سامعین حیرت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے ، جج خود الجھن کی ایک تصویر بنا بیٹھا تھا ۔
جو کوئی بھی اس مقدمہ کو سنتا تھا اس کے لیے یہ فیصلہ کرنامشکل تھا کہ وہ اس پر کیا ردِّ عمل کرے آیا وہ خوش ہو یا حیران ہو ۔
یہ مقدمہ دو بھائیوں کے درمیان تھا اوردونوں اس بات کے دعویدار تھے کہ ماں اس کے ساتھ رہے گی ۔ یہ معاملہ اولاً گھر میں اس وقت اٹھا جب دونوں بھائیوں نے فیصلہ کیا کہ اب ہمارے بچے بڑے ہو گئے ہیں ا س لیے ہمیں علیحدہ علیحدہ گھر لے لینا چاہئے چنانچہ علیحدگی کے سب معاملات آسانی سے طے پا گئے مگر جب بات ماں کو اپنے ساتھ رکھنے کی آئی تو دونوں اس بات ڈٹ گئے کہ ماں میرے ساتھ رہے گی ۔ خاندان کے کئی لوگوں نے اس معاملے کو سلجھانے کی کوشش کی مگر کوئی حل نہ ہو سکا ۔ یہ معاملہ ہوتے ہوتے عدالت میں آ گیا ۔
کچھ دیر اسی طرح کی خاموشی کے بعد جج نے کاروائی شروع کی اور دونوں طرف کے دلائل کو بغور سنا مگر سب کچھ سن لینے کے بعد جج وہیں کھڑا تھا یعنی وہ کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا ۔
اس نے اس معاملے میں اپنے دیگر ساتھی ججوں سے مشاورت بھی کی مگر وہ بھی اس معاملے میں کوئی حل دینے سے قاصر رہے ۔ آخر کار اس جج نے مقدمہ کی اگلی تاریخ دیتے ہوئے حکم جاری کیا کہ اگلی تاریخ میں ان دونوں کی ماں کو بھی عدالت میں پیش کیا جائے ۔
چنانچہ اگلی تاریخ کو پھر عدالت لگی اس انوکھے مقدمے کا سن کر آج عدالت میں پہلے سے کہیں زیادہ تعداد میں لوگ آئے تھے۔ ان دونوں کے ساتھ ان کی ماں کو بھی لایا گیا ۔
جج نے کاروائی شروع کی اور ماں سے بولا کہ مجھے تاریخ کے اس انوکھے مقدمے نے حیرت میں مبتلا کر رکھا ہے میں فیصلہ نہیں کر پا رہا کہ کس کے حق میں فیصلہ سناؤں ۔ تو آ پ مجھے بتائیں کہ آپ کس کی ساتھ رہنا چاہتیں ہیں تا کہ میں اس کے حق میں فیصلہ دوں اور مقدمہ ختم کروں ۔
ماں بولی : جج صاحب آپ جج ہو کر کسی ایک کے حق میں فیصلہ نہیں دے پا رہے کہ کہیں دوسرے کا دل نہ ٹوٹ جائے تو میں تو ماں ہوں یہ دونوں ہی میرے بیٹے ہیں مجھے دونوں سے محبت ہے اور یہ دونوں ہی مجھ سے محبت کرتے ہیں تو میں کیسے کسی ایک کا دل توڑ سکتی ہوں ۔ جج صاحب میرے نا تواں کاندھوں پر یہ بوجھ ڈال کر میری ممتا کا امتحان نہ لیجئے ۔ آپ خو د ہی اس کا فیصلہ فرما دیجئے ۔
عدالت میں ایک مرتبہ پھر ہو کا عالم ہو گیا تھا ۔ کئی آنکھیں اپنا ضبط چھوڑ چکی تھیں اور چھلک پڑیں تھیں اور کئی آنکھوں میں تیرتے آنسو بس چھلکنے ہی والے تھے ۔
جج نے ایک لمبا سانس بھرا اور کچھ دیر سوچ کر بولنا شروع کیا : آپ دونوں میں جو بڑا بھائی ہے اس کے بچے جوان ہو چکے ہیں اور وہ خود عمر کے زیادہ ہونے کیوجہ سے اب ضعف کی طرف جا چکا ہے ۔ ایسے میں اس پر ماں کی ذمہ داری بھی ڈال دینا غیر مناسب ہو گا جبکہ چھوٹا بھائی ابھی جوان ہے اور بڑے بھائی کی نسبت ابھی توانا ہے تو ماں کا خیال زیادہ اچھے انداز میں رکھ سکے گا لحذا اس مقدمے کو مکمل طورپر زیر ِغور لانے کے بعد میں اپنی صوابدید پر یہ فیصلہ کر رہا ہوں کہ آپ کی ماں آپ میں چھوٹےبھائی کے پاس رہے گی ۔
اتنا سننا تھا کہ بڑا بھائی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا اور کہتا تھا ’’ آج میرے بڑھاپے نے مجھے اپنی ماں کی خدمت کرنے سے محروم کر دیا ‘‘