دو ہفتے پہلے میٹھے چاولوں کی دیگ اتاری تھی، اس دن سے روزانہ میٹھے چاول کھا رہا ہوں




برگد(جسےپنجابی میں بوہڑبھی کہتے ہیں) کے درخت  کے نیچے بیٹھے گاؤں کے کچھ لوگ خوش گپیوں میں  مصروف تھے کہ  حاجی صاحب نے  کسی سے گفتگو کے دوران بولا :ـ 

"دو ہفتے پہلے میٹھے چاولوں کی  دیگ اتاری تھی، اس دن سے روزانہ میٹھے چاول  ہی کھا رہا ہوں"

میٹھے چاول شادّے کی پسندیدہ ڈش تھی جیسے ہی اس  کے کان میں یہ بات پڑی تو اس کے منہ میں پانی آ گیا اور  اس نے کچھ سوچے سمجھے بغیر  یہ فیصلہ کر لیا کہ وہ بھی ایسا ہی کرے گا ، یوں اسے   کافی دن تک میٹھے چاول کھانے کو ملیں گے  ۔۔۔

لہذا اس نے سب سے چھپ کر ساتھ  والی  حویلی میں  میٹھے چاول بنائے اور لا کر "تُوڑی" والے کمرے میں چھپا دئیے ۔۔  

اب وہ چھپ کر  توڑی والے کمرے میں آتا اور مزے سے چاول اڑاتا ۔

 پہلے دن کھائے، دوسری دن بھی کھائے، مگر تیسرے دن اس میں سے بُو آنے لگی مجبوراً باقی چاول ضائع کرنا پڑے ۔۔۔ اگلے دن پھر سے وہ درخت کے نیچے پہنچا تو حاجی صاحب بھی نظر آئے
 
شادّہ حاجی صاحب کے پاس گیا  اور حیرانی سے کہنے لگا " حاجی صاحب میں نے بھی میٹھے چاول بنائے تھے  دو دن کھائے 

تیسرے دن اتنی شدید بدبو آنے لگی کہ مجبوراً ضائع کرنا پڑے۔۔۔ تو آپ  دو ہفتوں سے کیسے کھا رہےہیں  ۔۔۔ ؟

حاجی صاحب  اس کی بات سن کر ہنس پڑے ۔۔۔ اور کہنے لگے "میں نے دو ہفتے پہلے میٹھے چاول کی دیگ اتروا  کر محلے کے ہر گھر میں بانٹ دی تھی۔۔۔ اس کے بعد سے روزانہ جس کسی گھر میں میٹھے چاول پکتے ہیں وہ میرے گھر بھی بھجوادیتا ہے، اس طرح ہر روز کھاتا ہوں ۔۔۔

یقین کیجئے ،،، فقط اللہ عزوجل کی رضا کے لئے   اگر آپ دوسروں کے خوشی غم میں شریک ہوں  گے ، راہ چلتے لوگوں کو سلام کریں گے ، عزیز و اقارب کے لیے خاص وقت نکالیں گے، معاشرے کی فلاح و بہبود پر خرچ کریں ۔مساجد  و مدارس میں خوش دلی سے خوب مالی امدادکریں گے ،

 تو  آپ کی پریشانی  پر اطراف میں ہر کوئی فکرمند دکھائی دے گا، راہ چلتے ہوئے پلٹ کر نجانے کتنے سلام آنے لگیں گے، خوشی غمی میں خود کو تنہا نہیں پائیں گے، مشکل وقت پر عزیز و اقارب آپ کے اسی طرح کام آئیں گے جس طرح آپ آئے ہوں گے ۔۔۔


یہ تعلیمات اسلامیہ ہیں،جن پر اگر ہم عمل پیرا ہوجائیں تو وہ دن دور نہیں ہم  ان شاء اللہ  ایک خوبصورت معاشرہ تشکیل دینے میں کامیاب ہو جائیں گے   ۔