نور الدین صاحب فرماتے ہیں کہ میں گورنمنٹ کا ملازم تھا ،
اتفاقاً میری ڈیوٹی بریلی شریف میں لگ گئی ، یہ انگریزوں کا زمانہ تھا ، میرے
پیر صاحب کی جانب سے مجھے یہ نصیحت تھی کہ جہاں بھی جاؤ اُس علاقہ کے بزرگ کے پاس
حاضری ضرور دو اور بریلی شریف میں اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ جیسے کمال بزرگ موجود
تھے چنانچہ میں بریلی شریف میں اعلیٰ حضرت
علیہ الرحمہ کی خدمت میں اکثرحاضر ہوتا تھا ۔
حسب ِ معمول میں ایک دن آپ کی خدمت میں حاضر تھا
کہ دو انگریز آپ کی خدمت میں حاضرہوئے اور آپ سے گفتگو کرنے لگے اور گفتگو کے دوران انہوں نے کہا کہ آپ فرماتے ہیں کہ پیغمبر ِ ِاسلام(صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایاہے کہ : ’’میری
امت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء کیطرح ہیں۔‘‘
کیا آپ اس کا ثبوت دے سکتے ہیں کیونکہ بنی اسرائیل
کے پیغمبر تو جانوروں کی بولیاں تک سمجھتے تھے ۔آپ پیغمبر ِ اسلام(صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کے عالم ہیں ،آپ میں کوئی ایسی صلاحیت ہے ؟
اتفاق سے اُس وقت دو کونجیں (ایک سائبیرین پرندہ جو سردی کے موسم میں ایشیاء کے
علاقوں میں آتا ہے ) اڑی چلی جارہی تھیں،
فرنگیوں نے کہا آپ یہ بتا دیں کہ وہ جو
کونجیں اڑی چلی آرہی ہیں وہ ایک دوسری سے کیا باتیں کر رہی ہیں ؟
آپ نے فرمایا :میں تو سرور ِ انبیاء(صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم)
کا ادنی ٰغلام ہوں اورعاجزی و اِنکساری
ظاہر کی مگرانہوں نے اصرار کیا ۔ پھر آپ نے فرمایا اچھا اگر آپ اصرار کرتے ہیں
تو سن لیجئے کہ وہ دونوں کونجیں یہ گفتگو کر رہی ہیں
اگلی پچھلی سے کہہ رہی ہے جلدی کرو ،اندھیرا ہو رہا
ہے، پچھلی نے اگلی کو جواب دیا ہے کہ جب ہم پچھلی وادی میں جلدی سے اتری تھیں، تو
میرے بائیں پاؤں میں کانٹا چبھ گیا تھا اس لیے مجھ سے تیز نہیں اڑاجارہا ،تم
آہستہ آہستہ چلو میں پورے زور سے چلتی ہوں تاکہ تمھارے ساتھ ساتھ رہ سکوں۔
اُن فرنگیوں کے پاس اُس وقت بندوق تھی اور دونوں
بڑے نشانے باز تھے ایک فرنگی نے فوراً نشانہ باندھا اور پچھلی کو نج گر کر تڑپنے
لگی اور انہوں نے جا کر دیکھا تو واقعی کونج کے بائیں پاؤں میں کانٹا چبھا ہوا
تھا ۔
آپ کی یہ کرامت دیکھ کر وہ انگریز مسلمان ہو گئے
اور کہنے لگے حضور! واقعی دین ِ اسلام سچا ہے ۔
(گلستانِ
اولیاء ازمحمد امیر سلطان چشتی مطبوعہ چشتی کتب خانہ فیصل آبادص50 )
نگاہ ِولی میں وہ تاثیر دیکھی
بدلتی ہزاروں کی تقدیر دیکھی