حضرتِ سیِّدُنا داتا گنج بخش علی
ہجویری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں:
میں نے شیخ احمد حمّادسَر خسی
عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی سے ان کی توبہ کا سبب پوچھا ، تو کہنے لگے:ایک بار
میں اپنے اُونٹوں کو لے کر سَر خَس کے علاقے سے روانہ ہوا ۔
دورانِ سفر جنگل میں ایک بُھوکے
شیرنے میرا ایک اُونٹ زخمی کر کے گرا دیا اور پھر بُلند ٹیلے پر چڑھ کر غرانے لگا،
اُس کی آواز سنتے ہی بہت سارے دَرِندے اِکٹّھے ہو گئے۔
شَیر نیچے اُترا اور اُس نے اُسی
زَخمی اُونٹ کوچِیرا پھاڑا مگر خود کچھ نہ کھایا بلکہ دوبارہ ٹیلے پر جا بیٹھا ، جَمْعْ
شُدہ درِندے اُونٹ پر ٹوٹ پڑے اور کھا کر چلتے بنے۔
باقی ماندہ گوشْتْ کھانے کیلئے شَیر قریب آیا کہ
ایک لنگڑی لُومڑی دُور سے آتی دِکھائی دی، شیر واپَس اپنی جگہ چلا گیا۔ لُومڑی حسبِ
ضَرورت کھا کر جب جا چکی تب شیر نے اُس گوشت میں سے تھوڑا سا کھایا ۔
میں دُور سے یہ سب دیکھ رہا تھا ، اچانک شیر نے میرا
رُخ کیا اور عمدہ
زبان میں بولا: احمد ! ایک لُقْمہ کا ایثار تو کُتّوں کا کام ہے مَردانِ راہِ حق تو
اپنی جان بھی قربان کر دیا کرتے ہیں ۔
میں نے اِس انوکھے واقِعہ سے متأ
ثر ہو کر اپنے تما م گناہوں سے توبہ کی اور دنیا سے کَنارہ کَش ہو کر اپنے اللہ عَزَّوَجَلَّ
سے لَو لگا لی۔
( فیضانِ داتا علی ہجویری ؛ ص:
35 ، مکتبۃ المدینہ، دعوت ِ اسلامی)
اللہ تعالیٰ کی ان پر رحمت ہو
اور ان کے صدقے ہماری مغفرت ہو ،،، آمین ۔