کہا جاتا ہے کہ ہرن کی رفتار تقریباً 75 کلومیٹر فی گھنٹہ جبکہ شیر کی زیادہ سے زیادہ رفتار 65 کلومیٹر فی گھنٹہ ہوتی ہے ۔
رفتار میں اتنے بڑے فرق کے باوجود بھی بیشتر موقعوں پر ہرن شیر کا شکار ہو جاتا ہے، کیا آپ جاننا چاہتے ہیں کہ کیوں؟
کیونکہ جب بھی شیر کو دیکھ کر جان بچانے کیلئے ہرن بھاگتا ہے تو اُس کے دل میں پکا یقین ہوتا ہے کہ شیر نے اُسے اب ہرگز نہیں چھوڑنا، وہ شیر کے مقابلے میں کمزور اور ناتواں ہے اور اُس سے بچ کر نہیں نکل سکتا۔
نجات نا پا سکنے کا یہ خوف اُسے ہر لمحے پیچھے مڑ کر یہ دیکھنے کیلئے مجبور کرتا ہے کہ اب اُس کے اور شیر کے درمیان کتنا فاصلہ باقی رہتا ہے اور خوف کی حالت میں یہی سوچ ہرن کی رفتار پر اثر انداز ہوتی ہے، بس اسی دوران شیر قریب آ کر اُسے دبوچ کر اپنا نوالہ بنا لیتا ہے۔
اگر ہرن پیچھے مُڑ مُڑ کر دیکھنے کی اپنی اس عادت پر قابو پالے تو کبھی بھی شیر کا شکار نہیں بن پائے گا اور اگر ہرن کو اپنی اس صلاحیت پر یقین آ جائے کہ اس کی قوت اُس کی برق رفتاری میں چھپی ہوئی ہے بالکل ایسے ہی جیسے شیر کی قوت اُس کے حجم اور طاقت میں چھپی ہوئی ہے تو وہ ہمیشہ شیر سے نجات پا لیا کرے گا۔
بس کُچھ ایسی ہی ہم انسانوں کی فطرت بن جاتی ہے کہ ہم ہر لمحے پیچھے مُڑ مُڑ کر اپنے ماضی کو تکتے اور کریدتے رہتے ہیں جو کُچھ اور نہیں بلکہ ہمیں صرف ڈستا رہتا ہے ، ہماری ہمتوں کو پست، طبیعتوں کو کمزور اور رویوں کو افسردہ کرتا رہتا ہےاور کتنے ہی ایسے پیچھا کرتے ہمارے وہم اور خوف ہیں جو ہمیں ناکامیوں کا نوالہ بناتے رہتے ہیں۔
اور کتنی ہی ہماری ایسی اندرونی مایوسیاں ہیں جو ہم سے زندہ رہنے کا حوصلہ تک چھینتی رہتی ہیں ہم کہیں ہلاک نا ہو جائیں کی سوچ کی وجہ سے اپنے مقاصد حاصل کرنے کے قابل نہیں بنتے اور نا ہی اپنی صلاحیتوں پر کبھی اعتماد کر پاتے ہیں ۔
بنتے ہیں میری کارگہِ فکر میں انجم
لے اپنے مقدر کےستارے کو توپہچان