ہال
تقریباً بھر چکا تھا ، اسکول کےتمام طلبہ
اپنی اپنی ڈرائنگ بنا کر لائے تھے کیونکہ آج اسکول میں ہر سال کی طرح پھولوں کی ڈرائنگ کا مقابلہ تھا جو پہلی کلاس سے لیکر آٹھویں کلاس تک کے طلبہ کے درمیان ہوتا تھا ۔ ہال میں طلبہ اپنے اپنے دوستوں کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف
تھے ایک توصیف ہی تھا کہ جس کی نظر ارشد کو تلاش کر رہی
تھی جو اسے ابھی تک نہیں مل پا رہا تھا ۔
توصیف اور ارشد بہت اچھے دوست
تھے دونوں کی ڈرائنگ بھی بہت اچھی تھی پچھلے مقابلے میں بھی ارشد کی
پہلی اور توصیف کی تیسری پوزیشن آئی تھی ۔
توصیف ارشد کا بہت خیال رکھتا تھا
کیونکہ ارشد کے والد کا انتقال ہو گیا تھا اور اس کی والدہ سلائی کر کے ارشد کی پڑھائی ،
مُنّی اور گھر کا خرچہ اٹھا تی تھیں جو بمشکل پورا ہوتا تھا ۔
جب ارشد
نہ ملا تو توصیف آخر تھک ہار کر ایک کرسی پربیٹھ گیا ۔ توصیف جیسے ہی بیٹھا تو اس کی نظر کونے میں رکھی ایک کرسی پر پڑی جس پر ارشد
بیٹھا تھا اور کافی افسردہ لگ رہا تھا
۔توصیف جا کر اس سے ملا اور افسردگی کی وجہ پوچھی تو ارشد کی آنکھوں میں آنسو
تیرنے لگے مگر ارشد نے کچھ بتانے سے انکار کر دیا پھر توصیف کے بار بار پوچھنے پر
ارشد نے بتایا کہ اس مہینے جو سلائی
کے پیسے آئے تھے وہ مُنّی کی دوائی پر لگ گئے
تھے اب امی کے پاس پیسے ہی نہیں
بچے تھے اس لیے
میں اس دفع ڈرائنگ نہیں بنا سکا ۔
ابھی یہ باتیں چل ہی رہی تھیں کہ اعلان ہوا کہ تما م طلبہ اپنی اپنی ڈرائنگ جمع کروا دیں
۔ توصیف بھی ارشد کو انتظار کرنے
کا بول کر اپنی ڈرائنگ جمع کروانے چلا
گیا ڈرائنگ جمع ہو جانے کے بعد سب طلبہ کو
2 گھنٹے کے مشکل اور طویل انتظار سے گزرنا تھا تا کہ ججز تمام ڈرائنگز دیکھ کر حتمی فیصلہ سنائیں ۔ جیسے
تیسے کر کے یہ وقت گزرا اور تمام ڈرائنگز میں سےتین
کو
چن لیا گیا تھا جن کااب اعلان ہونا تھا ۔
چنانچہ اعلان کر دیا گیا کہ تمام طلبہ نشستوں
پر واپس آ جائیں تا کہ پوزیشن ہولڈرز کا اعلان کیا جائے ۔ اب
ہال ایک بار پھر بھر چکا تھا ہر طرف خاموشی طاری تھی ۔
توصیف ارشد کےساتھ بیٹھا تھا
ارشد کافی افسردہ جبکہ توصیف بالکل
پر سکون بیٹھا تھا ۔ اس کےچہرے پر ایک الگ
ہی اطمنان تھا ۔
اعلان شروع ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ! ارشد نے آنکھیں بند کر لیں تھیں شاید وہ اس
دکھ کا سامنا نہیں کر پارہا تھا ۔ تیسری
اور دوسری پوزیشن کا اعلان ہو چکا اب پہلی پوزیشن کی باری تھی
ارشد کی ہمت جواب دے چکی تھی ۔
مگر یہ کیا ۔۔۔
! ارشد کو ایک زوردار جھٹکا لگا اس کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ جو سن رہاہے وہ خواب ہے یا حقیقت
کیونکہ اسٹیج پر پہلی پوزیشن کے لیے ارشد
کا نام پکارا جا رہا تھا ۔
ارشد کرسی سے نہیں اٹھ رہا
تھا کہ شاید یہ غلط فہمی کی بنا پر
ہو گیا ہے ۔ ارشد کو
آس پاس کے طلبہ نے اسٹیج پر جانے کے اشارے کرنا شروع کر دئیے اب اسے یقین ہو گیا کہ یہ میرا ہی نام پکارا جا رہا
ہے لہذا وہ اسٹیج کی طرف چلنے لگا
۔
ارشد ایک حیرت کی تصویر بنا اسٹیج کی طرف چلا جا رہا تھا ۔ وہ کبھی
اسٹیج کی طرف دیکھ رہا تھا کبھی
توصیف کی طرف وہ کچھ کچھ معاملہ سمجھ چکا
تھا ۔ وہ حیران تھا کہ یہ اس کے ساتھ ہو کیا رہا ہے ۔ اوپر
پہنچ کر اسے اس کا انعام دیا گیا تو اس
نے ٹیچر سے مائک میں کچھ بولنے کی اجازت مانگی جواسے دے دی گئی ۔
ارشد نے مائیک میں بولنا شروع
کیا :
آج ایک دوست نےدوسرے دوست کی
پریشانی میں مدد کرنے کی عظیم مثال قائم
کی ہے ۔ میں آپ سب کو بتانا چاہتا ہوں
کہ میں
اپنی گھریلو پریشانیوں اور پیسے نہ ہونے
کی وجہ سے اس دفع ڈرائنگ نہ
بنا سکا تھا اور آج میں نے کوئی ڈرائنگ جمع نہیں کروائی
تھی بلکہ یہ میرے دوست توصیف کی ڈرائنگ ہے جو
اس نے میر ے نام پر جمع کروا ئی ہے ۔
اتنا بولنا
تھا کہ پورے ہال پر حیرانی کی کیفیت طاری تھی ہر کوئی توصیف کی تعریفیں کرنے لگا تھا۔ یہ سب دیکھ کر اسکول کے پرنسپل نے مائک پکڑا اور کہنے لگے : میں توصیف
کے اس کام کوسراہتے ہوئے ایک اعلان
کرتا ہوں کہ آج پہلی دفع کسی ایک ڈرائینگ
پر اسکول کی انتظامیہ دو بچوں کو
اوّل پوزیشن دینے جا رہی ہے ۔ ایک
تو اس کوکہ جس کی یہ ڈرائنگ ہے اور
دوسری اس کے دوست کو کہ جس کے نام پر
یہ ڈرائنگ جمع کروائی گئی ۔
اتنا سننا تھا کہ توصیف
بھی خوشی سے کِھل اٹھا اور اسٹیج
کی طرف چل دیا ۔ انعام حاصل کرنے کے بعد توصیف پیچھے پلٹا
تو ارشد سامنے کھڑا مسکرا رہا تھا توصیف بھی جواباً مسکرایا اور دونوں گلے لگ گئے ۔
کبھی اپنی خوشی اپنی کسی عاشق
رسول بھائی کو دیکر دیکھیں تو صحیح کہ سکون کس نعمت کا نام ہے۔اخلاص کے ساتھ
پریشان حال مسلمانوں کی مدد کریں برکت خود دیکھ لیں گے۔
’’بیشك الله تعالٰی کے نزدیك فرضوں
کے بعد سب اعمال سے زیادہ محبوب مسلمان کو خوش کرنا ہے۔‘‘
(المعجم الکبیر مرویات
عبداللہ ابن عباس حدیث ١١٠٩ مطبوعہ المکتبۃ الفیصلیہ بیروت ١١/ ٧١)