عاشوراء کی برکت سے تاجر کو جنت کی پوشاک کیسے ملی ؟



 مصر میں کھجوروں کا ایک تاجر رہتا تھاجس کا نام عطیہ بن خلف تھا۔ وہ بہت مال دار تھا پھر اچانک فقیر ہو گیا کہ اس کے پاس تن ڈھانپنے کے لئے ایک کپڑے کے سواکچھ بھی باقی نہ بچا۔

 جب عاشوراء کا دن آیا تو اس نے جامع مسجد عمرو بن عاص میں نمازِ فجر اداکی۔وہ ایک طرف کھڑا تھا کہ ایک عورت اپنے ساتھ یتیم بچوں کو لے کر اس کے پاس آئی اور کہنے لگی:'' جناب ! میں اللہ کے نام پرسوال کرتی ہوں کہ آپ میری مشکل آسان کر دیجئے،مجھے کچھ عنایت فرمائیے جس سے میں ان بچوں کی غذا حاصل کر سکوں کیونکہ ان کا باپ مرچکاہے اور اس نے ان کے لئے کچھ نہیں چھوڑا۔ میں ایک عزت دارخاتون ہوں۔میراکوئی واقف کار بھی نہیں کہ اس کے پاس جاسکوں۔ آج محض اس ضرورت و حاجت کی وجہ سے مجھے ذلیل ہو کر گھر سے نکلنا پڑا ورنہ  مجھے مانگنے کی عادت نہیں ہے۔

'' تاجر کو وہ  عام بھیک منگوں کی طرح نہیں بلکہ ایک  واقعی ضرورت مند سچی عورت لگی پھر اپنے دل میں سوچاکہ میں توکسی چیز کا مالک نہیں اور اس لباس کے سوا میرے پاس کوئی چیز بھی نہیں۔اب اگر میں یہ لباس اس کودیتا ہوں تو خود برہنہ ہو جاؤں گااور اگر اس کو خالی لوٹاتا ہوں تو حضور ﷺ  کی بارگاہ میں کیا عذر پیش کروں گا۔

بہرحال اس نے عورت سے کہا: '' میرے ساتھ چلو، میں تمہیں کچھ دوں گا۔''وہ عورت اس کے ساتھ اس کے گھر گئی۔ تاجر نے اس کو دروازے سے باہر کھڑا کر دیااور خود گھر میں داخل ہو کر اپنے کپڑے بدل کر ایک پھٹا پرانا کپڑا لپیٹ لیا اور وہ لباس اس عورت کو دے دیا۔

عورت نے اس کے حق میں دعاکی:'' اللہ آپ کو جنّتی پوشاک پہنائے اور آپ کو بقیہ عمر کسی کامحتاج نہ کرے'' تاجر عورت کی دعا سن کربہت خوش ہوا ۔اس نے دروازہ بند کیااورپھر گھر میں داخل ہو کررات گئے تک ذکر ِ الٰہی میں مشغول ہو گیا۔

 جب رات کو سویا تو خواب میں ایک ایسی حسین و جمیل حُوردیکھی ۔ اس کے ہاتھ میں ایک سیب تھا جس کی خوشبو ہر طرف پھیلی ہوئی تھی۔ حور نے وہ سیب تاجرکو دیاتو اس میں سے ایک جنّتی حُلّہ نکلا جس کی قیمت ساری دنیابھی نہ بن سکے۔

اس نے وہ لباس تاجر کو پہنایااور خود اس کے قریب بیٹھ گئی۔ تاجر نے پوچھا: '' تم کون ہو؟'' بولی:''میرا نام عاشوراء ہے اورمیں تیری جنتی بیوی ہوں۔''تاجر نے پوچھا:'' مجھے یہ مقام ومرتبہ کیسے ملا؟'' تو اس نے جواب دیا:'' اس بیوہ اور یتیم بچوں کی دعا کی وجہ سے جن پر تو نے کل احسان کیاتھا۔

''جب تاجربیدار ہوا تو وہ اتنا خوش تھا جیسے اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اس کا سارا گھر جنّتی لباس کی خوشبو سے بھرا ہوا تھا۔اس نے وضوکر کے اللہ تعالیٰ  کا شکر بجا لاتے ہوئے دو رکعت نماز ادا کی۔ پھر آسمان کی جانب منہ اُٹھا کر عرض کی: '' اے میرے پروردگار  ۔۔۔ ! اگر میرا خواب سچا ہے اورجنت میں میری بیوی عاشوراء ہو گی تومجھے اپنی بارگاہ میں واپس بلا لے۔'' ابھی اس کی دعا پوری ہوتے ہی  اس کا انتقال ہوگیا ۔
اللہ تعالیٰ کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری مغفرت ہو



)نزھۃ المجالس،کتاب الصوم،باب فضل صیام عاشوراء ۔۔۔   الخ،ج1، ص233)