جب دریائے نیل میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خط دبایا گیا

 
روایت ہے کہ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں ایک مرتبہ مصرکا دریائے نیل خشک ہوگیا۔ مصری باشندوں نے مصر کے گورنر عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فریاد کی اوریہ کہا کہ مصر کی تمام ترپیداوارکا دارومداراسی دریائے نیل کے پانی پر ہے ۔
اے امیر!اب تک ہمارا یہ دستور رہا ہے کہ جب کبھی بھی یہ دریا سوکھ جاتاتھا تو ہم لوگ ایک خوبصورت کنواری لڑکی کو اس دریا میں زندہ دفن کر کے دریا کی بھینٹ چڑھایا کرتے تھے تو یہ دریا 
جاری ہوجایا کرتاتھا اب ہم کیا کریں ؟

گورنر نے جواب دیا کہ اللہ عز و جل او ر رسول ﷺ  کا رحمت بھرا دینِ اسلام ہرگز ہرگزکبھی بھی اس بے رحمی اور ظالمانہ فعل کی اجازت نہیں دے سکتا لہٰذا تم لوگ انتظار کرو میں دربار خلافت 
میں خط لکھ کر دریافت کرتاہوں وہاں سے جو حکم ملے گا ہم اس پر عمل کریں گے۔



چنانچہ ایک قاصدگورنر کا خط لے کر مدینہ منورہ دربار خلافت میں حاضر ہوا امیرالمؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے گورنر کا خط پڑھ کر دریائے نیل کے نام ایک خط تحریر فرمایا جس کا مضمون یہ تھا کہ ’’ اے دریائے نیل ! اگر تو خود بخود جاری ہوا کرتا تھا تو ہم کو تیری کوئی ضرورت نہیں ہے اوراگر تو 


اللہ تعالیٰ کے حکم سے جاری ہوتا تھا تو پھر اللہ تعالیٰ کے حکم سے جاری ہوجا۔‘‘



امیر المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس خط کو قاصد کے حوالہ فرمایا اورحکم دیا کہ میرے اس خط


 کو دریائے نیل میں دفن کردیا جائے ۔

چنانچہ آپ کے فرمان کے مطابق گورنر مصر نے اس خط کو دریائے نیل کی خشک ریت میں دفن


 کردیا، خدا کی شان کہ جیسے ہی امیر المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خط دریا میں دفن کیا گیا فوراً ہی دریا جاری ہوگیا اوراس کے بعد پھر کبھی خشک نہیں ہوا۔

( کرامات ِ صحابہ ، ص:76۔77 ، مکتبہ المدینہ ، دعوت اسلامی )