حضرت جیش بن خالد سے مروی ہے کہ جب حضور نبی اکرم ﷺ،
ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ، ان کے غلام
عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ اور ان کو راستہ بتانے والے لیثی عبد اللہ بن اریقط مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت
کی غرض سے نکلے ۔
تو وہ اُم معبد خزاعیہ کے دو خیموں کے پاس سے گزرے۔ وہ بڑی بہادر خاتون تھیں۔
وہ اپنے خیمے کے آگے میدان میں چادر اوڑھ کر بیٹھتی تھیں اور لوگوں کو کھلاتی پلاتی
تھیں۔
ان حضرات نے اُن سے کھجور یا گوشت دریافت
کیا کہ اس سے خریدیں مگر ان میں سے کوئی چیز
بھی ام معبد کے پاس موجود نہ تھی۔ ان لوگوں
کا زادِ راہ ختم ہوچکا تھا اور قحط کی حالت میں تھے۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے خیمہ کے ایک کونے میں ایک بھیڑ دیکھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اے
اُم معبد! یہ بھیڑ کیسی ہے؟ انہوں نے عرض کیا: یہ وہ بکری ہے جس کو کمزوری نے باقی بکریوں سے پیچھے کر دیا ہے (جس کی وجہ سے
اور بکریاں چرنے گئیں اور یہ رہ گئی ہے)۔
آپ ﷺ نے فرمایا: اس کا کچھ دودھ بھی ہے؟ انہوں نے عرض کیا:
(اس بکری کے لئے دودھ دینا) اس سے (یعنی جنگل
جانے سے) بھی زیادہ دشوار ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تم مجھے اجازت دیتی ہو کہ میں اس
کا دودھ دوہوں ؟
انہوں
نے عرض کیا: میرے ماں باپ آپ پر قربان، اگر
آپ اس میں دودھ دیکھیں (تو دوہ لیجئے) آپ ﷺ نے بسم اللہ پڑھ کر تھن پر ہاتھ پھیرا اور
فرمایا کہ اے اللہ! اُم معبد کو ان کی بکریوں میں برکت دے۔
اس بکری نے ٹانگیں پھیلا دیں، کثرت
سے دودھ دیا اور فرمانبردار ہو گئی۔ آپ ﷺ نے ان کا وہ برتن مانگا جو سب کو سیراب کر دے۔ اس میں آپ ﷺ نے دودھ کو خوب دوہا حتیٰ کہ برتن منہ تک بھر گیا ۔
آپ ﷺ نے اسے ام معبد کو پلایا، اُم معبد نے پیا حتیٰ
کہ وہ سیراب ہوگئیں اورپھر آپ ﷺ نے
اپنے اصحاب کو پلایا، وہ بھی سیراب ہوگئے۔ سب سے آخر میں حضور نبی اکرم ﷺ نے بھی نوش
فرمایا اور فرمایا کہ قوم کے ساقی کو سب سے آخر میں پینا چاہیے۔ سب نے ایک بار پینے
کے بعد دوبارہ پیا اور خوب سیر ہوگئے۔ پھر آپ ﷺ نے اسی برتن میں اسی طریقہ پر دوبارہ
دودھ دوہا اور اس کو ام معبد کے پاس چھوڑ دیا۔
( المستدرک حاکم ، 3 /10، رقم: 4274 )