جھوٹی نبوت کا دعویٰ کرنے والے کا انجام کیا ہوا ؟

حضرت سیدنا عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہماسے روایت ہے کہ دو عالم کے مالِک و مختار، مکی مَدَنی سرکار ﷺ نے خواب دیکھا کہ سونے کے دو کنگن آپ کی ہتھیلیوں میں رکھے گئے جو آپ کوبوجھل محسوس ہوئے ۔ آپ ﷺ کو وحی کی گئی کہ ان پرپھونک ماریں ۔جب آپ ﷺ نے پھونک ماری تو وہ اتر گئے۔ نبیٔ کریم ﷺ نے اس کی تعبیر یوں فرمائی کہ دو جھوٹے نبی ظاہر ہوں گے۔ایک قبیلہ صنعاءکا اسود عنسی اور دوسرا قبیلہ یمامہ کا مسیلمہ کذاب۔    (صحیح البخاری، کتاب المناقب، باب علامات النبوۃ، الحدیث: ۳۶۲۱، ج۲، ص۵۰۷)

مسیلمہ کذاب   کا پورا نام مسیلمہ بن حبیب، کنیت ابو ثمامہ اور تعلق بنو حنیفہ سے تھا،نبوت کا دعوی تو اس نے سرکار ﷺ کے دور میں ہی کردیا تھا لیکن لوگوں کی حمایت اس نے آپ ﷺ کی وفاتِ ظاہری  کے بعد حاصل کی ۔

 ۱۰ سن ہجری مسیلمہ کذاب اپنی قوم بنی حنیفہ کے وفد کے ہمراہ مدینہ منورہ آیا، وفد کے افراد کی تعداد سترہ تھی، مسیلمہ کے سوا باقی سب نے رسول اللہکے سامنے اسلام قبول کرلیا۔مسیلمہ کہنے لگا: ’’ اگر محمد ﷺ اپنے بعد خلافت مجھے عطا فرمادیں تو میں ان کی اتباع کروں گا اور ایمان قبول کرلوں گا۔‘‘

رسول اللہ ﷺ  اس کے پاس تشریف لائے اور اس کے سر پر کھڑے ہوئے ، دست اقدس میں کھجور کی شاخ کا ایک ٹکڑا تھا، آپ ﷺنے مسیلمہ کذاب سے فرمایا: ’’  اگر تو اس ٹکڑے کی مانند بھی طلب کرے تو بھی  میں تجھے نہ دوں گا اور تو   اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے معاملے میں ہرگز جارحیت اختیار نہیں کرسکتا اور اگر تونے   اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے معاملے میں پیٹھ دکھائی تو وہ ضرور تیری پکڑ فرمائے گا۔‘‘

ایک روایت میں یہ ہے کہ اس نے بھی اسلام قبول کر لیا تھالیکن اپنے علاقے میں واپس آکر مرتدہوگیا اور نبوت کا دعو ٰی کردیا۔
 (صحیح البخاری، کتاب المناقب، علامات النبوۃ فی الاسلام، الحدیث:۳۶۲۰، ج۲،  ص۵۰۶، سیرت سید الانبیاء، ص۵۷۴، مدارج النبوت، ج۲، ص۴۰۶)
                              
مسیلمہ کذاب جب محبوبِ رَبِّ اکبر ﷺ کی بارگاہ سے واپس گیا تو اس نے بعد میں آپ ﷺکو ایک خط لکھا جس کا مضمون یہ تھا: ’’ اللہ کے رسول مسیلمہ کی طرف سے   اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے رسول محمد ﷺکی طرف سلام، نبوت اور حکومت کے معاملے میں مجھے آپ کا شریک بنایا گیا ہے، آدھی زمین ہماری ہے اور آدھی قریش کی۔ لیکن قریش حد سے تجاوز کرنے والی قوم ہے۔‘‘
                         
 مسیلمہ کے اس جھوٹے مکتوب کے جواب میں رسولِ اَکرمﷺ نےجو مکتوب لکھااس کا مضمون یہ تھا: ’’  اللہ عَزَّوَجَلَّ کے رسول محمد ﷺ کی طرف سے سخت جھوٹے مسیلمہ کی طرف! بلا شبہ زمین   اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی ہے وہ جسے چاہتاہے اس کی ملکیت عطا فرماتاہےاور بہتر انجام   اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے ڈرنے والوں کے لیے ہے۔‘‘یہ خط وکتاب ۱۰سن ہجری کے اواخر میں ہوئی۔    

(السیرۃ النبویۃ،لابن ھشام، کتاب مسیلمۃ الی رسول اللہ، ج۲،  ص۵۰۶، مدارج النبوت، ج۲، ص۴۰۶)

جنگ یمامہ اور اس کا ہوش ربا منظر

امیر المؤمنین حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے حضرت سیدنا عکرمہ بن ابی جہل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو اس مسیلمہ کی سرکوبی کے لیے روانہ فرمایاتھا اور پھر حضرت سیدنا شرحبیل بن حسنہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کوان کی مدد کے لیے بھیجا لیکن ان دونوں کے آگے اس نے ہتھیار نہ ڈالے۔ کیونکہ حضور اکرم ﷺ کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد مسیلمہ کذاب کا کاروبار چمک اٹھا تھااور تقریباً ایک لاکھ سے زائد افراد اس کے گرد جمع ہوگئے تھے۔

 حضرت سیدنا عکرمہ بن ابی جہل اور حضرت سیدنا شرحبیل بن حسنہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے بھی اس کی خوب جنگ ہوئی جس کے مقابلے میں اس کے کئی لوگ مارے گئے ، اتنے میں ان دونوں صحابہ کی مدد کے لیے حضرت سیدنا خالد بن ولید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ بھی آپہنچے۔

آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے لشکر کی تعداد چوبیس ہزار تھی اور مسیلمہ کذاب کے پاس اس وقت چالیس ہزار فوج تھی، فریقین بے جگری سے لڑےاور جنگ کا نقشہ کئی بار تبدیل ہوا، کبھی حالات مسلمانوں کے حق میں ہوجاتے اور کبھی کفار کے۔

  جب حضرت سیدنا خالد بن ولید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو یقین  ہوگیا کہ بنوحنیفہ قبیلے والے اس وقت تک نہیں ہٹیں گے جب تک مسیلمہ کو قتل نہ کیا جائے تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ بذات خود میدان میں تشریف لائے اور مقابلے کے لیے کفار کے شہسواروں کو طلب کیا اور مسلمانوں کے شعار یعنی عادت کے مطابق ’’یَامُحَمَّدَاہ‘‘ نعرہ لگایا اوراس وقت جنگ میں مسلمانوں کا شعار یہ تھا کہ وہ مشکل وقت میں باآواز بلندیہ نعرہ لگایا کرتے تھے ’’یَامُحَمَّدَاہ‘‘یعنی یا رسول اللہ ﷺ! ہماری مدد فرمائیے۔

اسی طرح حضرت سیدنا خالد بن ولید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے بھی نعرہ لگایااورپھر دشمنوں کی طرف سے جو بھی مقابلے پرآیا آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے اس کی گردن اڑادی ۔بالآخر مشرکین کو شکست ہوئی اوروہ سارے بھاگ کھڑے ہوئے۔مسلمانوں کی ایک جماعت نے ان کا تعاقب کیااور بہت سوں کو واصل جہنم کیا اور بہت سوں کو گرفتار کرکے قیدی بنالیا نیزکثیر مالِ غنیمت مسلمانوں کے ہاتھ آیا۔یہ جنگ یمامہ ۱۱سن ہجری میں لڑی گئی۔ 
(سیرت سید الانبیاء، ص۵۷۵، الکامل فی التاریخ، ج۲، ص۲۲۱)

مسیلمہ کے لشکری جب بھاگے تو خود مسیلمہ کذاب بھی بھاگ کھڑا ہوا اور ایک دیوار کے پیچھے جاکر چھپ گیا، لیکن ایک جیدصحابی حضرت سیدنا وحشی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے اسے دیکھ لیا اور اس زور کا نیزہ مارا کہ اس کے سینے کے آر پار ہوگیااور وہ اپنے بھیانک انجام کو پہنچ گیا۔
  (سیرت سید الانبیاء، ص۶۰۹، الکامل فی التاریخ، ج۲، ص۲۲۲، تاریخ الخلفاء، ص۵۸)

جب حضرت سیدنا وحشی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے مسیلمہ کو قتل کیا توبعد میں آپ فرمایا کرتے تھے کہ’’اگرمیں نے خیر الناس سیدنا امیر حمزہ کو شہید کیا ہے تو اشر الناس مسیلمہ کذاب کو بھی قتل کیا ہے۔‘‘   

(المعجم الکبیر، باب الحاء، الحسین بن علی بن ابی طالب،الحدیث: ۲۹۴۷، ج۳، ص۱۴۶،صحیح ابن حبان ،کتاب اخبارہ عن  مناقب الصحابہ، ذکر البیان بان وحشیا۔۔۔الخ، الحدیث:۶۹۷۸، ج۶،الجزء:۹،  ص۴۸۱ ملتقطا)

مسیلمہ کذاب کے لشکر سے بیس ہزار مشرکین اس جنگ میں مارے گئے۔ حضرت سیدنا خالد بن ولید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے لشکر سے ایک ہزار دوسو مسلمانوں کو شہادت نصیب ہوئی جن میں  صحابۂ کرام کی ایک جماعت شامل تھی

یہ خود کو'' رحمن الیمامہ '' کہلواتا تھا پورا نام مسیلمہ بن ثمامہ تھا یہ کہتا تھا '' جو مجھ پر وحی لاتا ہے اس کا نام رحمن ہے'' ۔ اس نے شراب و زنا کوحلال کرکے نماز کی فرضیت کو ساقط کردیا مفسدوں کی ایک جماعت اس کے ساتھ مل گئی اس کے چند عقائد یہاں بیان کیے جاتے ہیں ۔

(1) سمت معین کرکے نماز پڑھنا کفر و شرک کی علامت ہے لہٰذا نماز کے وقت جدھر دل چاہے منہ کرلیا جائے اورنیت کے وقت کہا جائے کہ میں بے سمت نماز ادا کررہا ہوں۔

(2) مسلمانوں کے ایک پیغمبر ہیں لیکن ہمارے دو ہیں ایک محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم ہیں اوردوسرا مسیلمہ اور ہر امت کے کم از کم دو پیغمبر ہونے چاہیں ۔

(3) مسیلمہ کے ماننے والے اپنے آپ کو رحمانیہ کہلاتے تھے اور بسم اللہ الرحمن الرحیم کے معنی کرتے تھے شروع مسیلمہ کے خدا کے (مسیلمہ کا نام رحمان بھی مشہور تھا) کے نام سے جو مہربان ہے۔

(4 ) ختنہ کرنا حرام ہے وغیرہ وغیرہ۔

اس نے ایک شیطانی  کتاب بھی وضع کی تھی جس کے دو حصے تھے پہلے کو '' فاروق اول '' اور دوسرے کو '' فاروق ثانی '' کہا جاتا تھا اور اس کی حیثیت کسی طرح قرآن سے کم نہ سمجھتے تھے اسی کو نمازوں میں پڑھا جاتا تھا اس کی تلاوت کو باعث ثواب خیال کرتے۔

 مسیلمہ کذاب اس شیطانی کتاب کے علاوہ لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے شعبدہ بازی بھی کرتا تھا جس کو وہ اپنا معجزہ کہتا تھا اور وہ یہ تھا کہ اس نے ایک مرغی کے بالکل تازہ انڈے کو سِر کے میں ڈال کر نرم کیا اور پھر اس کو ایک چھوٹے منہ والی بوتل میں ڈالا انڈہ ہوا لگنے سے پھر سخت ہوگیا بس مسیلمہ لوگوں کے سامنے وہ بوتل رکھتا اور کہتا کہ کوئی عام آدمی انڈے کو بوتل میں کسطرح ڈال سکتا ہے لوگ اس کو حیرت سے دیکھتے اور اسکے کمال کا اعتراف کرنے لگتے تھے ۔

اس کے علاوہ جب لوگ اس کے پاس کسی مصیبت کی شکایت لے کر آتے تو یہ انکے لیے دعا بھی کرتا مگراس کا نتیجہ ہمیشہ برعکس ہوتا تھا چنانچہ لوگ اس کے پاس ایک بچے کو برکت حاصل کرنے کو لائے اس نے اپنا ہاتھ بچے کے سر پر پھیرا وہ گنجا ہوگیا ۔

ایک عورت ایک مرتبہ اسکے پاس آئی کہا کہ ہمارے کھیت سوکھے جارہے ہیں کنویں کا پانی کم ہوگیا ہے ہم نے سنا ہے کہ محمد ﷺ کی دعا سے خشک کنووں میں پانی ابلنے لگتا ہے آپ بھی ہمارے لیے دعا کریں چنانچہ اس کذاب نے اپنے مشیر خاص نہار سے مشورہ کیا اور اپنا تھوک کنویں میں ڈالا جس کی نحوست سے کنویں کا رہا سہا پانی بھی ختم ہوگیا ۔

ایک مرتبہ اس کذاب نے سنا کہ  محمد ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی آنکھوں میں آبِ دہن لگایا تھا تو انکی آنکھوں کی تکلیف ختم ہوگئی تھی اس نے بھی کئی مریضوں کی آنکھوں میں تھوک لگایا مگر اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جس کی آنکھ میں یہ تھوک لگاتا وہ بد نصیب اندھا ہوجاتا تھا۔

ایک معتقد نے آکر بیان کیا کہ میرے بہت سے بچے مرچکے ہیں صرف دو لڑکے باقی ہیں آپ ان کی درازی عمر کی دعا کریں کذاب نے دعا کی اور کہا جاؤ تمہارے چھوٹے بچے کی عمر چالیس سال ہوگی یہ شخص خوشی سے جھومتا ہوا گھر پہنچا تو ایک اندوہناک خبر اس کی منتظر تھی کہ ابھی اس کا ایک لڑکا کنویں میں گر کر ہلاک ہوگیا ہے اور جس بچے کی عمر چالیس سال بتائی تھی وہ اچانک ہی بیمار ہوا اور چند لمحوں میں چل بسا اور ایک روایت کے مطابق ایک لڑکے کو بھیڑیے نے پھاڑ ڈالا تھا اور دوسرا کنویں میں گر کر ہلاک ہوا تھا ۔

( ملخص از ترجمان اہلسنت بابت ماہ نومبر 1973ص ۲۹ تا ۳۳ ، مدارج النبوۃ مترجم جلد دوم صفحہ۵۵۲مطبوعہ مکتبہ اسلامیہ اردوبازار لاہور)