بادشاہ کو لا علاج مرض کیسے لگا اور کیسے نجات پائی ؟



حضور ﷺسے نوسو  سال پہلے  یمن کا بادشاہ تُبّع  حمیری تھا، ایک مرتبہ وہ اپنی سلطنت کے دورہ کو 
نکلا  ۔ وہ  اس شان سے نکلا تھا  کہ جہاں بھی پہنچتا اس کی شاہی  شان و شوکت دیکھ کرلوگ جمع ہو جاتے تھے ،یہ بادشاہ جب دورہ کرتا ہوا مکہ معظمہ پہنچا تو اہل مکہ سے کوئی اسے دیکھنے نہ آیا۔
  
بادشاہ بہت حیران ہوا اور اپنے وزیر  سے اس کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ اس شہر میں ایک گھر ہے جسے بیت اللہ کہتے ہیں، اس کی اور اس کے خادموں کی جو یہاں کے باشندے ہیں تمام لوگ بے حد تعظیم کرتے ہیں اور جتنا آپ کا لشکر ہے اس سے کہیں زیادہ تعداد میں  دور و نزدیک کے لوگ اس گھر کی زیارت کو آتے ہیں اور یہاں کے باشندوں کی خدمت کر کے چلے جاتے ہیں، پھر آپ کا لشکر ان کے خیال میں کیوں آئے۔
  
 یہ سن کر بادشاہ کو غصہ آیا اور قسم کھا کر کہنے لگا کہ میں اس گھر کو گرا دوں گا اور یہاں کے باشندوں کو قتل کروا دوں گا، یہ کہنا تھا کہ بادشاہ کے ناک منہ اور آنکھوں سے خون بہنا شروع ہو گیا اور ایسا بدبودار مادہ بہنے لگا کہ اس کے پاس بیٹھنا بھی مشکل ہو گیا  علاج کیا گیا مگر افاقہ نہ ہوا، شام کے وقت بادشاہ کے ساتھ موجود   علماء میں سے ایک عالمِ ربانی تشریف لائے اور فرمایا ’’مرض آسمانی ہے اور علاج زمین کا ہو رہا ہے،‘ اے بادشاہ! آپ نے اگر کوئی بری نیت کی ہے تو فوراً اس سے توبہ کریں، بادشاہ نے دل ہی دل میں بیت اللہ شریف اور خدّام کعبہ کے متعلق اپنے ارادے سے توبہ کی ، توبہ کرتے ہی اس کا وہ خون اور مادہ بہنا بند ہو گیا، اور پھر صحت کی خوشی میں اس نے بیت اللہ شریف کو ریشمی غلاف چڑھایا اور شہر کے ہر باشندے کو سات سات اشرفیاں  اور سات سات ریشمی جوڑے نذر کئے۔
  
پھر یہاں سے چل کر مدینہ منورہ پہنچا توبادشاہ کے ساتھ موجود  علماء میں سے جو کتبِ سماویہ کے عالم تھےانہوں نے وہاں کی مٹی کو سونگھا اور کنکریوں کو دیکھا اور نبی آخر الزماںﷺ کی ہجرت گاہ کی جو علامات کے مطابق اس سر زمین کو پایا تو باد شاہ کو بتایا اور فیصلہ کیا کہ ہم اب  اگلی ساری زندگی یہاں گزاریں گے ۔

 یہ سن کر بادشاہ نے ان عالموں کے لیے چار سو مکان بنوائے اور اس بڑے عالم ربانی کے مکان کے پاس حضور کی خاطر ایک دو منزلہ عمدہ مکان تعمیر کروایا اور وصیت کر دی کہ جب آپ ﷺتشریف لائیں تو یہ مکان آپ کی آرام گاہ ہو گا  اور ان چار سو علماء کی کافی مالی امداد بھی کی اور پھر اس بڑے عالم ربانی کو ایک خط لکھ کر دیا اور کہا کہ میرا یہ خط اس نبی آخر الزماںﷺ کی خدمت اقدس میں پیش کر دینا اور اگر زندگی بھر تمھیں حضور کی زیارت کا موقع نہ ملے تو اپنی اولاد کو وصیت کر دینا کہ نسل در نسل میرا یہ خط محفوظ رکھیں حتٰی کہ آخری نبی ﷺکی خدمت میں پیش کیا جائے یہ کہہ کر بادشاہ وہاں سے چلا گیا ۔
اس خط میں لکھا تھا کہ  
  
’’مخلوق میں سب سے کمتر شخص  تبع اول حمیری کی طرف سے محمد رسول اللہ ﷺ کے لیے  اما بعد: اے اللہ کے حبیب! میں آپ پر ایمان لاتا ہوں اور جو کتاب اپ پر نازل ہو گی اس پر بھی ایمان لاتا ہوں اور میں آپ کے دین پر ہوں، پس اگر مجھے آپ کی زیارت کا موقع مل گیا تو بہت اچھا اور اگر نہ ملا  تو میری شفاعت فرمائیے گا اور قیامت کے روز مجھے بھول نہ جائیے گا، میں آپ کی پہلی امت میں سے ہوں اور آپ کے ساتھ آپ کی آمد سے پہلے ہی بیعت کرتا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے اور آپ اس کے سچے رسول ہیں‘‘ ۔

 شاہ یمن کا یہ خط نسل در نسل  ان چار سو علماء کے اندر حرزِ جان کی حیثیت سے محفوظ چلا آیا یہاں تک کہ ایک ہزار سال کا عرصہ گزر گیا، ان علماء کی اولاد سے  مدینہ کی آبادی میں کئی گنا اضافہ ہو گیا اور یہ خط دست بدست مع وصیت کے اس بڑے عالم ربانی کی اولاد میں سے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا اور آپ نے وہ خط اپنے غلام خاص ابو لیلٰی کی تحویل میں رکھا ۔
    
  جب حضور ﷺ مکہ سے  ہجرت فرما کر  مدینہ  پہنچے  تو سب یہی چاہتے  تھے کہ حضور ﷺمیرے گھر قیام  فرمائیں تو حضور ﷺنے فرمایا کہ میری اونٹنی کی رسی چھوڑ دو جس گھر کے آگے یہ  بیٹھ جائے گی وہی میری قیام گاہ ہو گی، چنانچہ جو دو منزلہ مکان شاہ یمن تبع حمیری نے حضور کے لیے  بنوایا تھا وہ اس وقت حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی تحویل میں تھا ، آپ ﷺکی اونٹنی جا کر اسی گھر کے آگےبیٹھ گئی۔ لوگوں نے ابو لیلٰی کو بھیجا کہ جاؤ حضور ﷺکو شاہ یمن کا خط دے آؤ جب ابو لیلٰی حاضر ہوئے تو حضورﷺ نے اسے دیکھتے ہی فرمایا تو ابو لیلٰی ہے؟ یہ سن کر ابو لیلٰی حیران ہو گیا۔ حضور ﷺ نے فرمایا میں محمد رسول اللہ ہوں، شاہ یمن کا جو خط تمھارے پاس ہے لاؤ وہ مجھے دو چنانچہ ابو لیلٰی نے وہ خط پیش کر دیا ، حضور ﷺ نے پڑھ کر تین مرتبہ فرمایا ’’ نیک بھائی تُبّع پر آفرین ہے‘‘ ۔

  [ حجتہ اللہ علے العالمین :ص:104 و دیگر (تاریخ ابن عساکر ، میزان الادیان، کتاب المُستظرف) ملخصاً]