عاشوراء کی برکت سے تاجر کو جنت کی پوشاک کیسے ملی ؟



 مصر میں کھجوروں کا ایک تاجر رہتا تھاجس کا نام عطیہ بن خلف تھا۔ وہ بہت مال دار تھا پھر اچانک فقیر ہو گیا کہ اس کے پاس تن ڈھانپنے کے لئے ایک کپڑے کے سواکچھ بھی باقی نہ بچا۔

 جب عاشوراء کا دن آیا تو اس نے جامع مسجد عمرو بن عاص میں نمازِ فجر اداکی۔وہ ایک طرف کھڑا تھا کہ ایک عورت اپنے ساتھ یتیم بچوں کو لے کر اس کے پاس آئی اور کہنے لگی:'' جناب ! میں اللہ کے نام پرسوال کرتی ہوں کہ آپ میری مشکل آسان کر دیجئے،مجھے کچھ عنایت فرمائیے جس سے میں ان بچوں کی غذا حاصل کر سکوں کیونکہ ان کا باپ مرچکاہے اور اس نے ان کے لئے کچھ نہیں چھوڑا۔ میں ایک عزت دارخاتون ہوں۔میراکوئی واقف کار بھی نہیں کہ اس کے پاس جاسکوں۔ آج محض اس ضرورت و حاجت کی وجہ سے مجھے ذلیل ہو کر گھر سے نکلنا پڑا ورنہ  مجھے مانگنے کی عادت نہیں ہے۔

'' تاجر کو وہ  عام بھیک منگوں کی طرح نہیں بلکہ ایک  واقعی ضرورت مند سچی عورت لگی پھر اپنے دل میں سوچاکہ میں توکسی چیز کا مالک نہیں اور اس لباس کے سوا میرے پاس کوئی چیز بھی نہیں۔اب اگر میں یہ لباس اس کودیتا ہوں تو خود برہنہ ہو جاؤں گااور اگر اس کو خالی لوٹاتا ہوں تو حضور ﷺ  کی بارگاہ میں کیا عذر پیش کروں گا۔

بہرحال اس نے عورت سے کہا: '' میرے ساتھ چلو، میں تمہیں کچھ دوں گا۔''وہ عورت اس کے ساتھ اس کے گھر گئی۔ تاجر نے اس کو دروازے سے باہر کھڑا کر دیااور خود گھر میں داخل ہو کر اپنے کپڑے بدل کر ایک پھٹا پرانا کپڑا لپیٹ لیا اور وہ لباس اس عورت کو دے دیا۔

عورت نے اس کے حق میں دعاکی:'' اللہ آپ کو جنّتی پوشاک پہنائے اور آپ کو بقیہ عمر کسی کامحتاج نہ کرے'' تاجر عورت کی دعا سن کربہت خوش ہوا ۔اس نے دروازہ بند کیااورپھر گھر میں داخل ہو کررات گئے تک ذکر ِ الٰہی میں مشغول ہو گیا۔

 جب رات کو سویا تو خواب میں ایک ایسی حسین و جمیل حُوردیکھی ۔ اس کے ہاتھ میں ایک سیب تھا جس کی خوشبو ہر طرف پھیلی ہوئی تھی۔ حور نے وہ سیب تاجرکو دیاتو اس میں سے ایک جنّتی حُلّہ نکلا جس کی قیمت ساری دنیابھی نہ بن سکے۔

اس نے وہ لباس تاجر کو پہنایااور خود اس کے قریب بیٹھ گئی۔ تاجر نے پوچھا: '' تم کون ہو؟'' بولی:''میرا نام عاشوراء ہے اورمیں تیری جنتی بیوی ہوں۔''تاجر نے پوچھا:'' مجھے یہ مقام ومرتبہ کیسے ملا؟'' تو اس نے جواب دیا:'' اس بیوہ اور یتیم بچوں کی دعا کی وجہ سے جن پر تو نے کل احسان کیاتھا۔

''جب تاجربیدار ہوا تو وہ اتنا خوش تھا جیسے اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اس کا سارا گھر جنّتی لباس کی خوشبو سے بھرا ہوا تھا۔اس نے وضوکر کے اللہ تعالیٰ  کا شکر بجا لاتے ہوئے دو رکعت نماز ادا کی۔ پھر آسمان کی جانب منہ اُٹھا کر عرض کی: '' اے میرے پروردگار  ۔۔۔ ! اگر میرا خواب سچا ہے اورجنت میں میری بیوی عاشوراء ہو گی تومجھے اپنی بارگاہ میں واپس بلا لے۔'' ابھی اس کی دعا پوری ہوتے ہی  اس کا انتقال ہوگیا ۔
اللہ تعالیٰ کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری مغفرت ہو



)نزھۃ المجالس،کتاب الصوم،باب فضل صیام عاشوراء ۔۔۔   الخ،ج1، ص233)

یوم عاشورہ کو کون سے کام کرنے چاہیئے ہیں ؟


 1:ـ  صدقہ کرنا
2:ـ پانی پلانا
3:ـ روزہ رکھنا
4:ـ غصہ پی جانا
5:ـ روزہ دارکو افطار کرانا
6:ـمریضوں کی عیادت کرنا
7:ـ جنازوں میں شرکت کرنا،
8:ـ ظالم کو معاف کر دینا ،
9:ـ راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانا،
10:ـ یتیم کے سر پر شفقت کاہاتھ رکھنا
11:ـ گھر والوں پر خرچ میں کشادگی کرنا
12:ـ والدین کے ساتھ عزت و اکرام سے پیش آنا،
13:ـ نفل پڑھنا اور ذکر ِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ کی کثرت کرنا۔
14:ـ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے اپنے مسلمان بھائی سے ملاقات کرنا
15:ـ اس دن غسل کرنا ؛  چنانچہ منقول ہےکہ :’’ اللہ عَزَّوَجَلَّ محرم کی دسویں رات آبِ زمزم شریف کو دنیا کے تمام پانیوں میں ملادیتا ہے لہٰذا جو شخص اس دن غسل کرے تمام سال بیماری سے محفوظ رہے گا ‘‘۔  
16:ـ یہ بھی مستحب ہے جو کہ حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے مروی ہے کہ: ’’جس نے عاشوراء کے دن ہزار مرتبہ سورۂ  اخلاص پڑھی اللہ تعالیٰ اس پر نظرِ رحمت فرمائے گا اور جس پر اللہ تعالیٰ نظرِرحمت فرمائے گاتو وہ اُسے کبھی عذاب نہ دے گا ‘‘

( حکایتیں اور نصیحتیں ؛ ص454؛مدینہ لائبریری ڈیجیٹل )

Islamic Kids Cartoon | 3D Animation | Muharram | Karbala | Imam Hussain ...

دس محرم الحرام اور ایک یہودی


  ایک غریب شخص  نے اپنے اہل و عیال کے ساتھ مل کر عاشوراء کے دن روزہ رکھا۔ان کے پاس کھانے کو کچھ نہ تھا لہٰذا وہ خوراک کی تلاش میں گھر سے نکلا تا کہ افطاری کااہتمام کر سکے لیکن کچھ نہ ملا۔

پھروہ سناروں کے بازار میں داخل ہوا اور ایک آدمی کو دیکھا کہ اپنی دُکان میں قیمتی چمڑے کے ٹکڑے بچھا کر ان پر سونے چاندی کے ڈھیر اُلٹ رہا ہے۔وہ اس کے پاس گیا اور سلام کر کے کہا:''جناب! میں حاجت مند ہوں،ممکن ہو تو مجھے ایک درہم قرض دے دوتا کہ میں اپنے گھر والوں کے لئے افطاری کا سامان خرید سکوں، میں آج کے بابرکت دن آپ کے لئے دعا کروں گا۔'' لیکن سنار نے اپنامنہ پھیر لیا اور فقیر کو کچھ نہ دیا، فقیرکادل ٹوٹ گیا۔

وہ واپس آرہا تھا اور اس کے آنسو رُخسار پر بہہ رہے تھے کہ سنار کے ایک یہودی پڑوسی نے اسے دیکھ لیا اور دُکان سے نکل کر اس فقیر کے پاس آیا اورکہنے لگا: ''میں تجھے دیکھ رہا تھا کہ تو میرے فلاں پڑوسی سنار سے کچھ بات کر رہا تھا؟'' فقیر نے بتایا:''میں نے اس سے ایک درہم مانگا تھا تا کہ اپنے گھر والوں کی افطاری کا بندوبست کر سکوں لیکن اس نے مجھے خالی لوٹا دیا، میں نے اسے یہ بھی کہا تھا کہ میں آج کے بابرکت دن تمہارے حق میں دعا کروں گا۔''

 یہودی نے پوچھا: ''آج کون سا دن ہے؟'' فقیر نے اسے بتایا: ''آج عاشوراء کا دن ہے اور پھر اس کے بعض فضائل بیان کئے۔تو یہودی نے اس فقیر کو دس درہم دئیے اور کہا: ''اس دن کی عظمت کی خاطریہ قبول کر لواور اپنے گھر والوں پر خرچ کرو۔'' فقیر وہاں سے روانہ ہوا تو اس کادل خوشی سے پھولا ہوا تھا۔

اس نے گھر والوں پر اچھی طرح خرچ کیا۔جب رات ہوئی تو اس مسلمان سنار نے خواب دیکھاکہ قیامت قائم ہو چکی ہے ۔ پیاس اور مصائب شدت اختیار کر چکے ہیں۔ پھراس نے اچانک ایک سفید موتیوں کا محل دیکھا جس کے دروازے یاقوت کے تھے ۔

اس نے سر اٹھا کر کہا: ''اے اس محل کے مالک !مجھے تھوڑا سا پانی پلادے۔''تو اسے ایک آواز سنائی دی : ''کل شام تک یہ محل تیرا تھا لیکن جب تو نے فقیر کا دل توڑا اور اسے کچھ نہ دیا تو اس محل سے تیرا نام مٹا کر تیرے اُس یہودی پڑوسی کا نام لکھ دیا گیا ہے جس نے اس فقیر کی حاجت پوری کی اور اس کو دس درہم دئیے۔''
                  
  چنانچہ، بیدار ہونے کے بعدسنار گھبراتے ہوئے اور خود کو ملامت کرتے ہوئے اپنے یہودی پڑوسی کے پاس آیا اور کہنے لگا: ''تم میرے پڑوسی ہو، میرا تم پر حق ہے اور مجھے تم سے ایک ضروری کام ہے ۔'' یہودی نے پوچھا : ''بتاؤ! کیا حاجت ہے؟'' اس نے کہا: ''کل شام تم نے جو دس د رہم فقیر کو دئیے تھے ان کا ثواب سو درہم کے بدلے مجھے دے دو ۔''

تو اس نے جواب دیا: ''اللہ تعالیٰ کی قسم! میں ایک لاکھ دینار کے بدلے بھی نہ دوں گا بلکہ اگر آپ نے اس محل کے دروازے میں بھی داخل ہونے کی خواہش کی جو آپ نے کل رات خواب میں دیکھا تھا تومیں اس کی بھی اجازت نہ دوں گا۔''

مسلمان سنارنے پوچھا : ''آپ کو اس راز کی خبر کیسے ہوئی؟'' تویہودی نے جواب دیا: ''اس کی خبر مجھے اس ذا ت نے دی ہے جو کسی بھی چیز کو کہتی ہے: ''ہوجاتو وہ ہوجاتی ہے۔''اور میں گواہی دیتاہوں کہ الہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ یکتاہے، اس کا کوئی شریک نہیں اوریہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمدِ مصطفی ﷺ اس کے خاص بندے اوررسول ہیں۔"

(حاشیۃ اعانۃ الطالبین، باب الصوم، فصل فی صوم التطوع ؛ ج2 ؛ ص303)

حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور خیمہ


مسلمانوں کے ایمانی جذبے  کے آگے بڑی بڑ ی طاقتیں  ٹھہرنہیں پا رہی تھیں ۔ مسلمان جہاں کا بھی رخ کرتے تھے اللہ کے فضل و کرم سے کامیابی ان کے قدم چومتی تھی  اور فتوحا ت کے دروازے کھلتے چلے جاتے تھے ۔
                                 
 یہ کامیابیوں اور فتوحات  کا سفر    طے کرتے  کرتے ایک دن ایسا آیا کہ مسلمان  پورا اسکندریہ بھی فتح کرنے میں کامیاب ہو گئے  ۔  اس دور میں  اس  لشکر کےسپہ سالار  حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  تھےچنانچہ یہ خبر اپنے  سپہ سالار  تک پہنچانے کے لیے ایلچی روانہ کر دیا گیا ۔
                           
مسلمانوں کے عظیم  سپہ سالار  حضرت عمر وبن عاص  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اس وقت پچھلے مقام ’’فسطاط‘‘  پر تھے، فسطاط عربی میں ا س خیمہ کو کہتے ہیں جو سفر کے دوران لگایا جاتا ہے ۔   آپ کو جب  اسکندریہ کے فتح ہونے کی خبر ملی تو   آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وہاں جانے کا ارادہ فرمایا اور  ضروری سامان جمع فرمانے کے بعد  آپ رضی اللہ  تعالی ٰ نےحکم دیا کہ  خیمہ اکھاڑ دیا جائے  ۔
                        
  سپاہی خیمہ اکھاڑ نے لگے تو آپ رضی اللہ تعالیٰ کی نظر خیمے کے اندر بنے ایک گھونسلے پر پڑی جب دیکھا تو  وہ ایک کبوتر کا گھونسلہ تھا ۔ یہ دیکھ کر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خیمہ اکھاڑنے سے منع فرما دیا اور فرمایا کہ ہمارے مہمان کو تکلیف ہو گی ۔
                          
چنانچہ ایک کبوترکے  آرام و سکون کی خاطر اور اس کو تکلیف سے بچانے کے لیے اس   خیمہ کو  وہیں چھوڑ دیا گیا اور آپ رضی اللہ تعالیٰ نے اسکندریہ کی طرف  سفر شروع کر دیا ۔
                          
کچھ عرصے بعد آپ رضی اللہ تعالی ٰ عنہ کا  واپس وہاں سے گزر  ہوا تو  آپ رضی اللہ عنہ  نے حکم دیا کہ اس جگہ پر ایک شہر قائم کیا جائے  اورآپ  رضی اللہ تعالی ٰ نے اس شہر کا نام  بھی کبوتر کے اس خیمے کی  مناسبت سے ’’فسطاط ‘‘ رکھا اور مکمل مصر فتح ہو جانے کے بعد  یہی شہر اس کا  پہلا دار الحکومت بھی بنا  ۔ 
( سچی حکایات ؛ ص 77۔78 ؛ فرید بک اسٹال لاہور )
                      
معلوم ہوا کہ مسلمانوں کا حسن اخلاق اتنا بلند و بالا اور خوبصورت  رہا ہے کہ پرندے اور جانور بھی  ان کی طرف سے تکلیف سے  بچے رہے ۔  تو اگر آج کا مسلمان اپنے ہی بھائی پر ظلم و ستم کرے تو  یہ کتنے تعجب کی بات ہے  کہ ہمارے بزرگ تو کسی جانور تک کو تکلیف سے بچانے کے لیے   اتنا کچھ کر جائیں اور  ہم اپنے بھائی  تک  کو نہ چھوڑیں  ۔
                                     
   لحذا ہمیں بھی چاہیےکہ ہم بھی اپنے بزرگوں کے نقش و قدم پر چلتے ہوئے   ہر ایک  سے  حسن سلوک  سے پیش آئیں ہر ایک کی  چاہے وہ انسان ہو یا کوئی اور جاندار   ہر ممکن مدد کریں اور  ہر ایسے عمل سے بچیں کہ  جس سے کسی کو کوئی تکلیف  یا ضرر پہنچنے کا خطرہ ہو  ۔ 
  

دس محرم الحرام کی مبارک رات کی برکت سے معذور بچی ٹھیک ہوگئی


بصرہ میں ایک مال دار آدمی رہتا تھا۔ ہر سال شب ِ عاشوراء کو اپنے گھرمیں لوگوں کوجمع کرتا جو قرآنِ کریم کی تلاوت کرتے اوراللہ تعالیٰ  کا ذکرکرتے۔ اسی طرح رات بھر تلاوتِ قرآن اور ذکرِ الٰہی کا سلسلہ جاری رہتا۔پھر وہ شخص سب کو کھانا پیش کرتا۔مساکین کی خبر گیری کرتا۔ بیواؤں اور یتیموں سے بھی اچھا سلوک کرتا۔
اس کا ایک پڑوسی تھا جس کی بیٹی معذور تھی۔اس لڑکی نے اپنے باپ سے پوچھا: '' ہمارا پڑوسی ہرسال اس رات لوگوں کو کیوں جمع کرتا ہے؟ اور پھر سب مل کرتلاوتِ قرآن اور ذکر کرتے ہیں۔''باپ نے بتایا:'' یہ عاشوراء کی رات ہے ، اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ہاں اس کی بہت حرمت ہے اور اس کے بہت زیادہ فضائل ہیں ۔''
جب سب گھر والے سو گئے تو بچی سحری تک بیدار رہ کرقرآنِ عظیم کی تلاوت اور ذکر ِ الٰہی سنتی رہی۔ جب لوگوں نے قرآنِ حکیم ختم کر لیا اور دعا مانگنے لگے تو اس لڑکی نے بھی اپنا سر آسمان کی جانب اُٹھا دیا اورعرض کی: ''یااللہ عَزَّوَجَلَّ! تجھے اس رات کی حرمت کا واسطہ اوران لوگوں کا واسطہ جنہوں نے ساری رات تیرا ذکر کرتے ہوئے جاگ کر گزاری ہے! مجھے عافیت عطا فرما دے، میری تکلیف دور کر دے اور میرے دل کی شکستگی دور فرما دے۔''

ابھی اس کی دعا پوری بھی نہ ہوئی تھی کہ اس کی تکلیف اور بیماری ختم ہو گئی اور وہ اپنے پاؤں پر اٹھ کھڑی ہوئی۔جب باپ نے اس کو پاؤں پر کھڑے ہوئے دیکھا تو پوچھا :'' اے میری بیٹی !کس نے تجھ سے اس مصیبت کو دور کیاہے؟''

تو اس نے جواب دیا: ''اللہ تعالیٰ نے مجھ پر اپنی رحمت کا بادل برسایا اور انعامات و نوازشات میں ذرہ برابر بھی کمی نہ کی ۔ اے میرے والد ِ محترم! میں نے اپنے پروردگار عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں اس مبارک رات کاوسیلہ پیش کیا تو اس نے میری تکلیف دور فرما دی اور میرے جسم کو صحیح فرما دیا۔

(حکایتیں اور نصیحتیں  ؛ ص 457؛ مکتبۃ المدینہ )  

ماہ محرم الحرام کی فضیلتیں

       
        

 ویسے تو اسلام میں قتل و غارت گری، خونریزی اور فتنہ و فساد کی کسی بھی مہینے، ہفتےیادن میں اجازت نہیں تاہم چارمہینوں میں فتنہ وفساد سے خصوصی طور پر بچنے کاحکم ہےاور  اس کی وجہ ان مہینوں کا حرمت والا ہونا ہے  چنانچہ :  

قرآن مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ : ’’ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی کتاب (یعنی لوحِ محفوظ) میں مہینوں کی گنتی بارہ ہے، اسی دن سے جب سے آسمان و زمین کو اس نے پیدا کیا ہے۔ ان میں سے چار مہینے ادب و احترام کے لائق ہیں، یہی درست دین ہے لہٰذا ان مہینوں میں تم اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو‘‘ (التوبہ:۳۶)
پتہ چلا کہ اللہ تعالیٰ نے بارہ مہینے مقرر فرما رکھے ہیں۔ جن میں چار کو خصوصی احترام اورعزت و تکریم سے نوازا گیا۔ یہ چار مہینے کون سے ہیں، ان کی تفصیل صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی اس حدیث سے ہوتی ہے کہ
                
  نبی کریم ﷺ نے فرمایا :ـ ’’ سال کے بارہ مہینے ہیں جن میں چار حرمت والے ہیں، تین تو لگاتار ہیں یعنی ذوالقعدہ ، ذوالحجہ اور محرم اور چوتھا مضر قبیلے کا ماہِ رجب جو جمادی الآخر اور شعبان کے درمیان ہے‘‘ ۔ (بخاری: کتاب التفسیر، سورة التوبہ ؛4662)
          
 معلوم چلا کہ ماہِ محرم بھی ان حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے بلکہ اس کے تو نام کا مطلب ہی حرمت و عظمت والاہے ۔ اس ماہ کو اسلام میں بڑی عظمت و فضیلت حاصل ہیں ۔ ان فضیلتوں میں سے ایک بڑی  فضیلت یہ ہے کہ اس میں عاشوراء کا دن بھی ہے جس کے بارے میں حضور ﷺ نے فرمایاکہ : ''مجھے اللہ پر گمان ہے کہ عاشوراء کاروزہ ایک سال قبل کے گُناہ مِٹادیتاہے۔ '' 
 (صحیح مسلم، کتاب الصیام ،باب استحباب صیام ۔۔ الخ ، حدیث1162)

محرم کے مہینوں میں روزے رکھنے کی بھی بڑی فضیلت ہے چنانچہ ایک  حدیث میں  محرم کی فضیلت  کچھ یوں آئی ہے  کہ :حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں :  حضور ﷺ نے فرمایا: ''ماہِ رمضان کے بعد افضل روزے اللہ تعالیٰ کے مہینے محرم کے روزے ہیں۔''  (صحیح مسلم،کتاب الصیام، باب فضل صوم المحرم،الحدیث1163 )
ماہِ محرم کو یوں بھی اہمیت  حاصل ہے کہ اس سے ہماراا سلامی سال شروع ہوتا ہے ۔ اسلامی سال کی بنیاد تونبی کریم ﷺ کےواقعہٴ ہجرت پر ہےلیکن اس اسلامی سن کاتقرّر اورآغازِاستعمال۱۷ھ میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کےدورسےہوا ۔ بیان کیاجاتاہےکہ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ یمن کےگورنر تھے،ان کےپاس حضرت عمر فاروق کےپیغامات آتےتھےجن پرتاریخ درج نہ ہوتی تھی ۔

۱۷ھ میں حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کےتوجہ دلانےپر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےصحابہ کواپنےہاں جمع فرمایااوران کےسامنےیہ مسئلہ رکھا ۔تبادلہٴ خیال کےبعد طےپایاکہ اپنےسِن تاریخ کی بنیاد واقعہ ٴہجرت کوبنایاجائےاوراس کی ابتداء ماہ ِمحرم سے کی جائے کیونکہ ذو الحجہ کے بالکل آخر میں مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کامنصوبہ طےکرلیاگیا تھااوراس کےبعد جو چاند طلوع ہواوہ محرم کاتھا۔ 
(فتح الباری ، شرح باب التاریخ ومن أین أرّخوا التاریخ ؛ ج 7 ، ص 268  ملخصاً )

لہٰذا  ہجری سال کا آغاز ہمیں ہجرت نبوی ﷺ کی یاددلا کر بتاتاہےکہ اسلام ایک بہت بڑی نعمت ہےاور یہ قربانی،فیاضی ،عزت انسانی کے تحفظ ، بنی نوع انسان کی آزادی ، اور انکے حقوق کی حفاظت کا دین ہے ۔یہ دین غموں اور پریشانیوں میں رونے پیٹنے کی تعلیم نہیں دیتا بلکہ صبر واستقامت کے ساتھ جرأت وبسالت کی داستانیں رقم کرنے کا کہتا ہے ، اخوت وبھائی چارے کی تاریخ قائم کرتا ہے ، ایثار وقربانی کے انمٹ نقوش پیدا کرتا ہے ۔  

 ہمیں اس ماہ کی فضیلتوں کو سامنے رکھتے ہوئے  اس میں زیادہ سے زیادہ نیک کام کرنے چاہئیں اور اس ماہ  میں ہونے والی خرافات سےخود کو ،  گھر والوں کو اور دوستوں کو  بھی  بچانا چاہئے  ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہےکہ
ہمیں دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے، اور ہر قسم کی نافرمانی سےمحفوظ فرمائے، ہمیں اپنی اور اپنے حبیب ﷺ کی سچی محبت واطاعت کی دولتِ عظمیٰ سے نواز دے ۔  آمین

عجیب مقدمے کا عجیب فیصلہ دو بیٹوں میں سے ماں کس کے حصہ میں آئی ؟



عدالت میں ایک عجیب سکوت  طاری تھا  ۔  ہر  شخص حیرانی و خوشی کی ایک ملی جلی سی کیفیت میں  مبتلا تھا  ۔
سامعین حیرت سے ایک دوسرے کی طرف  دیکھ رہے تھے  ،  جج خود الجھن کی ایک تصویر بنا بیٹھا تھا  ۔
 جو کوئی بھی اس مقدمہ کو سنتا تھا  اس کے لیے یہ فیصلہ کرنامشکل تھا کہ وہ اس پر کیا ردِّ عمل کرے   آیا وہ خوش ہو یا حیران ہو   ۔
              
یہ مقدمہ  دو بھائیوں  کے درمیان تھا   اوردونوں اس بات کے دعویدار تھے کہ  ماں اس کے ساتھ رہے گی ۔  یہ معاملہ اولاً گھر میں  اس وقت اٹھا جب دونوں بھائیوں نے فیصلہ کیا کہ اب ہمارے بچے بڑے ہو گئے ہیں  ا س لیے  ہمیں علیحدہ علیحدہ گھر لے لینا چاہئے  چنانچہ علیحدگی کے سب معاملات آسانی سے طے پا گئے  مگر جب بات ماں کو اپنے ساتھ رکھنے کی آئی تو دونوں اس بات  ڈٹ گئے کہ ماں میرے ساتھ رہے گی  ۔  خاندان کے کئی لوگوں نے  اس معاملے کو سلجھانے کی کوشش کی مگر کوئی حل نہ ہو سکا ۔  یہ معاملہ  ہوتے ہوتے عدالت میں آ گیا  ۔
              
 کچھ دیر اسی طرح کی خاموشی کے بعد  جج نے کاروائی شروع کی  اور دونوں  طرف کے  دلائل کو  بغور سنا  مگر   سب کچھ سن لینے کے بعد  جج وہیں  کھڑا  تھا یعنی  وہ  کوئی فیصلہ نہیں  کر پا رہا  تھا ۔
           
  اس نے  اس  معاملے میں  اپنے دیگر ساتھی ججوں سے مشاورت بھی کی مگر  وہ بھی اس معاملے میں کوئی حل دینے سے قاصر رہے  ۔  آخر کار اس جج نے  مقدمہ کی اگلی تاریخ  دیتے ہوئے  حکم جاری کیا کہ اگلی تاریخ میں  ان دونوں کی ماں کو  بھی  عدالت میں پیش کیا جائے  ۔
                 
چنانچہ اگلی  تاریخ  کو پھر عدالت لگی اس انوکھے مقدمے کا سن کر  آج عدالت  میں پہلے سے کہیں زیادہ تعداد میں لوگ آئے تھے۔ ان دونوں کے ساتھ ان کی ماں کو بھی  لایا گیا  ۔
                     
    جج نے  کاروائی شروع کی  اور ماں سے  بولا کہ مجھے تاریخ کے اس  انوکھے مقدمے نے   حیرت میں مبتلا کر رکھا ہے  میں فیصلہ نہیں کر پا رہا  کہ کس کے حق میں فیصلہ سناؤں  ۔  تو آ پ مجھے بتائیں کہ آپ کس کی ساتھ رہنا چاہتیں ہیں  تا کہ میں اس کے حق میں فیصلہ دوں اور مقدمہ ختم کروں ۔
              
  ماں بولی  : جج صاحب آپ جج ہو کر  کسی ایک کے حق میں فیصلہ نہیں دے پا رہے  کہ کہیں دوسرے کا دل نہ ٹوٹ جائے  تو میں تو ماں ہوں یہ دونوں ہی میرے بیٹے ہیں  مجھے دونوں سے محبت ہے اور یہ دونوں ہی مجھ سے محبت کرتے ہیں تو میں کیسے  کسی ایک کا دل توڑ سکتی ہوں ۔  جج صاحب  میرے  نا تواں کاندھوں پر یہ بوجھ  ڈال کر میری ممتا کا امتحان نہ لیجئے ۔ آپ خو د ہی اس کا فیصلہ فرما دیجئے ۔
             
  عدالت میں ایک مرتبہ پھر ہو کا عالم ہو گیا  تھا  ۔  کئی آنکھیں اپنا ضبط چھوڑ چکی تھیں   اور چھلک پڑیں تھیں  اور کئی  آنکھوں میں تیرتے  آنسو  بس چھلکنے ہی والے تھے ۔
                        
 جج نے ایک  لمبا سانس بھرا  اور کچھ دیر  سوچ کر  بولنا شروع کیا : آپ دونوں میں  جو بڑا بھائی ہے  اس کے بچے جوان ہو چکے ہیں اور وہ خود عمر کے زیادہ ہونے کیوجہ سے  اب ضعف کی طرف جا چکا ہے ۔ ایسے میں اس پر ماں کی ذمہ داری بھی ڈال دینا غیر مناسب ہو گا  جبکہ چھوٹا بھائی ابھی  جوان ہے  اور  بڑے بھائی کی نسبت ابھی توانا ہے  تو ماں کا خیال زیادہ اچھے انداز میں رکھ سکے گا   لحذا  اس مقدمے کو مکمل طورپر زیر ِغور لانے کے بعد   میں اپنی صوابدید پر یہ فیصلہ کر رہا ہوں کہ  آپ کی ماں آپ میں چھوٹےبھائی کے پاس رہے گی  ۔

اتنا سننا تھا کہ بڑا  بھائی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا اور کہتا تھا   ’’  آج میرے بڑھاپے نے  مجھے اپنی ماں کی خدمت کرنے سے  محروم کر دیا ‘‘ 

کانے اور لنگڑے بادشاہ کی مصور نے ایسی تصور بنائی کے نہ وہ کانا لگتا تھا نہ ہی لنگڑا



 ایک بادشاہ انصاف پسند اور عوام کے دکھ سکھ کو سمجھنے والا تھا مگر جسمانی طور پر ایک ٹانگ سے لنگڑا اور ایک آنکھ سے کانا تھا۔ ایک دن بادشاہ نے اپنی مملکت کے ماہر مصوروں کو اپنی تصویر بنوانے کیلئے بلوا لیا۔اور وہ بھی اس شرط پر کہ تصویر میں اُسکے یہ عیوب نہ دکھائی دیں۔
                   
 مصوروں نے یہ تصویر بنانے سے انکار کر دیا۔ اور وہ بھلا بادشاہ کی دو آنکھوں والی تصویر بناتے بھی کیسے جب بادشاہ تھا ہی ایک آنکھ سے کانا اور وہ کیسے اُسے دو ٹانگوں پر کھڑا ہوا دکھاتے جبکہ وہ ایک ٹانگ سے بھی لنگڑا تھا۔
                
لیکن ان  مصوروں  میں سے ایک مصور نے کہا: بادشاہ سلامت میں بناؤں گا آپکی تصویر ۔   چنانچہ اس کو تمام  سامان مہیا کر دیا گیا اوروہ دل و جان سے تصویر بنانے میں لگ گیا۔
          جب تصویر تیار ہوئی تو وہ اپنی خوبصورتی میں ایک بہترین مثال ہونے کے ساتھ  شاہکار بھی تھی۔  ہر کوئی اسے دیکھ کر حیران رہ جاتا  کہ اس مصور نے کس خوبصورتی کے ساتھ  بادشاہ کے دونوں عیب چھپا  لئے ۔
                          
 تصویر کچھ یوں تھی کہ  اس میں بادشاہ شکاری بندوق تھامے نشانہ باندھ رہا  ہے، جس کیلئے لازمی طور پر اُسکی ایک (کانی) آنکھ کو بند اور (لنگڑی ٹانگ والے) ایک گھٹنے کو زمیں پر ٹیک لگائے دکھایا گیا تھا۔ اور اس طرح بڑی آسانی سے بادشاہ کی بے عیب تصویر تیار ہو گئی تھی۔
                             
کیوں نہ ہم بھی اِسی طرح دوسروں کی بے عیب تصویر بنا لیا کریں خواہ انکے عیب کتنے ہی واضح نظر آ رہے ہوں اور کیوں نہ ہم جب لوگوں کی تصویر دوسروں کے سامنے پیش کیا کریں تو اُنکے عیبوں کی پردہ پوشی کر لیا کریں  ۔۔۔ !
                   
کیو نکہ  کوئی بھی  شخص عیبوں سے پاک نہیں ہوتا ۔۔۔ ! تو کیوں نہ ہم  دوسروں کی خوبیوں کو اُجاگر کریں اور عیبوں کو چھوڑ دیں...... اپنی اور دوسروں کی خوشیوں کیلئے ۔

            
  ایک ارشاد ِ نبوی ﷺ کاحصہ ہے کہ ’’ جو شخص دنیا میں کسی کی پردہ پوشی کرے گا، اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس کی پردہ پوشی کرے گا ‘‘  ۔ (مسلم ،کتا ب الذکر والدعا، باب فضل الاجتماع علی تلاوۃ القران ،رقم 2699 ،ص  1447 )

مسلمانوں کے ایمانی جذبے کے آگے

                                   
 مسلمانوں کے ایمانی جذبے  کے آگے بڑی بڑ ی طاقتیں  ٹھہرنہیں پا رہی تھیں ۔ مسلمان جہاں کا بھی رخ کرتے تھے اللہ کے فضل و کرم سے کامیابی ان کے قدم چومتی تھی  اور فتوحا ت کے دروازے کھلتے چلے جاتے تھے ۔
                                 
 یہ کامیابیوں اور فتوحات  کا سفر    طے کرتے  کرتے ایک دن ایسا آیا کہ مسلمان  پورا اسکندریہ بھی فتح کرنے میں کامیاب ہو گئے  ۔  اس دور میں  اس  لشکر کےسپہ سالار  حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  تھےچنانچہ یہ خبر اپنے  سپہ سالار  تک پہنچانے کے لیے ایلچی روانہ کر دیا گیا ۔
                           
مسلمانوں کے عظیم  سپہ سالار  حضرت عمر وبن عاص  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اس وقت پچھلے مقام ’’فسطاط‘‘  پر تھے، فسطاط عربی میں ا س خیمہ کو کہتے ہیں جو سفر کے دوران لگایا جاتا ہے ۔   آپ کو جب  اسکندریہ کے فتح ہونے کی خبر ملی تو   آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وہاں جانے کا ارادہ فرمایا اور  ضروری سامان جمع فرمانے کے بعد  آپ رضی اللہ  تعالی ٰ نےحکم دیا کہ  خیمہ اکھاڑ دیا جائے  ۔
                         
 سپاہی خیمہ اکھاڑ نے لگے تو آپ رضی اللہ تعالیٰ کی نظر خیمے کے اندر بنے ایک گھونسلے پر پڑی جب دیکھا تو  وہ ایک کبوتر کا گھونسلہ تھا ۔ یہ دیکھ کر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خیمہ اکھاڑنے سے منع فرما دیا اور فرمایا کہ ہمارے مہمان کو تکلیف ہو گی ۔
                         
چنانچہ ایک کبوترکے  آرام و سکون کی خاطر اور اس کو تکلیف سے بچانے کے لیے اس   خیمہ کو  وہیں چھوڑ دیا گیا اور آپ رضی اللہ تعالیٰ نے اسکندریہ کی طرف  سفر شروع کر دیا ۔
                       
   کچھ عرصے بعد آپ رضی اللہ تعالی ٰ عنہ کا  واپس وہاں سے گزر  ہوا تو  آپ رضی اللہ عنہ  نے حکم دیا کہ اس جگہ پر ایک شہر قائم کیا جائے  اورآپ  رضی اللہ تعالی ٰ نے اس شہر کا نام  بھی کبوتر کے اس خیمے کی  مناسبت سے ’’فسطاط ‘‘ رکھا اور مکمل مصر فتح ہو جانے کے بعد  یہی شہر اس کا  پہلا دار الحکومت بھی بنا  ۔  
( سچی حکایات ؛ ص 77۔78 ؛ فرید بک اسٹال لاہور )
                      
معلوم ہوا کہ مسلمانوں کا حسن اخلاق اتنا بلند و بالا اور خوبصورت  رہا ہے کہ پرندے اور جانور بھی  ان کی طرف سے تکلیف سے  بچے رہے ۔  تو اگر آج کا مسلمان اپنے ہی بھائی پر ظلم و ستم کرے تو  یہ کتنے تعجب کی بات ہے  کہ ہمارے بزرگ تو کسی جانور تک کو تکلیف سے بچانے کے لیے   اتنا کچھ کر جائیں اور  ہم اپنے بھائی  تک  کو نہ چھوڑیں  ۔
                                       
 لحذا ہمیں بھی چاہیےکہ ہم بھی اپنے بزرگوں کے نقش و قدم پر چلتے ہوئے   ہر ایک  سے  حسن سلوک  سے پیش آئیں ہر ایک کی  چاہے وہ انسان ہو یا کوئی اور جاندار   ہر ممکن مدد کریں اور  ہر ایسے عمل سے بچیں کہ  جس سے کسی کو کوئی تکلیف  یا ضرر پہنچنے کا خطرہ ہو  ۔ 

بے چارہ گدھا کنویں میں جاگرا۔۔۔


  ایک دفعہ ایک گدھا ایک خشک  کنویں میں جا گرا اور زور زور سے رینگنے لگا. گدھے کا مالک کسان تھا جو کنویں کے کنارے پہ کھڑا اسے نکالنے کی ترکیبیں سوچ رہا تھا.
                       
جب اسے کوئی طریقہ نہیں سوجھا تو ہار مان کر دل کو تسلی دینے لگا کہ گدھا تو اب بوڑھا ہو چکا ہے، وہ اب ویسے بھی میرےکسی  کام کا نہیں رہا، چلو اسے یوں ہی چھوڑ دیتے ہیں اور کنواں بھی  چونکہ خشک ہے اس لیےاس کو بھی آخر کسی دن بند کرنا ہی پڑے گا ۔
                  
 یہ سوچ کر اس نے اپنے پڑوسیوں کی مدد لی اور کنواں بند کرنا شروع کر دیا. سب کے ہاتھ میں ایک ایک بیلچہ تھا جس سے وہ مٹی، بجری اور کوڑا کرکٹ کنویں میں ڈال رہے تھے ۔
                       
گدھا اس صورت حال سے بہت پریشان ہوا. اس نے اور تیز آواز نکالنی شروع کر دی. کچھ ہی لمحے بعد گدھا بالکل خاموش سا ہو گیا. جب کسان نے کنویں میں جھانکا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ جب جب گدھے کے اوپر مٹی اور کچرا پھینکا جاتا ہے تب تب وہ اسے جھٹک کر اپنے جسم سے نیچے گرا دیتا ہے اور پھر گری ہوئی مٹی کے اوپر کھڑا ہو جاتا ہے.
                
یہ سلسلہ کافی دیر تک چلتا رہا. کسان اپنے پڑوسیوں کے ساتھ مل کر مٹی اور کچرا پھینکتا رہا اور گدھا اسے اپنے بدن سے ہٹا ہٹا کر اوپر آتا گیا، اور دیکھتے ہی دیکھتے کنویں کے اوپر تک پہنچ گیا اور باہر نکل آیا. یہ منظر دیکھ کر کسان اور اس کے پڑوسی سکتے میں پڑ گئے. ان کی حیرانی قابل دید تھی.
                   
زندگی میں ہمارے ساتھ بھی ایسے واقعات رونما ہو سکتے ہیں کہ ہمارے اوپر کچرا اچھالا جائے، ہماری کردار کشی کی جائے، ہمارے دامن کو داغدار کیا جائے، ہمیں طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جائے، لیکن گندگی کے اس گڑھے سے بچنے کا طریقہ یہ نہیں کہ ہم ان غلاظتوں کی تہہ میں دفن ہو کر رہ جائیں بلکہ ہمیں بھی ان بے کار کی چیزوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اوپر کی طرف یعنی  آگے کی سمت بڑھتے رہنا چاہیے.
                       
 زندگی میں ہمیں جو بھی مشکلات پیش آتی ہیں وہ پتھروں کی طرح ہوتی ہیں مگر یہ ہماری عقل پر منحصر ہے کہ آیا ہم ہار مان کر ان کے نیچے دب جائیں یا ان کے اوپر چڑھ کر مشکل کے کنویں سے باہر آنے کی ترکیب کریں...خاک ڈالنے والے ڈالتے رہیں مگر پرعزم انسان اپنا راستہ کبھی نہیں بدلتا ۔

تندئ باد مخالف سے نہ گبھرا اے عقاب
 یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لئے

ارشد نے مقابلہ لڑے بنا پہلی پوزیشن کیسے حاصل کی ؟

ہال تقریباً بھر چکا تھا   ، اسکول کےتمام طلبہ اپنی اپنی ڈرائنگ بنا کر لائے تھے کیونکہ آج اسکول میں ہر سال کی طرح  پھولوں کی ڈرائنگ کا مقابلہ تھا  جو پہلی کلاس سے لیکر آٹھویں کلاس  تک کے طلبہ کے درمیان ہوتا تھا  ۔ ہال میں طلبہ اپنے اپنے  دوستوں کے ساتھ خوش گپیوں میں  مصروف  تھے  ایک  توصیف ہی تھا کہ جس کی نظر ارشد کو تلاش کر رہی تھی جو  اسے ابھی تک نہیں مل پا رہا تھا ۔ 
                        
توصیف اور ارشد  بہت اچھے دوست  تھے  دونوں کی ڈرائنگ  بھی بہت اچھی تھی پچھلے مقابلے میں بھی ارشد کی پہلی اور توصیف کی تیسری پوزیشن آئی تھی ۔  توصیف ارشد کا بہت خیال  رکھتا تھا کیونکہ ارشد  کے والد  کا انتقال ہو گیا تھا  اور اس کی والدہ سلائی کر کے ارشد کی پڑھائی ، مُنّی اور گھر کا خرچہ اٹھا  تی   تھیں جو بمشکل پورا ہوتا تھا ۔
                                   
 جب  ارشد نہ ملا تو  توصیف  آخر تھک ہار کر  ایک کرسی پربیٹھ گیا  ۔ توصیف جیسے ہی بیٹھا تو اس کی نظر  کونے میں رکھی ایک کرسی پر پڑی جس پر ارشد بیٹھا تھا  اور کافی افسردہ لگ رہا تھا ۔توصیف جا کر اس سے ملا اور افسردگی کی وجہ پوچھی تو ارشد کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے  مگر ارشد نے  کچھ بتانے سے انکار کر دیا   پھر توصیف کے بار بار  پوچھنے پر  ارشد نے بتایا کہ  اس مہینے جو سلائی کے پیسے آئے تھے وہ مُنّی کی دوائی پر لگ گئے  تھے  اب امی کے پاس پیسے ہی نہیں بچے تھے   اس لیے  میں اس دفع ڈرائنگ نہیں بنا سکا ۔
               
ابھی یہ باتیں چل ہی رہی تھیں کہ  اعلان ہوا کہ تما م  طلبہ اپنی اپنی ڈرائنگ  جمع کروا دیں  ۔ توصیف  بھی ارشد کو انتظار کرنے کا بول کر  اپنی ڈرائنگ جمع کروانے چلا گیا  ڈرائنگ جمع ہو جانے کے بعد  سب طلبہ کو  2 گھنٹے کے مشکل اور طویل انتظار سے گزرنا تھا تا کہ ججز تمام  ڈرائنگز دیکھ کر حتمی فیصلہ سنائیں  ۔  جیسے تیسے کر کے   یہ وقت گزرا اور  تمام ڈرائنگز  میں  سےتین  کو  چن لیا گیا  تھا جن کااب  اعلان ہونا تھا ۔
                                
چنانچہ اعلان کر دیا گیا کہ تمام طلبہ نشستوں پر واپس آ جائیں  تا کہ پوزیشن  ہولڈرز کا اعلان کیا جائے  ۔  اب ہال ایک بار پھر بھر چکا تھا  ہر طرف  خاموشی طاری تھی  ۔   توصیف  ارشد کےساتھ بیٹھا  تھا  ارشد  کافی افسردہ جبکہ توصیف بالکل پر سکون بیٹھا تھا ۔ اس کےچہرے پر ایک  الگ ہی اطمنان تھا  ۔
                
 اعلان شروع ہوتا ہے  ۔ ۔ ۔ ۔ ! ارشد نے  آنکھیں بند کر لیں تھیں  شاید وہ اس  دکھ کا سامنا نہیں کر پارہا  تھا ۔ تیسری اور دوسری  پوزیشن  کا اعلان ہو چکا اب پہلی پوزیشن  کی باری تھی    ارشد کی ہمت جواب دے چکی تھی ۔
                
مگر  یہ کیا ۔۔۔  !  ارشد کو ایک زوردار  جھٹکا لگا   اس کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آ رہا تھا  کہ وہ جو سن رہاہے وہ خواب ہے یا حقیقت کیونکہ  اسٹیج پر پہلی پوزیشن کے لیے ارشد کا نام  پکارا جا رہا تھا  ۔  ارشد  کرسی سے نہیں اٹھ رہا تھا  کہ شاید یہ غلط فہمی  کی بنا پر  ہو گیا ہے  ۔  ارشد کو  آس پاس کے طلبہ نے  اسٹیج  پر جانے کے اشارے کرنا شروع کر دئیے   اب  اسے یقین ہو گیا کہ یہ میرا ہی نام پکارا جا رہا ہے  لہذا وہ اسٹیج کی طرف  چلنے لگا   ۔
                                
ارشد ایک  حیرت کی تصویر بنا  اسٹیج کی طرف چلا جا رہا تھا  ۔ وہ کبھی  اسٹیج کی طرف  دیکھ رہا تھا کبھی توصیف کی طرف وہ  کچھ کچھ معاملہ سمجھ چکا تھا ۔ وہ  حیران   تھا کہ یہ اس کے ساتھ ہو کیا رہا ہے ۔ اوپر پہنچ کر اسے اس کا انعام  دیا گیا تو اس نے  ٹیچر سے  مائک میں کچھ بولنے کی اجازت  مانگی جواسے دے دی گئی ۔
                       ارشد نے مائیک میں بولنا شروع کیا   :  آج  ایک دوست نےدوسرے دوست کی پریشانی میں مدد کرنے کی عظیم  مثال قائم کی ہے ۔ میں  آپ سب کو بتانا چاہتا ہوں کہ  میں  اپنی گھریلو  پریشانیوں اور  پیسے نہ ہونے  کی وجہ سے  اس  دفع ڈرائنگ نہ  بنا سکا  تھا  اور آج میں نے کوئی ڈرائنگ جمع نہیں کروائی تھی  بلکہ یہ  میرے دوست توصیف کی ڈرائنگ  ہے  جو اس نے میر ے نام پر جمع کروا ئی ہے ۔
                               
اتنا بولنا تھا  کہ پورے ہال پر  حیرانی کی کیفیت طاری تھی ہر کوئی   توصیف کی تعریفیں کرنے لگا تھا۔ یہ سب  دیکھ کر اسکول کے پرنسپل  نے مائک پکڑا اور کہنے لگے  : میں توصیف  کے اس کام کوسراہتے ہوئے  ایک اعلان کرتا ہوں کہ  آج پہلی دفع کسی ایک ڈرائینگ پر اسکول  کی انتظامیہ  دو بچوں کو  اوّل پوزیشن دینے جا رہی ہے ۔ ایک  تو اس  کوکہ جس کی یہ ڈرائنگ ہے اور دوسری اس کے دوست کو کہ  جس کے نام پر یہ  ڈرائنگ جمع کروائی گئی ۔
                      
اتنا سننا تھا کہ توصیف بھی خوشی سے کِھل اٹھا  اور  اسٹیج  کی طرف چل دیا  ۔  انعام حاصل کرنے کے بعد توصیف پیچھے پلٹا تو   ارشد سامنے کھڑا مسکرا رہا تھا  توصیف بھی جواباً   مسکرایا اور دونوں  گلے لگ گئے ۔  
کبھی اپنی خوشی اپنی کسی عاشق رسول بھائی کو دیکر دیکھیں تو صحیح کہ سکون کس نعمت کا نام ہے۔اخلاص کے ساتھ پریشان حال مسلمانوں کی مدد کریں برکت خود دیکھ لیں گے۔

’’بیشك الله تعالٰی کے نزدیك فرضوں کے بعد سب اعمال سے زیادہ محبوب مسلمان کو خوش کرنا ہے۔‘‘
(المعجم الکبیر مرویات عبداللہ ابن عباس حدیث ١١٠٩ مطبوعہ المکتبۃ الفیصلیہ بیروت ١١/ ٧١)