ایک نالائق طالبِ علم کی کامیابی کا سفر


یہ بچپن کا واقعہ ہے کہ جب  والد صاحب مرحوم جو میرا سب کچھ  تھے‘ سکول چلے آئے اور ماسٹر صاحب سے میری تعلیمی حالت پوچھی۔ 

دراز قامت کے ماسٹر صاحب نے‘ بلامروت جواب میں ارشاد فرمایا: حالت  کافی پتلی  ہے۔

کہنے کو تو وہ یہ کہہ گئے ‘ لیکن میری حالت مت پوچھئے۔  والد صاحب  تو چپ چاپ چلے گئے ۔
  
جواب میں کیا کہتے ۔ ۔۔ ؟

میرا خیال تھا‘ کہ آج خیر نہیں۔ خوب مرمت کریں گے۔۔۔ خیر ڈرتے ڈرتے گھر  آگیا ۔۔۔ جیسے جیسے ابّا کے گھر آنے کاوقت  قریب آ رہا تھا میرا سانس سوکھتا جا رہا تھا ۔۔۔  

شام کو‘ جب وہ گھر تشریف لائے‘ میرا خون خشک ہو گیا۔ ۔  انہوں نے مجھے پاس بٹھایا‘ پیار کیا۔ میری پسند کے پھل لائے تھے  ، مجھے کھانے کو دیئے ۔ صبح کی بات مجھے نہ جتائی‘ جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔

مجھے ایسے لگا جیسے بکرے کو ذبح کرنے سے پہلے تیار کیا  جا رہا ہو  ۔۔۔   مگر  معاملے کا نتیجہ میرے اندازے سے بالکل برعکس نکلا ۔  

اس دن کے بعد ‘ میرے ساتھ خصوصی شفقت فرمانے لگے۔ مجھے اپنے ساتھ ساتھ رکھتے۔ بیٹھک میں کوئی آ جاتا‘ تو پاس بٹھا لیتے۔ باتیں کرتے‘ کہانیاں سناتے۔ میں ان کے ساتھ سونے لگا۔
 بڑوں کی محفل میں بیٹھنا‘ مجھے اچھا لگتا۔ پہلے سنتا تھا۔ پھر میرے  والد صاحب  نے‘ سوال کرنے کی عادت ڈالی۔ جہاں الجھتا‘ سوال کرتا۔ میں ان کے ساتھ رہتے ہوئے‘ بڑوں کی صحبت سے لطف اندوز ہوتا۔ بڑے مجھ سے سوال بھی کرتے‘ میں ان کے سوال کا اعتماد سے جواب دیتا۔ جواب کبھی  غلط بھی ہوتا ،کبھی صحیح بھی ۔

یوں ایک وہ بچہ جو اسکول میں نالائق ، بیکار ، فضول اور کوڑ دماغ تھا ۔۔۔۔۔ ایک عقل مند والد نے حکمت عملی سے اسے معاشرے کا ایک سگھڑ شخص بنا دیا جو اب اپنی زندگی کامیاب طریقے سے گزار رہا ہے ۔۔۔  

ہمیں  سب سے پہلے اپنے آپ  کو اس بات پر تیار کرنا ہو گا کہ  ہم اپنے بچوں کو کچھ وقت ضرور دیں ان کو  اپنے ساتھ رکھیں ۔۔۔ ان پر شفقت کریں ۔۔۔ ہمارا دین بھی ہمیں یہی سکھاتا ہے  ۔۔۔۔ ہمارےپیارے نبی ﷺ کی سیرت پاک بھی ہمیں یہی سکھاتی ہے  ۔۔۔۔ بچوں پر نرمی کرنا اوران سے رحمدلی کے ساتھ پیش آنا سرکارِ مدینہ ﷺ کی عادت مبارکہ تھی ۔

رَسُولُ اللہ  ﷺ جب سفر سے واپس تشریف لاتےاور راستے میں بچے آپ کے استقبال کے لئے آتے تو آپ ﷺ ان کےپاس ٹھہرتے ،بعض بچوں کو سواری پر اپنے آگے اور بعض کو پیچھے سوار فرماتے اور جوبچے رہ جاتے ان کے متعلق صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کو فرماتے کہ انہیں اپنے ساتھ سواریوں پر بٹھالیں ۔ 

بسا اوقات یہ بچے اس بات پر فخر کرتے اور ایک دوسرے سے کہتے کہ رَسُولُ اللہ  ﷺ نے مجھے اپنے آگے سوار کیا اور تجھے اپنے پیچھے سوار کیا اور بعض بچے یوں فخر کا اظہار کرتے کہ سرکارِ مدینہ ﷺ نے ان کے متعلق صحابۂ کرام علَیہم الرِّضْوَان سے فرمایا کہ انہیں اپنے ساتھ سواریوں پر بٹھا لیں ۔

سبحان اللہ   کیا خوبصورت انداز ہے  ۔۔۔۔  کاش کہ ہم   بھی اسلام کی صحیح تعلیمات  پر عمل کرتےہوئے ،  آقا ئے نامدار ﷺ کی  سنتوں کو اپناتے ہوئے  اپنے بچوں پر خصوصی توجہ دیں  اور انہیں ایک بھرپور اور کامیاب انسان بننے میں مدد گار ثابت ہو ں ۔