ظاہری پیاس خواب میں بجھائی

                              

حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جن دنوں باغیوں نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مکان کا محاصرہ کرلیا اوران کے گھر میں پانی کی ایک بوند تک کا جانا بند کردیا تھا اورحضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیاس کی شدت سے تڑپتے رہتے تھے میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ملاقات کے لیے حاضرہوا تو آپ اس دن روزہ دار تھے ۔

 مجھ کو دیکھ کرآپ نے فرمایا کہ اے عبداللہ بن سلام!آج میں حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے دیدار پرانوارسے خواب میں مشرف ہوا تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و الہ وسلم نے انتہائی مشفقانہ لہجے میں ارشادفرمایا کہ اے عثمان! رضی اللہ تعالیٰ عنہ ظالموں نے پانی بند کر کے تمہیں پیاس سے بے قرار کردیا ہے؟

میں نے عرض کیا کہ: جی ہاں ! تو فوراً ہی آپ نے دریچی (روشن دان) میں سے ایک ڈول میری طرف لٹکا دیا جو نہایت شیریں اور ٹھنڈے پانی سے بھر اہوا تھا ، میں اس کو پی کر سیراب ہوگیا اوراب اس و قت بیداری کی حالت میں بھی اس پانی کی ٹھنڈک میں اپنی دونوں چھاتیوں اور دونوں کندھوں کے درمیان محسوس کرتا ہوں ۔

 پھر حضوراکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ اے عثمان! اگر تمہاری خواہش ہوتو ان باغیوں کے مقابلہ میں تمہاری امداد ونصرت کروں اوراگر تم چاہو تو ہمارے پاس آکر روزہ افطار کرو۔

 اے عبداللہ بن سلام ! میں نے خوش ہوکر یہ عرض کردیا کہ یارسول اللہ ! عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم آپ کے دربار پر انوار میں حاضر ہوکر روزہ افطار کرنا یہ زندگی سے ہزاروں لاکھوں درجے زیادہ مجھے عزیز ہے۔

 حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اس کے بعد رخصت ہوکر چلا آیا اوراسی دن رات میں باغیوں نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہیدکردیا



(البدایۃ والنھایۃ، ذکرمجیٔ الاحزاب الی عثمان...الخ، ذکر حصر امیر المؤمنین عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ،ج۵، ص۲۶۹)

جب دریائے نیل میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خط دبایا گیا

 
روایت ہے کہ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں ایک مرتبہ مصرکا دریائے نیل خشک ہوگیا۔ مصری باشندوں نے مصر کے گورنر عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فریاد کی اوریہ کہا کہ مصر کی تمام ترپیداوارکا دارومداراسی دریائے نیل کے پانی پر ہے ۔
اے امیر!اب تک ہمارا یہ دستور رہا ہے کہ جب کبھی بھی یہ دریا سوکھ جاتاتھا تو ہم لوگ ایک خوبصورت کنواری لڑکی کو اس دریا میں زندہ دفن کر کے دریا کی بھینٹ چڑھایا کرتے تھے تو یہ دریا 
جاری ہوجایا کرتاتھا اب ہم کیا کریں ؟

گورنر نے جواب دیا کہ اللہ عز و جل او ر رسول ﷺ  کا رحمت بھرا دینِ اسلام ہرگز ہرگزکبھی بھی اس بے رحمی اور ظالمانہ فعل کی اجازت نہیں دے سکتا لہٰذا تم لوگ انتظار کرو میں دربار خلافت 
میں خط لکھ کر دریافت کرتاہوں وہاں سے جو حکم ملے گا ہم اس پر عمل کریں گے۔



چنانچہ ایک قاصدگورنر کا خط لے کر مدینہ منورہ دربار خلافت میں حاضر ہوا امیرالمؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے گورنر کا خط پڑھ کر دریائے نیل کے نام ایک خط تحریر فرمایا جس کا مضمون یہ تھا کہ ’’ اے دریائے نیل ! اگر تو خود بخود جاری ہوا کرتا تھا تو ہم کو تیری کوئی ضرورت نہیں ہے اوراگر تو 


اللہ تعالیٰ کے حکم سے جاری ہوتا تھا تو پھر اللہ تعالیٰ کے حکم سے جاری ہوجا۔‘‘



امیر المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس خط کو قاصد کے حوالہ فرمایا اورحکم دیا کہ میرے اس خط


 کو دریائے نیل میں دفن کردیا جائے ۔

چنانچہ آپ کے فرمان کے مطابق گورنر مصر نے اس خط کو دریائے نیل کی خشک ریت میں دفن


 کردیا، خدا کی شان کہ جیسے ہی امیر المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خط دریا میں دفن کیا گیا فوراً ہی دریا جاری ہوگیا اوراس کے بعد پھر کبھی خشک نہیں ہوا۔

( کرامات ِ صحابہ ، ص:76۔77 ، مکتبہ المدینہ ، دعوت اسلامی )

چند روٹیاں اور اَسّی آدمی


                 
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ( والد حضرت انس ) نے حضرت ام سلیم رضي اﷲ عنہا (والدہ حضرت انس) سے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کی آواز سنی ہے جس میں ضعف محسوس ہوتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ آپ ﷺ بھوکے ہیں۔ کیا تمہارے پاس کھانے کی کوئی چیز ہے؟
                          
 انہوں نے جواب دیا ؛ ہاں  اور چند جَو کی روٹیاں نکال لائیں۔ پھر اپنا ایک دوپٹہ نکالا اور اس کے ایک پلّے میں روٹیاں لپیٹ دیں پھر روٹیاں مجھے دے کر کے باقی دوپٹہ مجھے اُڑھا دیا اور مجھے رسول اللہ ﷺ کی جانب روانہ کر دیا۔
                               
 میں روٹیاں لے کر گیا تو رسول اللہ ﷺ کو مسجد میں پایا چند صحابہ  بھی موجود تھے۔ میں ان کے پاس کھڑا ہوگیا تو حضور ﷺ نے فرمایا: کیا تمہیں ابو طلحہ نے کھانا دے کر بھیجا ہے؟ میں عرض گزار ہوا، جی ہاں۔ 
پس حضور ﷺ نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا، کھڑے ہوجاؤ۔
                    
  پھر آپ ﷺ چل پڑے میں اُن سے آگے چل دیا اور جاکر حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کو بتادیا۔ حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے ام سلیم! رسول اللہ ﷺ لوگوں کو لے کر ہمارے گھر  تشریف لا رہے ہیں اور ہمارے پاس انہیں کھلانے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔
                                   
 انہوں نے کہا : اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں ( کہ اب کیا ہو گا ) ۔ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ فوراً رسول اللہ ﷺ کے استقبال کو نکل کھڑے ہوئے، یہاں تک کہ رسول خدا کے پاس جاپہنچے۔  رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کو ساتھ لیا اور ان کے گھر جلوہ فرما ہوگئے۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے ام سلیم! جو کچھ تمہارے پاس ہے لے آؤ ۔ انہوں نے وہی روٹیاں حاضر خدمت کردیں۔
   
            پھر رسول اللہ ﷺ نے ان کے ٹکڑے کرنے کا حکم فرمایا اور حضرت ام سلیم رضي اﷲ عنہانے سالن کی جگہ سارا گھی نکال کر رکھ دیا  ۔ پھر رسول خدا نے اس پر کچھ پڑھا ۔ پھر فرمایا کہ دس آدمیوں کو کھانے کے لیے بلالو۔  تو ان دس  نے سیر  ہوکر کھانا کھالیا اور چلے گئے۔ پھر فرمایا، دس آدمی کھانے کے لیے اور بلالو۔ چنانچہ وہ بھی سیر ہوکر چلے گئے۔ پھر دس آدمیوں کو کھانے کے لیے اور بلالو۔ پس انہیں بلایا گیا۔ وہ بھی شکم سیر ہوکر چلے گئے۔ پھر دس آدمیوں کو بلانے کے لیے فرمایا گیا اور اسی طرح تمام حضرات نے شکم سیر ہوکر کھانا کھا لیا۔  سب  مہمان ستر یا اسی افراد تھے۔


) صحيح مسلم ، 3 /1612، الرقم: 2040 (

Rabi ul Awwal New Special Cartoon

خندق کھودنے کے دوران آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معجزہ

             
  سعید بن میناء کا بیان ہے کہ میں نے حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ جب خندق کھودی جارہی تھی تو میں نے دیکھا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو سخت بھوک لگی ہے۔
                                
 میں اپنی بیوی کے پاس آکر کہنے لگا کہ کھانے کی کوئی چیز ہے؟ کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو سخت بھوک کی حالت میں دیکھا ہے۔ اس نے بوری نکالی تو اس میں تھوڑےسے  جَو تھے اور ہمارے پاس بکری کا ایک بچہ تھا۔ میں نے بکری کا بچہ ذبح کیا اور بیوی نے جو پیس لئے۔ میں نے گوشت کی بوٹیاں 
بناکر انہیں ہانڈی میں ڈال دیا۔
                      
  جب میں بارگاہ رسالت میں حاضر ہونے کی خاطر جانے لگا تو بیوی نے کہا، کہیں مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھیوں کے سامنے شرمسار نہ کردینا ۔
                          
  میں نے حاضرِ خدمت ہوکر سرگوشی کے انداز میں عرض کی، یا رسول اللہ! ہم نے بکری کا ایک بچہ ذبح کیا ہے اور ہمارے پاس ایک صاع جو کا آٹا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم چند حضرات کو ساتھ لے کر تشریف لے چلیں۔
                       
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے بآواز بلند فرمایا کہ اے خندق والو! جابر نے تمہارے لئے دعوت کا بندوبست کیا ہے لہٰذا آؤ چلو۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ میرے آنے تک ہانڈی نہ اتارنا اور روٹیاں نہ پکوانا۔
                 
  حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم تشریف لے آئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم لوگوں کے آگے آگے تھے۔ جب میں گھر گیا تو بیوی نے گھبرا کر مجھ سے کہا کہ آپ نے تو میرے ساتھ وہی بات کردی جس کا خدشہ تھا۔ میں نے کہا کہ تم نے جو کچھ کہا۔ وہ میں نے عرض کردیا تھا۔
               
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ( تشریف لائے اور )  آٹے میں لعاب دہن ڈالا اور برکت کی دعا مانگی۔ پھر ہنڈیا میں لعاب دہن ڈالا اور دعائے برکت کی۔ اس کے بعد فرمایا کہ روٹی پکانے والی ایک اور بلا لو تاکہ میرے سامنے روٹیاں پکائے اور تمہاری ہانڈی سے گوشت نکال کر دیتی جائے اور فرمایا کہ ہانڈی کو نیچے نہ اتارنا۔
                         
کھانے والوں کی تعداد ایک ہزار تھی۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ خدا کی قسم، سب نے کھانا کھا لیا یہاں تک کہ سارے پیٹ بھر   کر چلے گئے اور کھانا بچ بھی گیا ۔ دیکھا گیا تو ہانڈی میں اتنا ہی گوشت موجود تھا جتنا پکنے کے لئے رکھا تھا اور ہمارا آٹا بھی اتنا ہی تھا جتنا کہ پکانے سے پہلے تھا۔
(صحيح بخاري ؛ 4 /1505، رقم:  3876 )

برکت والا کھانا


 ایک مرتبہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بارگاہ رسالت کے تین مہمانوں کو اپنے گھر 
لائے اورخودحضوراکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوگئے اورگفتگو میں مصروف رہے یہاں تک کہ رات کا کھاناآپ نے دسترخوان نبوت پر کھالیا اور بہت زیادہ رات گزر جانے کے بعد مکان پر واپس تشریف لائے ۔

 ان کی بیوی نے عرض کیا کہ آپ اپنے گھر پر مہمانوں کو بلا کر کہاں غائب رہے ؟حضرت صدیق اکبررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ کیا اب تک تم نے مہمانوں کو کھانا نہیں کھلایا؟بیوی صا حبہ نے کہا کہ میں نے کھانا پیش کیا مگر ان لوگوں نے صاحب خانہ کی غیر موجودگی میں کھانا کھانے سے انکار کردیا ۔

یہ سن کر آ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے صاحبزادے حضرت عبدالرحمن رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر بہت زیادہ خفا ہوئے اور وہ خوف ودہشت کی و جہ سے چھپ گئے اورآپ کے سامنے نہیں آئے پھر جب آپ کا غصہ ختم ہوگیا تو آپ مہمانوں کے ساتھ کھانے کے لیے بیٹھ گئے اورسب مہمانوں نے خوب شکم سیر ہوکر کھانا کھالیا۔

 ان مہمانوں کا بیان ہےکہ جب ہم کھانے کے برتن میں سے لقمہ اٹھاتے تھے تو جتنا کھانا ہاتھ میں آتا تھا اس سے کہیں زیادہ کھانا برتن میں نیچے سے ابھر کر بڑھ جاتا تھا اورجب ہم کھانے سے فارغ ہوئے تو کھانا بجائے کم ہونے کے برتن میں پہلے سے زیادہ ہوگیا۔

 حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے متعجب ہوکر اپنی بیوی صا حبہ سے فرمایا کہ یہ کیا معاملہ ہے کہ برتن میں کھانا پہلے سے کچھ زائد نظر آتاہے ۔

بیوی صا حبہ نے قسم کھاکر کہا: واقعی یہ کھانا تو پہلے سے تین گنا بڑھ گیا ہے ۔  پھرآپ اس کھانے کو اٹھا کر بارگاہ رسالت  ﷺ میں لے گئے ۔

 جب صبح ہوئی تو ناگہاں مہمانوں کا ایک قافلہ درباررسالت میں اتراجس میں بارہ قبیلوں کے بارہ سردار تھے اور ہر سردار کے ساتھ بہت سے دوسرے اونٹ سوار بھی تھے ۔

ان سب لوگوں نے یہی کھانا کھایااورقافلہ کے تمام سرداراورتمام مہمانوں نے اس کھانے کو شکم سیر  ہو کر کھایا  ، لیکن پھر بھی اس برتن میں کھانا ختم نہیں ہوا


(صحیح البخاری،کتاب المنا قب،باب علامات النبوۃ فی الاسلام، الحدیث: ۳۵۸۱، ج۲، ص۴۹۵ بالاختصار)  

بہو نے ساس کو زہر دینے کی کوشش کی پھر کیا ہوا ؟



فہمیدہ اپنی ساس اور شوہر کے ساتھ رہتی تھی۔ شروع شروع میں تو  صلح صفائی سے دن گزرتے رہے لیکن  کچھ ہی عرصے بعد ان کے درمیان نوک جھونک کا سلسلہ دراز ہونے لگ ۔ .

 نااتفاقیوں نے گھر کا ماحول خراب کردیا جسکی وجہ سے اُس کا شوہر بھی پریشان رہنے لگا تھا۔ فہمیدہ کو محسوس ہوا کہ اب وہ اپنی ساس کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔روز روز کی لڑائیوں کی وجہ خاندان بھر میں رسوائی ہورہی تھی اور الگ رہنا ممکن نہ تھا چنانچہ اس  نے اپنی ساس کو ہی راستے سے ہٹانے کا فیصلہ کرلیا۔

فہمیدہ کے ماموں سمجھدار حکیم تھے۔ وہ اُن کے پاس گئی اور اپنی داستانِ غم سنانے کے بعد کہا: مجھے تھوڑا زہر دے دیں تاکہ اپنی ساس سے پیچھا چھُڑاسکوں۔

فہمیدہ کے  ماموں اس  کا مسئلہ سمجھ گئے لہٰذا انہوں نے اس کے حل کے لئے حکمتِ عملی اپنائی اور کہا: بیٹی! اگر تم اپنی ساس کو مارنے کیلئے فوری زہر استعمال کرو گی تو سب تم پر شک کریں گے، اس لئے میں تمہیں یہ جڑی بوٹیاں دے رہا ہوں یہ آہستہ آہستہ جسم میں اثر  پھیلائیں گی۔

بس تم ہر روز کچھ اچھا پکانا اور اس میں یہ جڑی بوٹیاں ڈال دینا اور ہاں! اگر تم چاہتی ہو کہ کوئی تم پر شک نہ کرے تو یہ خیال رکھنا ہوگا کہ تمہارا رویّہ انکے ساتھ بہت دوستانہ ہو۔ ان سے لڑائی مت کرنا، ان کی ہر بات ماننا اور انکے ساتھ بالکل سگی ماں جیسا برتاؤ کرنا۔

فہمیدہ نے ماموں کو ان باتوں پر عمل کا یقین دلایا اور شکریہ ادا کرتے ہوئے جڑی بوٹیاں لے کر گھر چلی آئی۔ اب وہ موقع بموقع کوئی اچھی چیز پکا کر اپنی ساس کو خاص طور پر پیش کرتی۔

 کسی بھی معاملے میں ساس بات کرتی یا ڈانٹتی تو وہ ماموں جان کی نصیحت کے مطابق غصے پر قابو رکھتے ہوئے اپنی ساس کی خدمت کرتی اور ہر بات کا جواب حسنِ اخلاق سے دیتی۔

چھ مہینے گزر گئے، اب گھر کا نقشہ تقریباً بدل چکا تھا۔ فہمیدہ کی خدمت، باادب گفتگو اور سلیقہ شعاری ساس کو اس قدر بھائی کہ وہ اُسے اپنی بیٹیوں کی طرح سمجھنے لگی۔

ساس کی طبیعت میں نرمی، بہو کی جانب جھکاؤ اور بیٹی جیسا سلوک دیکھ کر فہمیدہ بھی ساس کو اپنی ماں کی طرح سمجھنے لگی تھی۔

فہمیدہ کے اس عمل نے پورے گھر کو امن کا گہوارہ بنادیا تھا ،اس کا شوہر بھی اس سے بہت زیادہ خوش ہوتھا ،پورے خاندان میں اس کی سلیقہ شعاری اور اچھے اخلاق کی دھوم مچ گئی تھی۔

اب فہمیدہ  ایک دن پھر اپنے ماموں جان سے ملنے گئی اورکہنے لگی:تقریباً ایک مہینہ سے میں آپ کی جڑی بوٹیاں اپنی ساس کو نہیں کھلارہی بس اب آپ مجھے کوئی طریقہ بتائیے کہ میں اپنی ساس کو اس زہر کے اثر سے کیسے بچاؤں جو میں نے اُنہیں دے دیا ہے ۔۔۔ ؟ ایسا لگ رہا کہ وہ جڑی بوٹیاں تو کوئی جادوئی شے تھی میری ساس تو بہت بدل گئی ہیں،بلکہ  میں بھی ان سے بہت پیار کرتی ہوں اور میں نہیں چاہتی کہ وہ اس زہر کی وجہ سے مر جائیں۔

ماموں جان مسکرائے اور کہنے لگے: تمہیں ڈرنے کی ضرورت نہیں، میں نے تمہیں ”زہر“ دیا ہی نہیں تھا بلکہ جو جڑی بوٹیاں میں نے تمہیں دی تھیں وہ طاقت کی تھیں تاکہ تمہاری ساس  کی صحت بہتر ہوجائے،  زہر صرف تمہارے ذہن اور رویے میں تھا لیکن وہ سب تم نے اپنے پیار سے ختم کردیا، جاؤ اور خوش و خُرم زندگی گزارو۔

ياد رکھئے! ہمارا رويّہ ، ہمارے الفاظ اور ہمارا لہجہ يہ فیصلہ کرتا ہے کہ دوسرے ہمارے ساتھ کيا رويّہ اپناتے ہيں،اگر آپ چاہتے ہیں کہ دوسرے آپ کی عزت کریں آپ کے حقوق ادا کریں تو آپ ان کی عزت کرنا شروع کردیں ان کے حقوق پورے کرنے میں لگ جائیں،نتیجہ کیا آئے گا پریکٹیکل کرکے دیکھ لیں۔


دو ہفتے پہلے میٹھے چاولوں کی دیگ اتاری تھی، اس دن سے روزانہ میٹھے چاول کھا رہا ہوں




برگد(جسےپنجابی میں بوہڑبھی کہتے ہیں) کے درخت  کے نیچے بیٹھے گاؤں کے کچھ لوگ خوش گپیوں میں  مصروف تھے کہ  حاجی صاحب نے  کسی سے گفتگو کے دوران بولا :ـ 

"دو ہفتے پہلے میٹھے چاولوں کی  دیگ اتاری تھی، اس دن سے روزانہ میٹھے چاول  ہی کھا رہا ہوں"

میٹھے چاول شادّے کی پسندیدہ ڈش تھی جیسے ہی اس  کے کان میں یہ بات پڑی تو اس کے منہ میں پانی آ گیا اور  اس نے کچھ سوچے سمجھے بغیر  یہ فیصلہ کر لیا کہ وہ بھی ایسا ہی کرے گا ، یوں اسے   کافی دن تک میٹھے چاول کھانے کو ملیں گے  ۔۔۔

لہذا اس نے سب سے چھپ کر ساتھ  والی  حویلی میں  میٹھے چاول بنائے اور لا کر "تُوڑی" والے کمرے میں چھپا دئیے ۔۔  

اب وہ چھپ کر  توڑی والے کمرے میں آتا اور مزے سے چاول اڑاتا ۔

 پہلے دن کھائے، دوسری دن بھی کھائے، مگر تیسرے دن اس میں سے بُو آنے لگی مجبوراً باقی چاول ضائع کرنا پڑے ۔۔۔ اگلے دن پھر سے وہ درخت کے نیچے پہنچا تو حاجی صاحب بھی نظر آئے
 
شادّہ حاجی صاحب کے پاس گیا  اور حیرانی سے کہنے لگا " حاجی صاحب میں نے بھی میٹھے چاول بنائے تھے  دو دن کھائے 

تیسرے دن اتنی شدید بدبو آنے لگی کہ مجبوراً ضائع کرنا پڑے۔۔۔ تو آپ  دو ہفتوں سے کیسے کھا رہےہیں  ۔۔۔ ؟

حاجی صاحب  اس کی بات سن کر ہنس پڑے ۔۔۔ اور کہنے لگے "میں نے دو ہفتے پہلے میٹھے چاول کی دیگ اتروا  کر محلے کے ہر گھر میں بانٹ دی تھی۔۔۔ اس کے بعد سے روزانہ جس کسی گھر میں میٹھے چاول پکتے ہیں وہ میرے گھر بھی بھجوادیتا ہے، اس طرح ہر روز کھاتا ہوں ۔۔۔

یقین کیجئے ،،، فقط اللہ عزوجل کی رضا کے لئے   اگر آپ دوسروں کے خوشی غم میں شریک ہوں  گے ، راہ چلتے لوگوں کو سلام کریں گے ، عزیز و اقارب کے لیے خاص وقت نکالیں گے، معاشرے کی فلاح و بہبود پر خرچ کریں ۔مساجد  و مدارس میں خوش دلی سے خوب مالی امدادکریں گے ،

 تو  آپ کی پریشانی  پر اطراف میں ہر کوئی فکرمند دکھائی دے گا، راہ چلتے ہوئے پلٹ کر نجانے کتنے سلام آنے لگیں گے، خوشی غمی میں خود کو تنہا نہیں پائیں گے، مشکل وقت پر عزیز و اقارب آپ کے اسی طرح کام آئیں گے جس طرح آپ آئے ہوں گے ۔۔۔


یہ تعلیمات اسلامیہ ہیں،جن پر اگر ہم عمل پیرا ہوجائیں تو وہ دن دور نہیں ہم  ان شاء اللہ  ایک خوبصورت معاشرہ تشکیل دینے میں کامیاب ہو جائیں گے   ۔

گورنر کا خواب



حضرت ابراھیم بن بشار عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہ الغفّار فرماتے ہیں کہ ایک دن میں حضرت ابراھیم بن ادھم علیہ رحمۃُ اللہ الاکرم کے ساتھ صحراء میں شریک سفر تھا کہ ہمیں ایک قبرنظر آئی ۔

حضرت سَیِّدُنا ابراھیم بن ادھم علیہ رحمۃُ اللہ الاکرم اس قبر پر تشریف لے گئے اور قبر والے کے لئے دعائے مغفرت کی ، پھر رونے لگے۔

 میں نے عرض کی:یہ قبر کس کی ہے؟ جواب دیا:یہ قبر حمید بن ابراہیم (رَحمَۃُ اللّٰہ تعالٰی علیہ)کی ہے جویہاں کے تمام شہروں کے گورنر تھے اور دنیا کی محبت میں غرق تھے ،  اللہ عَزَّوَجَلَّ نے انہیں بچا لیا۔

اتنا کہنے کے بعد فرمایا: یہ ایک دن اپنی مملکت کی وسعت اور دنیاوی مال ودولت کی کثرت سے بہت خوش تھے ،اسی دوران جب یہ سوئے تو خواب میں دیکھا کہ ایک شخص جس کے ہاتھ میں ایک کتاب تھی، ان کے سرہانے آن کھڑا ہوا ۔

 حمید نے اس شخص سے کتاب لے کر اسے کھولا تو اس میں جَلی حروف سے لکھاتھا:فنا ہوجانے والی کو باقی رہ جانے والی پر ترجیح نہ دے اور اپنی مملکت، حکومت، بادشاہت، خُدام ، غلام اور لذات وخواہشات میں کھو کر غافل مت ہوجا ،

بے شک جس میں تو مگن ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں ، بظاہر جو تیری ملکیت ہے وہ حقیقتاً ہلاکت ہے ، جو فرح وسرور ہے وہ حقیقت میں لھو وغرور ہے ، جوآج ہے اس کا کل کچھ پتہ نہیں ، اللّٰہ عزوَجل کی بارگاہ میں جلدی حاضر ہوجاؤ کیونکہ اس کا فرمان ہے

 ترجمۂ کنزالایمان:اور دوڑو اپنے رب کی بخشش اور ایسی جنت کی طرف جس کی چوڑان میں سب آسمان اور زمین آجائیں ،پرہیز گاروں کے لئے تیار کر رکھی ہے ۔
( پ۴، اٰل عمران:۱۳۳ )

جب یہ نیند سے بیدار ہوئے تو بے اختیار ان کے منہ سے نکلا :یہ  اللّٰہ عزوَجَل کی طرف سے تنبیہ اور نصیحت ہے ۔پھر کسی کو کچھ بتائے بغیر یہ اپنے ملک سے نکل آئے اور ان پہاڑوں میں آ بسے ۔

جب مجھے ان کا واقعہ معلوم ہوا تو میں نے انہیں تلاش کیا اور ان سے اس بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے یہ واقعہ مجھے سنایا ،پھر میں نے بھی انہیں اپنا واقعہ سنایا۔ میں برابر ان سے ملاقات کے لئے آتا رہا ، یہاں تک کہ ان کا انتقال ہوگیا اور یہیں ان کو دفن کر دیا گیا۔

اللہ  تعالیٰ کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری مغفرت ہو ،، ، آمین ۔
(نیکیاں برباد ہونے سے بچائیے ، ص : 57 ، مکتبۃ المدینہ ، دعوت اسلامی )  


محمود و ایاز اور ککڑی کی قاش


 
       منقول ہے  کہ  مشہور عاشقِ رسول ، سلطان محمود غزنوی علیہ رَحمۃُ اللّٰہ القوی کے پاس کوئی شخص ککڑی لے کر حاضِر ہوا۔ سُلطان نے ککڑی قَبول فرما لی اور پیش کرنے والے کو انعام دیا ۔

 پھر اپنے ہاتھ سے ککڑی کی ایک قاش تراش کر اپنے منظورِ نظر غلام ایاز کو عطا فرمائی۔ ایاز مزے لے لے کر کھا گیا۔پھر سلطان نے دوسری پھانک کاٹی اور خود کھانے لگے تو وہ اس قَدَر کڑوی تھی کہ زَبان پر رکھنا مشکل تھا ۔

 سلطان نے حیرت سے ایاز کی طرف دیکھا اور فرمایا:’’ ایاز! اتنی کڑوی پھانک تُو کیسے کھا گیا ؟ واہ ! تیرے چہرے پر توذرّہ برابر ناگواری کے اثرات بھی نُمُودار نہ ہوئے ؟‘‘

 ایاز نے عرض کیا: ’’عالی جاہ! ککڑی واقِعی بَہُت کڑوی تھی۔ مُنہ میں ڈالی توعَقْل نے کہا :’’ تھوک دے ۔‘‘ مگر عشق بول اُٹھا:’’ ایاز خبردار! یہ وُہی ہاتھ ہیں جن سے روزانہ میٹھی اَشیاء کھاتا رہا ہے، اگر ایک دن کڑوی چیز مل گئی تو کیاہوا! اِس کو تھوک دینا آدابِ محبت کے خلاف ہے لہٰذا عشق کی رہنمائی پرمیں ککڑی کی کڑوی قاش کھا گیا۔‘‘

اپنے مولا  کی اس قدر نعمتیں استعمال کرنے والا انسان  اگر ایاز کی طرح سوچ بنا لے تو بے صبری کبھی قریب سے بھی نہیں گزر سکتی۔

اللہ تعالیٰ کی ان پررحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری مغفرت ہو ،،، آمین ۔


(نیکیاں برباد ہونے سے بچائیے ، ص:47 ، مکتبۃ المدینہ ، دعوت اسلامی)

محمود و ایاز اور ککڑی کی قاش


 
       منقول ہے  کہ  مشہور عاشقِ رسول ، سلطان محمود غزنوی علیہ رَحمۃُ اللّٰہ القوی کے پاس کوئی شخص ککڑی لے کر حاضِر ہوا۔ سُلطان نے ککڑی قَبول فرما لی اور پیش کرنے والے کو انعام دیا ۔

 پھر اپنے ہاتھ سے ککڑی کی ایک قاش تراش کر اپنے منظورِ نظر غلام ایاز کو عطا فرمائی۔ ایاز مزے لے لے کر کھا گیا۔پھر سلطان نے دوسری پھانک کاٹی اور خود کھانے لگے تو وہ اس قَدَر کڑوی تھی کہ زَبان پر رکھنا مشکل تھا ۔

 سلطان نے حیرت سے ایاز کی طرف دیکھا اور فرمایا:’’ ایاز! اتنی کڑوی پھانک تُو کیسے کھا گیا ؟ واہ ! تیرے چہرے پر توذرّہ برابر ناگواری کے اثرات بھی نُمُودار نہ ہوئے ؟‘‘

 ایاز نے عرض کیا: ’’عالی جاہ! ککڑی واقِعی بَہُت کڑوی تھی۔ مُنہ میں ڈالی توعَقْل نے کہا :’’ تھوک دے ۔‘‘ مگر عشق بول اُٹھا:’’ ایاز خبردار! یہ وُہی ہاتھ ہیں جن سے روزانہ میٹھی اَشیاء کھاتا رہا ہے، اگر ایک دن کڑوی چیز مل گئی تو کیاہوا! اِس کو تھوک دینا آدابِ محبت کے خلاف ہے لہٰذا عشق کی رہنمائی پرمیں ککڑی کی کڑوی قاش کھا گیا۔‘‘

اپنے مولا  کی اس قدر نعمتیں استعمال کرنے والا انسان  اگر ایاز کی طرح سوچ بنا لے تو بے صبری کبھی قریب سے بھی نہیں گزر سکتی۔

اللہ تعالیٰ کی ان پررحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری مغفرت ہو ،،، آمین ۔


(نیکیاں برباد ہونے سے بچائیے ، ص:47 ، مکتبۃ المدینہ ، دعوت اسلامی)

سفید پوشاک میں آکر مدد کرنے والے یہ بزرگ کو ن تھے ؟


                                                
 منسوب احمد صاحب جو سیدی اعلیٰ حضرت  رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ایک چاہنے والے اور نیک پرہیز گار ، تہجد گزار ہستی تھے ۔ایک روز ان کے اوائلِ عمر کے زمانہ کے احباب میں سے دوشخص ملنے آئے اور اپنے ساتھ بازار میں اس طرف لے گئے جہاں ایک طوائف کا مکان تھا۔

دونوں طرف سے آدمیوں نے ان کے ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیئے اور طوائف کے دروازہ تک لے گئے۔ وہ دو تھے اور یہ اکیلے۔انہوں نے اعلیٰ حضرت سے دل ہی دل میں رجوع کیااور دل ہی دل میں امدادکے طالب ہوئے ۔

دیکھتے کیا ہیں کہ حضورسیدی اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ایک سفید پوشاک پہنے جلوہ فرماہیں اور دونوں ہاتھوں سے عصائے مبارک پر زور دیئے ہوئے ہیں،اورٹھوڑی عصائے مبارک پر قائم ہے۔

موصوف کا بیان ہے کہ جس وقت میری نظر حضور پر پڑی، میرے جسم میں ایسی طاقت آگئی کہ باوجود کمزور ہونے کے ان دونوں کی گرفت سے اپنے آپ کو چھڑوا لیا اور دوڑ کر اپنے مکان میں لوٹ آیا۔

اللہ تعالیٰ کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری مغفرت ہو ،،، آمین ۔

(حیاتِ اعلیٰ حضرت ص955 از مولانا ظفر الدین بہاری مکتبہ نبویہ لاہور)

کڑوی ککڑی کھانے کی کیا وجہ تھی ؟


 

امام اہلسنت سیدی اعلیٰ حضرت  رَحْمَۃُ اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہ کی ذاتِ مُبارکہ،سنتِ مُصْطَفٰے صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی حقیقی معنی میں آئینہ دار تھی ۔ آپ کا اُٹھنابیٹھنا،کھانا پینا ،چلنا پھرنا اور بات چیت کرنا،سب سنّت کے مُطابق ہوتا تھا۔

سنّتوں سے مَحَبَّت کا یہ عالَم تھا کہ ایک بار آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کہیں مَدْعُو تھے،کھانا لگا دِیا گیا،سب کو سرکارِ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے کھانا شُروع فرمانے کا اِنتِظار تھا ۔

آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  نے ککڑیوں کے تھال میں سے ایک قاش اُٹھائی اور تَناوُل فرمائی،پھر دوسری،پھر تیسری، اب دیکھا دیکھی لوگوں نے بھی ککڑی کے تھال کی طرف ہاتھ بڑھا دیئے۔

 مگرآپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے سب کو روک دِیا اور فرمایا،ساری ککڑیاں میں کھاؤں گا ۔چُنانچہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے سب ختم کر دیں۔

 حاضِرین حیران تھے کہ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ تو بہت کم غِذا اِستِعمال فرمانے والے ہیں، آج اتنی ساری ککڑیاں کیسے تناوُل فرما گئے  ۔۔۔ !

 لوگوں کے اِسْتِفْسار پر فرمایا: میں نے جب پہلی قاش کھائی تو وہ کڑوی تھی اس کے بعد دوسری اور تیسری بھی ،لہٰذا میں نے دوسروں کو روک دِیا کہ ہو سکتا ہے کوئی صاحِب ککڑی مُنہ میں ڈال کر کڑوی پا کر تُھو تُھو کرنا شُروع کردیں۔

 چُونکہ ککڑی کھانا میرے میٹھے میٹھے آقا،مدینے والے مُصْطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سُنَّتِ مُبارَکہ ہے ،اِس لئے مجھے گوارا نہ ہوا کہ اِس کو کھا کرکوئی تُھو تُھو کرے۔


(اعلیٰ حضرت کا عشق رسول ، ص:9  ،مکتبۃ المدینہ ، دعوت اسلامی )

زمین میں دبایا گیا پیسہ اپنی جگہ کب بدلتا ہے ؟



  
  پیلی بھیت کی ایک سیدانی صاحبہ نے اعلیٰ حضرت کی خدمت میں عرض کیا حضرت! ایک سال ہوا میں نے کچھ روپے اور اشرفیاں اپنے کمرے کے ایک کونے میں زمین کے اندر  دبا دیئے تھے مگر اب وہاں دیکھتی ہوں تو نہیں ہیں،لڑکی کی شادی قریب ہے اور اسی لئے رکھے تھے ۔

اعلیٰ حضرت نے فرمایاکہ’’وہ اب اس جگہ نہیں ہیں بلکہ وہاں سے ہٹ کر کوٹھڑی میں فلاں جگہ پہنچ گئے ہیں‘‘۔اُس جگہ تلاش کئے گئے تو سب کے سب مل گئے ۔

اعلیٰ حضرت نے ارشاد فرمایا ’’بغیر بسم اللہ کہے اگر روپیہ دفن کیا جائے تو وہ اپنی جگہ قائم نہیں رہتا‘‘۔

اللہ تعالیٰ کی ان پر رحمت ہواور  ان کے صدقے ہماری مغفرت ہو ،،، آمین۔


)حیاتِ اعلیٰ حضرت ص981 از مولانا ظفر الدین بہاری مکتبہ نبویہ لاہور(

زمین میں دبایا گیا پیسہ اپنی جگہ کب بدلتا ہے ؟



  
  پیلی بھیت کی ایک سیدانی صاحبہ نے اعلیٰ حضرت کی خدمت میں عرض کیا حضرت! ایک سال ہوا میں نے کچھ روپے اور اشرفیاں اپنے کمرے کے ایک کونے میں زمین کے اندر  دبا دیئے تھے مگر اب وہاں دیکھتی ہوں تو نہیں ہیں،لڑکی کی شادی قریب ہے اور اسی لئے رکھے تھے ۔

اعلیٰ حضرت نے فرمایاکہ’’وہ اب اس جگہ نہیں ہیں بلکہ وہاں سے ہٹ کر کوٹھڑی میں فلاں جگہ پہنچ گئے ہیں‘‘۔اُس جگہ تلاش کئے گئے تو سب کے سب مل گئے ۔

اعلیٰ حضرت نے ارشاد فرمایا ’’بغیر بسم اللہ کہے اگر روپیہ دفن کیا جائے تو وہ اپنی جگہ قائم نہیں رہتا‘‘۔

اللہ تعالیٰ کی ان پر رحمت ہواور  ان کے صدقے ہماری مغفرت ہو ،،، آمین۔


)حیاتِ اعلیٰ حضرت ص981 از مولانا ظفر الدین بہاری مکتبہ نبویہ لاہور(