سے ایک قاش اُٹھائی اور
تَناوُل فرمائی،پھر دوسری،پھر تیسری، اب دیکھا دیکھی لوگوں نے بھی ککڑی کے تھال کی
طرف ہاتھ بڑھا دیئے۔
مگرآپ
رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے سب کو روک دِیا اور فرمایا،ساری ککڑیاں میں
کھاؤں گا ۔چُنانچہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے سب ختم کر دیں۔
حاضِرین
حیران تھے کہ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ تو بہت کم غِذا
اِستِعمال فرمانے والے ہیں، آج اتنی ساری ککڑیاں کیسے تناوُل فرما گئے ۔۔۔ !
لوگوں کے
اِسْتِفْسار پر فرمایا: میں نے جب پہلی قاش کھائی تو وہ کڑوی تھی اس کے بعد دوسری
اور تیسری بھی ،لہٰذا میں نے دوسروں کو روک دِیا کہ ہو سکتا ہے کوئی صاحِب ککڑی
مُنہ میں ڈال کر کڑوی پا کر تُھو تُھو کرنا شُروع کردیں۔
چُونکہ
ککڑی کھانا میرے میٹھے میٹھے آقا،مدینے والے مُصْطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سُنَّتِ مُبارَکہ ہے ،اِس لئے مجھے گوارا نہ ہوا
کہ اِس کو کھا کرکوئی تُھو تُھو کرے۔
(اعلیٰ
حضرت کا عشق رسول ، ص:9 ،مکتبۃ المدینہ ،
دعوت اسلامی )