رائے راجو ایک بہت بڑاہندوجادوگر تھالوگ اسے
اپنے جانوروں کا دودھ دیا کرتےتھےاور اگر کوئی اسے دودھ کا نذرانہ نہ دیتا تو وہ
اس کے جانوروں پر ایسا جادو کرتا کہ جانوروں کےتھنوں سے دودھ کے بجائے خون نکلنے
لگتا۔
ایک دن ایک بوڑھی عورت رائے
راجوکے پاس دودھ لے جارہی تھی کہ حضرت سَیِّدُناداتا علی ہجویری علیہ رحمۃ اللّٰہ
القوی نے اسے بلاکر فرمایا کہ یہ دودھ مجھے دے دو اور جواس کی قیمت بنتی ہے وہ لے
لو ۔
اس بوڑھی عورت نے کہا کہ ہمیں
بہر صورت یہ دودھ رائے راجو کو دینا ہی پڑتا ہے ورنہ ہمارے جانوروں کے تھنوں سے
دودھ کے بجائے خون آنے لگتاہے اس پر حضرت داتا صاحب رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی
عَلَیْہ نے مسکرا کر فرمایا اگر تم یہ دودھ مجھے دے دو تو تمہارے جانوروں کا دودھ
پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ جائےگا ، یہ سنتے ہی اس عورت نے آپ کو دودھ پیش کردیا۔
جب وہ اپنے گھر گئی تویہ دیکھ کر اس کی حیرت کی
انتہانہ رہی کہ اس کے جانوروں میں اس قدر دودھ تھا کہ تمام برتن بھرجانے کے بعد
بھی تھنوں سے دودھ ختم نہیں ہورہا تھا ۔
جب آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ
ِتَعَالٰی عَلَیْہ کی یہ زندہ کرامت لوگوں میں عام ہوئی تو گرد ونواح سے لوگ دودھ
کا نذرانہ لے کر آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کی خدمت میں حاضر ہونے
لگے۔
ایک طرف تو لوگوں کی عقیدت کا
یہ حال تھا اور دوسری طرف رائے راجویہ ماجرادیکھ کرآگ بگولا ہورہا تھا۔آخر کارآپ
رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کی بارگاہ میں حاضر ہوااور انہیں مقابلے کیلئے
للکارا اور کہا کہ اگر آپ کے پاس کوئی کمال ہے تو دکھائیں ۔
آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا
میں کوئی جادوگر نہیں، میں تواللہ تعالیٰ کا ایک عاجز بندہ ہوں، ہاں!اگر تمہارے
پاس کوئی کمال ہے تو تم دکھاؤ۔ یہ سنتے ہی وہ اپنے جادو کے زور پر ہوا میں اڑنے
لگا۔
آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ
ِتَعَالٰی عَلَیْہ یہ دیکھ کرمسکرائے اوراپنے جوتے ہوا میں اچھال دیئے،جوتے رائے
راجو کے ساتھ ساتھ ہوا میں اڑنے لگے۔
آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ
ِتَعَالٰی عَلَیْہ کی یہ کرامت دیکھ کر رائے راجوبہت متأثر ہوااورنہ صرف توبہ کرکے
دائرۂ اسلام میں داخل ہوگیابلکہ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کے ہاتھ
پر بیعت بھی کی اورآپ کی صحبتِ بابرکت سے فیضیاب ہوا۔
حضرت داتا گنج بخش رحمۃ
اللّٰہ تَعالٰی عَلَیْہ نے اس کا نام احمدرکھااور شیخ ہندی کا خطاب عطا فرمایا۔
شیخ ہندی کی اولاد اس وقت سے آج تک خانقاہ کی خدمت کے فرائض انجام دیتی آرہی ہے۔
(فیضانِ داتا گنج بخش ، ص:
9،10 ، مکتبۃالمدینہ ، دعوت اسلامی)