غالباً
1320ھ میں حضور سیدی اعلیٰ حضرت رحمہ اللہ
تعالیٰ ’’بیسل پور‘‘ میں مقیم حضرت مولاناعرفان
علی صاحب بیسلپوری کے دولت خانے پر تشریف لے گئے اور مولاناعرفان علی صاحب سے
فرمایا کہ کیا اس بستی
میں کسی ولی اللہ کا مزار شریف ہے؟
انہوں
نے عرض کیا حضور! یہاں تو کسی مشہور ولی کا مزار میری نظر میں نہیں ۔
اعلیٰ
حضرت رحمہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا
مجھے تو’’ولی اللہ‘‘ کی خوشبو آرہی ہے، میں ان کے مزار پر فاتحہ پڑھنے جاؤں گا۔
تب
مولانا عرفان علی صاحب نے عرض کیا حضور!
ہاں بالکل اس بستی کے کنارے پر ایک قبر ہے ،جنگلی علاقہ ہے ،ایک کوٹھڑی بنی ہوئی
ہے ،اُسی کے اندر وہ قبر ہے۔
اعلیٰ
حضرت رحمہ اللہ تعالیٰ اس گمنام مزار پر تشریف لے گئے اور آپ نے اس
چار دیواری کے اندر جا کر دروازہ بند کر لیا اور تقریباً پون گھنٹے تک اندرہی رہے
۔
خصوصاً
مولانا عرفان علی صاحب کا بیا ن ہے کہ ایسا معلوم ہوتا تھا گویا دو لوگ آپس میں
گفتگو فرمارہے ہیں، ایک ولی نے ایک ولی سے ملاقات کی اور کیا کیا راز ونیاز کی
گفتگو فرمائی کسی کو معلوم نہیں۔
ہاں
جب آپ باہر تشریف لائے تو چہرے پر جلا ل روشن تھا ،بارعب آواز میں فرمایا :
بیسلپور
والو! تم اب تک تاریکی میں تھے یہ اللہ تعالیٰ کے زبر دست ولی اللہ ہیں، غازیان ِ
اسلام سے ہیں، سہروردی سلسلے کے ہیں، قبیلہء انصار سے ہیں ،غازی کمال شاہ ان کا
نام ہے، انہوں نے شادی نہیں کی تھی ۔
تم
لوگوں کا فرض ہے کہ ان سے کسب فیض کرتے رہواور ان کے مزار شریف کو عمدہ طور پر
تعمیر کرو۔
ا
علیٰ حضرت کا یہ فرمانا تھا کہ اس مزار پر
اسی وقت سے لوگوں کا ہجوم ہونے لگا اور آپ کی بارگاہ سے لوگ مستفیض ہونے لگے وہ
اُ جاڑ جنگل نما خطہ تھوڑے ہی دنوں میں صحن ِ گلزاربن گیا۔
(تجلیاتِ امام احمد رضا از امانت رسول
مکتبہ برکاتی پبلیشرز ص100 )