حضرت سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے
نضلہ بن عمرو انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تین سو مہاجرین وانصار کے ساتھ عراق کے ایک
علاقے حلوان کی طرف جہاد کے لئے روانہ کیا
انہیں وہاں فتح حاصل ہوئی اور یہ قیدی
اوربہت سا مالِ غنیمت لے کر واپس آرہے تھے کہ
ایک پہاڑ کے دامن میں شام ہوئی،
حضرت نضلہ رضی اللہ تعالی عنہ نے اذان کہی، جب کہا
ﷲ اکبر ، ﷲ اکبر پہاڑ سے آواز آئی اور صور
ت نہ دکھائی دی کہ کوئی کہتا ہے کبرت کبیرایا نضلۃ یعنی تم نے کبیر کی بڑائی کی اے نضلہ!
جب
کہا اشھدان لا الٰہ الا اﷲ جواب آیا اخلصت یا نضلۃ اخلاصًا نضلہ! یعنی تم نے خالص توحید کی،
جب کہا اشھدان محمد ا رسول اﷲ آواز آئی نبی بعث لا
نبی بعدہ ھو النذیر وھو الذی بشرنا بہ عیسٰی بن مریم وعلٰی راس امتہ تقوم الساعۃ یعنی یہ نبی ہیں کہ مبعوث ہوئے ان کے بعد کوئی
نبی نہیں یہی ڈر سنانے والے یہی ہیں جن کی بشارت ہمیں عیسٰی بن مریم علیہم الصلوٰۃ
والسلام نے دی تھی انہیں کی امت کے سر پر قیامت قائم ہوگی۔
جب کہا حی علی الصلوٰۃ جواب آیا فریضۃ فرضت طوبٰی لمن مشی الیہا وواظب علیھا یعنی نمازایک فرض ہے کہ بندوں پر رکھا گیا خوبی
و شادمانی اس کے لئے جو اس کی طرف چلے اور اس کی پابندی رکھے،
جب کہا حی علی الفلاح آواز آئی افلح من اتاھا و واظب علیہا افلح من اجاب محمدا ﷺ
یعنی مراد کو پہنچا جو نماز کے لئے آیا
اور اس پر مداومت کی، مراد کو پہنچا جس نے محمدﷺ کی اطاعت کی،
جب کہا قد قامت الصلوٰۃ جواب آیا البقاء لا مۃ محمد ﷺ وعلیٰ رؤوسھا
تقوم الساعۃ یعنی بقا ہے امت محمد ﷺ کے لئے اور انہیں کے سروں پر قیامت ہوگی۔
جب کہا ﷲ اکبر ﷲ اکبرلا الٰہ الا ﷲ آواز آئی اخلصت الاخلاص کلہ یا نضلۃ فحرم اﷲ بھا جسدک علی
النار اے نضلہ! یعنی تم نے پورا اخلاص کیا تو اﷲ تعالٰی نے اس کے سبب تمہارا بدن
دوزخ پر حرام فرمادیا
نماز کے بعد حضرت نضلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کھڑے
ہوئے اور کہا اے اچھے پاکیزہ خوب کلام والے!ہم نے تمہاری بات سنی تم فرشتے ہو یا
کوئی سیاح یا جن، ظاہر ہو کر ہم سے بات کرو کہ ہم اﷲ عزوجل اور اس کے نبی ﷺ (اور
امیر المؤمنین عمر) کے سفیر ہیں،
اس
کہنے پر پہاڑ سے ایک بوڑھے شخص نمودار ہوئے، سفید بال، لمبی داڑھی سرایک چکی کے
برابر، سفید اُون کی ایک چادر اوڑھے ایک باندھے، اور کہا السلام علیکم ورحمۃ اﷲ،
حاضرین نے جواب دیا، اور حضرت نضلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا اﷲ تم پر رحم کرے
تم کون ہو؟
میں
ذریب بن برثملا ہوں بندہ صالح عیسٰی بن مریم علیہم الصلوٰۃ والسلام کا وصی ہوں
انہوں نے میرے لئے دعا فرمائی تھی کہ میں ان کے نزول تک باقی رہوں
پھر ان سے پوچھا رسول اﷲ ﷺکہا ں ہیں ۔۔۔ ؟ کہا
انتقال فرمایا۔ اس پر وہ بزرگ بشدت روئے، پھر کہا ان کے بعد کون ہوا؟ کہا ابوبکر۔
وہ کہاں ہیں؟ کہاانتقال ہوا۔ کہا پھر کون بیٹھا؟ کہا عمر۔ کہا امیر المؤمنین عمر
سے میرا سلام کہو، اور کہا کہ ثبات وسدا دوآسانی پر عمل رکھئے کہ وقت قریب آلگا
ہے، پھر علاماتِ قرب قیامت اور بہت کلماتِ وعظ وحکمت کہے اور غائب ہوگئے۔
جب امیر
المؤمنین کو خبر پہنچی سعد بن ابی وقاص رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے نام فرمان جاری
فرمایا کہ خود اس پہاڑ کے نیچے جائیے اور وہ ملیں تو انہیں میرا سلام کہئے رسول اﷲ
ﷺ نے ہمیں خبر دی تھی کہ عیسٰی علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک وصی عراق کے اس پہاڑ
میں منزل گزین ہے سعد رضی اﷲ تعالٰی عنہ (چار ہزار مہاجرین وانصار کے ساتھ) اس
پہاڑ کو گئے چالیس دن ٹھہرے پنجگانہ اذانیں کہیں مگر جواب نہ ملا۔ آخر واپس آئے ۔
(دلائل النبوۃ للبیہقی، ،لاہور، ۵/ ۴۲۵تا۴۲۷ )