حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور خیمہ


مسلمانوں کے ایمانی جذبے  کے آگے بڑی بڑ ی طاقتیں  ٹھہرنہیں پا رہی تھیں ۔ مسلمان جہاں کا بھی رخ کرتے تھے اللہ کے فضل و کرم سے کامیابی ان کے قدم چومتی تھی  اور فتوحا ت کے دروازے کھلتے چلے جاتے تھے ۔
                                 
 یہ کامیابیوں اور فتوحات  کا سفر    طے کرتے  کرتے ایک دن ایسا آیا کہ مسلمان  پورا اسکندریہ بھی فتح کرنے میں کامیاب ہو گئے  ۔  اس دور میں  اس  لشکر کےسپہ سالار  حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  تھےچنانچہ یہ خبر اپنے  سپہ سالار  تک پہنچانے کے لیے ایلچی روانہ کر دیا گیا ۔
                           
مسلمانوں کے عظیم  سپہ سالار  حضرت عمر وبن عاص  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اس وقت پچھلے مقام ’’فسطاط‘‘  پر تھے، فسطاط عربی میں ا س خیمہ کو کہتے ہیں جو سفر کے دوران لگایا جاتا ہے ۔   آپ کو جب  اسکندریہ کے فتح ہونے کی خبر ملی تو   آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وہاں جانے کا ارادہ فرمایا اور  ضروری سامان جمع فرمانے کے بعد  آپ رضی اللہ  تعالی ٰ نےحکم دیا کہ  خیمہ اکھاڑ دیا جائے  ۔
                        
  سپاہی خیمہ اکھاڑ نے لگے تو آپ رضی اللہ تعالیٰ کی نظر خیمے کے اندر بنے ایک گھونسلے پر پڑی جب دیکھا تو  وہ ایک کبوتر کا گھونسلہ تھا ۔ یہ دیکھ کر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خیمہ اکھاڑنے سے منع فرما دیا اور فرمایا کہ ہمارے مہمان کو تکلیف ہو گی ۔
                          
چنانچہ ایک کبوترکے  آرام و سکون کی خاطر اور اس کو تکلیف سے بچانے کے لیے اس   خیمہ کو  وہیں چھوڑ دیا گیا اور آپ رضی اللہ تعالیٰ نے اسکندریہ کی طرف  سفر شروع کر دیا ۔
                          
کچھ عرصے بعد آپ رضی اللہ تعالی ٰ عنہ کا  واپس وہاں سے گزر  ہوا تو  آپ رضی اللہ عنہ  نے حکم دیا کہ اس جگہ پر ایک شہر قائم کیا جائے  اورآپ  رضی اللہ تعالی ٰ نے اس شہر کا نام  بھی کبوتر کے اس خیمے کی  مناسبت سے ’’فسطاط ‘‘ رکھا اور مکمل مصر فتح ہو جانے کے بعد  یہی شہر اس کا  پہلا دار الحکومت بھی بنا  ۔ 
( سچی حکایات ؛ ص 77۔78 ؛ فرید بک اسٹال لاہور )
                      
معلوم ہوا کہ مسلمانوں کا حسن اخلاق اتنا بلند و بالا اور خوبصورت  رہا ہے کہ پرندے اور جانور بھی  ان کی طرف سے تکلیف سے  بچے رہے ۔  تو اگر آج کا مسلمان اپنے ہی بھائی پر ظلم و ستم کرے تو  یہ کتنے تعجب کی بات ہے  کہ ہمارے بزرگ تو کسی جانور تک کو تکلیف سے بچانے کے لیے   اتنا کچھ کر جائیں اور  ہم اپنے بھائی  تک  کو نہ چھوڑیں  ۔
                                     
   لحذا ہمیں بھی چاہیےکہ ہم بھی اپنے بزرگوں کے نقش و قدم پر چلتے ہوئے   ہر ایک  سے  حسن سلوک  سے پیش آئیں ہر ایک کی  چاہے وہ انسان ہو یا کوئی اور جاندار   ہر ممکن مدد کریں اور  ہر ایسے عمل سے بچیں کہ  جس سے کسی کو کوئی تکلیف  یا ضرر پہنچنے کا خطرہ ہو  ۔