بیٹے کو بچاتے بچاتے باپ زندگی کی بازی ہار گیا - کراچی کا ایک واقعہ


’’ارسلان  ۔ ۔ ۔  یہ پردہ ہٹا دو تا کہ ہوا  آ سکے، مجھے گھبراہٹ ہو رہی ہے ‘
تمہاری  ڈرپ تھوڑی تیز کروا دیتا ہوں  ۔  ۔ ۔  ارسلان نےبات کارخ گھمایا
 اور ساتھ ہی منہ دوسری طرف کر لیا  تا کہ وہ اجمل  سے اپنے آنسو چھپا سکے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اجمل  کو ایمرجنسی  وارڈسے باہر لے آئے تھے اس کی حالت اب قدرے بہتر تھی وہ کچھ کچھ بات  بھی کر رہا تھا
اجمل حسب عادت رات گئے دکان سے واپس  آرہا تھا کہ ایک موڑ آیا
اسے کیا معلوم تھا کہ یہ آنے والا موڑ اس کی زندگی کا ایک خطرناک  موڑ ثابت ہو گا۔
اس کی زندگی کی  روشنیاں ڈگمگا جائیں گی ، کچھ سائے اس کا ساتھ چھوڑ جائیں گے ۔
وہ موڑ مڑ رہا تھا کہ اچانک سامنے سے آنے والی گاڑی سے  اس  کا ایکسیڈینٹ  ہو گیا  ، اس کے والد اور اس کاکزن ارسلان اسے اسپتال لے کر پہنچے جہاں  ایمرجنسی وارڈ میں اس کی ٹریٹمنٹ شروع   کر دی گئی ۔ جب  تک دیگر  کزن  وغیرہ بھی پہنچ چکے تھے ۔
کچھ دیر میں ڈاکٹرز نےکہا کہ اس کے لیے خون کی ضرورت ہے آپ لوگ جلدی کہیں سے انتظام کریں  ۔
اجمل کے والد  سب کو وہیں رکنے کا کہہ کر خود خون لینے کے لیے بلڈ بینک  کی طرف نکل گئے،جلدی کی وجہ سے وقت بچانےکے لیے وہ رانگ وے پر  بائیک چلا رہے تھے کہ سامنے سے اچانک ایک  کار آتی دکھائی دی ،تیزی کی وجہ سے بائیک رک نا سکی اور سیدھی کار سے جا ٹکرائی ۔
وہ شدید زخمی ہو چکے تھے انہوں نے ہمت کر کےبمشکل ارسلان کو فون  کر کے اپنے ایکسیڈنٹ کی خبر دے دی ۔ وہ لوگ فوراً پہنچے اور ان کو ہسپتال لے آئے  ، ان کو بھی  قریب ہونے کی وجہ سے اسی ہسپتال میں لایا گیا جس میں اجمل  پہلے ہی موجود تھا ۔
اب ایک ہی ہسپتال کےایمرجنسی وارڈ میں باپ بیٹا دونوں موجود تھے ۔ گھر والوں پر جیسے قیامت ٹوٹ پڑی تھی ،گھر کے دونوں ستون ہسپتال میں پڑے ہوئے تھے ۔
اجمل کو ایمرجنسی وارڈ سے نکال کر لے آئے تھے  سب اس سے باتیں کر رہے تھے،اس کا دھیان بٹانے کی کوششیں کر رہے تھے ،کچھ دیر بعد سب ارسلان کو اجمل کے پاس کھڑا کر کے کہیں چلے گئےاور ارسلان نے برابر والا پردہ آگے کر دیا
یہ پردہ کیوں آگے کیاہے ۔۔۔؟ اجمل نے پوچھا
ساتھ کے بیڈ پر مریض آ رہا ہے ۔۔۔ ارسلان نے جواب دیا  
’’ارسلان  ۔ ۔ ۔  یہ پردہ ہٹا دو تا کہ ہوا  آئے مجھے گھبراہٹ ہو رہی ہے‘‘۔۔۔ کچھ دیر بعداجمل نےپھربولا 
تمہاری ڈرپ تھوڑی تیز کروا دیتا ہوں ۔۔۔ ارسلان نے بات کا رخ گھمایا
اورساتھ ہی منہ دوسری طرف کرلیا تا کہ وہ اجمل سےاپنےآنسوچھپاسکے
کیوں کے  ساتھ والے بیڈ پر اجمل کے والد کو لایا جا رہا تھا  جس کا اجمل  کو بالکل بھی معلوم نہ تھا اور نہ بتایا جا سکتا تھا ۔
ان کی طبعیت اجمل سے زیادہ خراب تھی  وہ اُکھڑی اُکھڑی آواز میں  کچھ کچھ باتیں کر رہے تھے ۔  باتیں کرتے کرتے اچانک ان کی گردن ایک جانب ڈھلک گئی  اور ان کی روح پرواز کر گئی ۔
 آج چشمِ فلق ایک سلگھتامنظردیکھ رہی تھی کہ جو باپ بیٹے کی جان بچانےکےلیے نکلا تھا خود اس سے پہلے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا  تھا ۔

کتنے ہی لوگ ایسے ہوتے ہیں، جو بیماروں کی تیمارداری کررہے ہوتے ہیں لیکن اس بیمار سے پہلے خود موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں ۔کتنے ہی افراد مطمئن زندگی گزار رہے ہوتے ہیں لیکن اچانک موت کا قاصد آیا اور لمحہ بھر بھی ٹھہر نہ سکے ۔

بے وفا دنیا پہ مت کر اعتبار                     تو اچانک موت کا ہو گا شکار
موت آکر ہی رہے گی یاد رکھ             جان جاکر ہی رہے گی یاد رکھ


اللہ تعالیٰ ہمیں موت سے  پہلے اپنی آخرت کی تیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے  ۔۔۔ آمین