بہو نے ساس کو زہر دینے کی کوشش کی پھر کیا ہوا ؟



فہمیدہ اپنی ساس اور شوہر کے ساتھ رہتی تھی۔ شروع شروع میں تو  صلح صفائی سے دن گزرتے رہے لیکن  کچھ ہی عرصے بعد ان کے درمیان نوک جھونک کا سلسلہ دراز ہونے لگ ۔ .

 نااتفاقیوں نے گھر کا ماحول خراب کردیا جسکی وجہ سے اُس کا شوہر بھی پریشان رہنے لگا تھا۔ فہمیدہ کو محسوس ہوا کہ اب وہ اپنی ساس کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔روز روز کی لڑائیوں کی وجہ خاندان بھر میں رسوائی ہورہی تھی اور الگ رہنا ممکن نہ تھا چنانچہ اس  نے اپنی ساس کو ہی راستے سے ہٹانے کا فیصلہ کرلیا۔

فہمیدہ کے ماموں سمجھدار حکیم تھے۔ وہ اُن کے پاس گئی اور اپنی داستانِ غم سنانے کے بعد کہا: مجھے تھوڑا زہر دے دیں تاکہ اپنی ساس سے پیچھا چھُڑاسکوں۔

فہمیدہ کے  ماموں اس  کا مسئلہ سمجھ گئے لہٰذا انہوں نے اس کے حل کے لئے حکمتِ عملی اپنائی اور کہا: بیٹی! اگر تم اپنی ساس کو مارنے کیلئے فوری زہر استعمال کرو گی تو سب تم پر شک کریں گے، اس لئے میں تمہیں یہ جڑی بوٹیاں دے رہا ہوں یہ آہستہ آہستہ جسم میں اثر  پھیلائیں گی۔

بس تم ہر روز کچھ اچھا پکانا اور اس میں یہ جڑی بوٹیاں ڈال دینا اور ہاں! اگر تم چاہتی ہو کہ کوئی تم پر شک نہ کرے تو یہ خیال رکھنا ہوگا کہ تمہارا رویّہ انکے ساتھ بہت دوستانہ ہو۔ ان سے لڑائی مت کرنا، ان کی ہر بات ماننا اور انکے ساتھ بالکل سگی ماں جیسا برتاؤ کرنا۔

فہمیدہ نے ماموں کو ان باتوں پر عمل کا یقین دلایا اور شکریہ ادا کرتے ہوئے جڑی بوٹیاں لے کر گھر چلی آئی۔ اب وہ موقع بموقع کوئی اچھی چیز پکا کر اپنی ساس کو خاص طور پر پیش کرتی۔

 کسی بھی معاملے میں ساس بات کرتی یا ڈانٹتی تو وہ ماموں جان کی نصیحت کے مطابق غصے پر قابو رکھتے ہوئے اپنی ساس کی خدمت کرتی اور ہر بات کا جواب حسنِ اخلاق سے دیتی۔

چھ مہینے گزر گئے، اب گھر کا نقشہ تقریباً بدل چکا تھا۔ فہمیدہ کی خدمت، باادب گفتگو اور سلیقہ شعاری ساس کو اس قدر بھائی کہ وہ اُسے اپنی بیٹیوں کی طرح سمجھنے لگی۔

ساس کی طبیعت میں نرمی، بہو کی جانب جھکاؤ اور بیٹی جیسا سلوک دیکھ کر فہمیدہ بھی ساس کو اپنی ماں کی طرح سمجھنے لگی تھی۔

فہمیدہ کے اس عمل نے پورے گھر کو امن کا گہوارہ بنادیا تھا ،اس کا شوہر بھی اس سے بہت زیادہ خوش ہوتھا ،پورے خاندان میں اس کی سلیقہ شعاری اور اچھے اخلاق کی دھوم مچ گئی تھی۔

اب فہمیدہ  ایک دن پھر اپنے ماموں جان سے ملنے گئی اورکہنے لگی:تقریباً ایک مہینہ سے میں آپ کی جڑی بوٹیاں اپنی ساس کو نہیں کھلارہی بس اب آپ مجھے کوئی طریقہ بتائیے کہ میں اپنی ساس کو اس زہر کے اثر سے کیسے بچاؤں جو میں نے اُنہیں دے دیا ہے ۔۔۔ ؟ ایسا لگ رہا کہ وہ جڑی بوٹیاں تو کوئی جادوئی شے تھی میری ساس تو بہت بدل گئی ہیں،بلکہ  میں بھی ان سے بہت پیار کرتی ہوں اور میں نہیں چاہتی کہ وہ اس زہر کی وجہ سے مر جائیں۔

ماموں جان مسکرائے اور کہنے لگے: تمہیں ڈرنے کی ضرورت نہیں، میں نے تمہیں ”زہر“ دیا ہی نہیں تھا بلکہ جو جڑی بوٹیاں میں نے تمہیں دی تھیں وہ طاقت کی تھیں تاکہ تمہاری ساس  کی صحت بہتر ہوجائے،  زہر صرف تمہارے ذہن اور رویے میں تھا لیکن وہ سب تم نے اپنے پیار سے ختم کردیا، جاؤ اور خوش و خُرم زندگی گزارو۔

ياد رکھئے! ہمارا رويّہ ، ہمارے الفاظ اور ہمارا لہجہ يہ فیصلہ کرتا ہے کہ دوسرے ہمارے ساتھ کيا رويّہ اپناتے ہيں،اگر آپ چاہتے ہیں کہ دوسرے آپ کی عزت کریں آپ کے حقوق ادا کریں تو آپ ان کی عزت کرنا شروع کردیں ان کے حقوق پورے کرنے میں لگ جائیں،نتیجہ کیا آئے گا پریکٹیکل کرکے دیکھ لیں۔