ایک خاتون اپنی ڈیوٹی پر تھی جب
اسے گھر سے فون کال موصول ہوئی کہ آپ کی بیٹی سخت علیل ہے، اچانک اسے بخار ہو گیا ہے
جو لمحہ بہ لمحہ تیزتر ہوتا جا رہا ہے۔ خاتون گھر کیلئے روانہ ہوئی اور راستے میں ایک
فارمیسی پر دوا لینے کیلئے رک گئی، جب واپس وہ اپنی گاڑی کے پاس پہنچی تو اسے پتا چلا
کہ بوکھلاہٹ میں گاڑی کی چابیاں اندر ہی لاک ہو چکی ہیں،گاڑی کھولنے کا کوئی ذریعہ
نہیں تھا، نہ اسے یہ معلوم تھا کہ ایسی صورت میں کیا کیا جائے۔
مشکل وقت میں ایسی دوہری مصیبت لازمی پیش آتی ہے جب بوکھلاہٹ میں انسان احتیاط کا دامن چھوڑ کر کچھ مزید الٹا کر بیٹھتا ہے، ایسے حالات میں اپنے حواس اور اقدامات پر مناسب انداز میں قابو رکھنا چاہئے تاکہ کوئی اضافی مسئلہ کھڑا نہ ہو جائے۔
خاتون نے اپنے گھر فون کرکے بچی کی صورتحال معلوم کی جو بدستور خراب ہوتی چلی جا رہی تھی، اس نے آیا کو بتایا کہ میری گاڑی کی چابیاں اندر ہی لاک ہو چکی ہیں اور کچھ سمجھ نہیں آرہی کہ کیا جائے؟ آیا نے اسے بتایا : اگر کہیں قریب سے کوٹ کا ہینگر مل جائے تو اس کا تار شیشے میں پھنسا کر اسے نیچے کیا جا سکتا ہے۔
قریب ہی ایک ڈرائی کلینر کی دکان سے اسے کوٹ ہینگر تو مل گیا مگر اسے استعمال کرنے سے وہ قاصر رہی، خاتون کی مشکل دیکھ کر کچھ اور لوگ بھی اس کی مدد کو پہنچے، کسی نے دوسری قسم کی چابیاں لگانے کی کوشش کی، کسی نے مکینک اور کسی نے چابی بنانے والا ڈھونڈنے کی کوشش کی مگر سب کچھ بے سود ہی رہا۔
لمحہ لمحہ قیمتی تھا، جس قدر بھی وقت ہاتھوں سے پھسلا جا رہا تھا وہ خاتون کی بے چینیوں میں مزید اضافہ کر رہا تھا،مختلف چابیاں ٹرائی کرنے والے نوجوان نے آخرکار بے بس ہو کر افسوس کی شکل میں کاندھے اچکائے اور سوری کہہ کے ہارے ہوئے انداز میں پیچھے ہٹ گیا، خاتون نے آخری امید ٹوٹنے پر ہینگر ہاتھ سے پھینکا اور آسمان کی طرف دیکھنے لگی، غم کے مارے اس کا حال گھمبیر ہوتا جا رہا تھا یہاں تک کہ اس نے آخری امید کے طور پر خدا کی بارگاہ میں کاندھے جھکا دیے۔
سوائے رونے اور فریاد کرنے کے اس کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا، لوگ اس کے ساتھ ہمدردی کر رہے تھے مگر اسے کسی بات کا ہوش نہیں تھا، ایسے میں ایک تیز گرگراہٹ بھری پرانی سی کار آکر رکی، اس کے اندر سے دراز قد، الجھے بال اور پراگندہ لباس وال ایک شخص برآمد ہوا اور مجمع کو چیرتا ہوا خاتون کے پاس آگیا۔
کیا بات ہے محترمہ ۔۔۔ ! کیا میں آپ کی کوئی مدد کر سکتا ہوں؟لحیم شحیم ادھیڑ عمر شخص جو میلے سے دُھسّے میں ملبوس تھا، اس نے اپنی بھاری بھر کم کھردری آواز میں خاتون کا مسئلہ دریافت کیا ۔
خاتون بدستور زمین پر ہاتھ دھرے گاڑی کے ساتھ ماتھا ٹِکائے غم سے نڈھال بیٹھی تھی، اس نے ایک نظر سوال کرنے والے کا سراپا دیکھا اور سوچا یہ بدحال انسان شاید اتنا بھی نہیں جانتا ہوگا جتنا کام دیگر لوگوں نے بطورِ کوشش کرکے دکھایا ہے اسلئے اسے جواب دینے کی ہمت نہ ہوئی۔
قریب ہی کھڑے ایک شخص نے آنے والے مسکین کے سامنے مسئلہ اجاگر کیا تو اس نے ایک زور دار قہقہہ لگایا اور خاتون سے کہا، اٹھ جاؤ بی بی اٹھ جاؤ، خدا نے آج تمہاری بھی سن لی ہے اور میرا گھیراؤ بھی خوب کیا ہے۔ مسکین صورت شخص نے اپنے ہُڈ کی لیسز کھولیں، سر سے ہڈ اتارا اور الجھی ہوئی داڑھی میں انگلیاں پھیرتے ہوئے کہا، کوئی بھاگ کر جائے اور کہیں سے مجھے ایک کوٹ ہینگر یا تار کا کوئی ٹکڑا لا دے ۔
ایک نوجوان نے کوٹ ہینگر اٹھا کر اسے تھما دیا، اس نے ہینگر کا سرا ایک مخصوص انداز میں تھوڑا سا سیدھا کیا اور اگلی ہی آن میں گاڑی کا لاک کھول دیا۔ خاتون نے بے اختیار خوش سے بولتی چلی گئی: ارے واہ ۔۔۔ ! تم تو کوئی فرشتہ صفت انسان ہو جو اس آڑے وقت میں میری مدد کیلئے پہنچے، یقین کرو جو احسان تم نے میرے اوپر کیا ہےاس کیلئے میں تمہاری دل و جان سے مشکور ہوں ’’ تھینک یو سو مچ مائی کائینڈ اینجل‘‘ ۔
خاتون کی بات سن کر وہ گویا ہوا، نہیں خاتون، فرشتہ تو دور کی بات ہے میں تو ایک اچھا انسان بھی نہیں، میں ایک کار چور ہوں، ابھی ایک گھنٹہ پہلے ہی مجھے رہائی ملی ہے اور میں بے مقصد اس سڑک پر ہو لیا۔
ہاں البتہ قید کے دوران مجھے یہ خیال ضرور آتا تھا کہ اب مجھے خدا کے دائرے میں آجانا چاہئےمگر طبعیت کی ہٹ دھرمی اس خیال کے ہمیشہ آڑے آتی رہی اور میں اس سوچ کو جھٹک دیا کرتا تھا لیکن ابھی کچھ دنوں سے مجھے یہ خیال بھی آنے لگا تھا کہ خدا اگر مجھے اپنی کوئی خاص نشانی دکھائے تو پھر سوچا جا سکتا ہے اور وہ نشانی ابھی ابھی میں نے دیکھ لی ہے۔
زندگی میں آج پہلی بار یوں سرعام تالا توڑا ہے پھر بھی بجائے خوف کے خوشی محسوس ہو رہی ہے۔ میں نے آج خدا کی خوشنودی کو بڑے قریب سے محسوس کیا ہے۔خاتون نے رواں آنسو پونچھتے ہوئے ایک بار پھر اس کا شکریہ ادا کیا اور گویا ہوئی: تم نے سچ کہا، مجھے بھی اس میں خدا کی ایک خاص نشانی نظر آئی ہے، اس نے نہ صرف میری دعا پر جواب دیا ہے بلکہ
’’ میری مدد کیلئے کوئی عام نہیں بلکہ اس کام کے ایک پکے ماہر کو بھیجا ہے ‘‘