علم ایک ایسا سمندر ہے جو زمان و مکاں کا اسیر نہیں ہوا کرتا ۔ یہ جس وادی سے گزرتا ہے اس میں چاشنی اور حلاوت کا ایسا مزاج چھوڑ جاتا ہے کہ پھر وہ وادی شعور اور آگہی کے حسین جنتوں کا مرکز بن جایاکرتی ہے ۔ رنگ و نگہت کا یہ حسین امتزاج غیر محسوس طریقے سے ایک احساس بیدار کرتا چلا جاتا ہے ، جیسے جیسے انسان علم حاصل کرتا جاتا ہے ویسے ویسے وہ ہر معاملے میں حساس ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہ احساس بہت ہی انمول طاقت ہے۔ یہ دراصل انسانیت کا پوشیدہ جوہر ہے جسے علم بیدار کرتا ہے۔ گویا علم احساس کی کنجی ہے اور اگر یہ احساس نہ ہو تو انسان انسان نہیں ہوتا :ـ
موت کی پہلی علامت صاحب
یہی احساس کا مر جانا ہے
انسان جب کسی معاملے میں غور و فکر کرتا ہے تو اس کا لازمی نتیجہ حساسیت کی شکل میں انسانی رویے میں شامل ہوجاتا ہے ۔ انسان جوں جوں غور و فکر کا عادی ہوتا چلا جاتا ہے تُوں تُوں اس کے لئے ہر معاملہ حساس ہوتا چلا جاتا ہے اسے اپنی پیدائش سےلیکر موت تک کے ہر مرحلے کا احساس ہوتا ہے اسے یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ وہ اس دنیا میں کیوں آیا ہے ، خالق ِدو جہاں نے اسے کسی مقصد کے تحت پیدا فرمایا اور اس مالک نے زندگی کے ہر مرحلے کے لیے کچھ احکامات نازل فرمائے ہیں جن پر عمل کرنا اس کے لیے لازمی قرار دیا گیا ہے اور جن پر عمل کیے بغیر ان معاملات کو کامیابی کے ساتھ مکمل کرنا ممکن نہیں ۔
اسے یہ بھی احساس ہوتا ہے کہ انسان کے علمی حیثیت میں تفاوت کے پیشِ نظر اسے ان احکامات کی معلومات حاصل کرنے کے لیے ان لوگوں تک رسائی حاصل کرنی ہو گی جو احکامات الٰہیہ کے علم میں ماہر ہیں تا کہ اسے تہذیب ِ نفس میں مدد مل سکے لھٰذا وہ ان ماہرین تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش شروع کرتا ہے ۔
اسی رسائی کو آسان بنانے کے لیے الحمد للہ عزوجل عاشقان رسول کی مدنی تحریک دعوت اسلامی نے ایک دم اٹھایا اور اپنے سوفیصد اسلامی چینل ’’ مدنی چینل ‘‘ پرایک سلسلہ بنام ’’دارالافتاءاہلسنت ‘‘ شروع کیا جس میں انہی احکامات کے ماہرین مفتیانِ کرام سے عوامی سوالات کیے جاتے تھے ۔ یہ سلسلہ الحمد للہ عزوجل تشنگانِ علم کی پیاس کو بجھاتاہواباغِ علم کے پھول لٹاتا ہوا تسلسل کے ساتھ چلتا رہا اوراب 10 اکتوبر 2017 بروزمنگل کو اس با برکت سلسلے کی قسط نمبر 1000 ہے
جی ہاں ۔۔۔ دارالافتاء کی یہ ہزارویں قسط انشاءاللہ عز و جل تزک و احتشام کے ساتھ عالمی مدنی مرکز میں رات 8:45 پر سجائی جائے گی اس علمی محفل کی برکتیں لوٹنے کے لیے صلائے عام ہے یارانِ تشنگاں کے لیے ۔