طالب علم کی زندگی کا ناقابل فراموش واقعہ


یہ چند برس پہلے کی بات ہے، وہ بھر پور زندگی گزار رہا تھا، کسی قسم کی پریشانی لاحق نہ تھی۔ ایک تعلیمی ادارے میں پڑھانے کے ساتھ ساتھ وہ سوشل سرکِلز میں ایک باہمت اور توانا آدمی کے طور پر بھی جانا جاتا تھا۔

ایک دن سو کر اٹھا تو اسے محسوس ہوا کہ اسکی آواز ٹھیک نہیں نکل رہی اور گلے میں کوئی مسئلہ ہے ۔ معمولی علاج کے بعد جب فرق نہ پڑا، تو اسے پریشانی لاحق ہوئی ۔ویسے ہی بیماری سے بندہ پریشان ہوتا ہےاور استاد کے لیے تو اُس کا گلااہم ترین چیز ہوتا ہے۔

چنانچہ وہ ہسپتال چلا گیا ، تفصیلی معائنے کے بعد کچھ ٹیسٹ تجویز کیے گئے ۔ اگلے دن جب ان ٹیسٹوں کی رپورٹ آئی، تو اسکی دنیا اندھیر ہو گئی تھی ۔  کیونکہ  اسے گلے کا کینسر ہو گیا تھا ۔

اسے ہسپتال میں داخل کر لیا گیا ۔ چند دن ایسے ہی ہسپتال میں پڑا رہا ، اعصاب آہستہ آہستہ جواب دیتے جا رہے تھے۔اگلی رات وہ بستر میں پڑا سوچ رہا تھا، کہ آخرکس گناہ کی سزا مل رہی ہے مجھے ۔۔۔ !

وہ سنجیدگی سےاس طرف سوچنے لگا ۔سوچتے سوچتے اچانک اس کے ذہن میں ایک بجلی سی کوندی اور وہ  خود کو لگی ڈرپس وغیرہ اتار کر باہر کی طرف لپکا۔ تھوڑی ہی دیر میں وہ اپنی گاڑی میں بیٹھا تھا اور  گاڑی شہر کےایک علاقے کی طرف رواں تھی۔

دراصل بستر پہ لیٹے لیٹے اسے یاد آیا کہ طالب ِعلمی کے ایام کے دوران وہ ایک دن یونیورسٹی آیا، تو  پتہ چلا کہ ایک استاد نےاسکے ایک دوست کو برا بھلا بھی کہا ہے اور شاید ایک آدھ گالی وغیرہ بھی دی ہے۔ یہ سُن کر اسکا خون کھولنے لگا دیوانگی میں آؤ دیکھا نہ تاؤ اور ان کو ڈھونڈنے لگا کہ انہوں نے  میرے دوست کو برا بھلا کیسے کہہ ڈالا  ۔

آخر وہ مل گئے، تو اس نے کچھ سوچے سمجھے بغیر انہیں ایک تھپڑ رسید کر دیا۔ استاد صاحب تو جیسے زمین میں گڑ گئے ، کہ ایک طالب علم نے ان پہ ہاتھ ہی اٹھا دیا تھا، وہ بھی سب کے سامنے ۔ استاد صاحب کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے اور انہوں نے صرف ایک جملہ ہی کہا :

’’صبرکرنا بدلہ لینے سے بڑا انتقام ہے ۔۔۔۔ اگر بدلہ بڑاہوتا، تو میں تم سے بدلہ لیتا‘‘

 یہ واقعہ سب بھول بھال گئے ۔ مگر اس نے جب اپنے ماضی میں جھانکا تو استاد صاحب کےساتھ کی گئی زیادتی یاد آ گئی۔ اسی وجہ سے اس کی گاڑی کا رُخ آج انہی کے گھر  کی طرف تھا، کہ معافی مانگ کر  شاید کینسر جیسے موذی  مرض سے چھٹکارا  ملے ۔

خیر،وہ پروفیسر صاحب کے گھر پہنچا ، گھنٹی بجائی تو ایک صاحب باہر نکلے ۔  استاد صاحب سے متعلق پوچھاتوان کا جواب سن کر  وہ گرتے گرتے بچا کیونکہ اسے کئی برس قبل استاد صاحب کے انتقال کابتایاگیاتھا ۔ اس نے اپنے آپ کوسنبھالتے ہوئے  ان صاحب سے ان کی اولاد کے بارے میں  پوچھا  ۔ بتایا گیا  کہ ان کی ایک بیٹی اسی گھر میں مقیم ہیں اور وہ اس خاتون کے خاوند ہیں۔

 اب  کچھ ڈھارس بندھی اور اُن صاحب سے درخواست کی کہ مجھے خاتون سے کچھ بات کرنی ہے  ۔  تھوڑی دیر میں  خاتون تشریف لے آئیں ، ان کے خاوند بھی موجود  تھے۔  انہیں ساری کہانی سنائی اور پھر اُن سے کہاکہ’’  استاد صاحب تو اس دنیا سے چلے گئے، آپ ان کی وارث ہیں۔ میں آپ سے معافی کا مانگتا ہوں‘‘  ۔ وہ خاتون ایک عظیم آدمی کی بیٹی تھی، اُس نے کہا
’’ جو ہونا تھا ہو گیا، ابو بھی چلے گئے ، آپ بھی اب بیمار ہیں ، میں آپ کو اُن کی طرف سے معاف کرتی ہوں ‘‘

یہ سن کر سینے کا بوجھ اتر گیا ، کچھ دیر وہاں رکا اور پھر اپنی گاڑی میں واپس ہسپتال چلا آیا۔ ڈاکٹرز حیران تھے کہ وہ کہاں چلا گیا تھا اور خود ہی واپس بھی آ گیا ۔

اگلا دن چڑھا، ڈاکٹروں نے  کچھ اور ٹیسٹ لیے ۔ اگلے دن دوپہر کو ٹیسٹوں کی رپورٹ آئی، ڈاکٹر تقریباً دوڑتا ہوا آیا اور کہنے لگا کہ آپ کی رپورٹس تو بالکل کلئیر آئی ہیں ۔ یہ سن کر اسے لگا کہ جیسے وہ دنیا میں واپس آ گیا ہو ۔ بہر حال اگلے چند دنوں میں مزید ٹیسٹ ہوئے ، جو بالکل کلئیر تھے اور الحمد للہ آواز بھی بالکل ٹھیک ہو گئی تھی ۔

           اس واقعے سےجہاں  یہ بات واضح ہوئی کہ  ماں باپ اور اساتذہ کے سامنے ہاتھ تو بہت دور کی بات ہے ، آنکھ اور خیال بھی بلند نہیں کرنا چاہئے وہیں یہ بھی بتہ چلا ان کی اطاعت و عزت اور رضا  کے حصول میں کامیابیاں پاؤں چومیں گی۔ان کے جوتے سیدھے کرنے والے بادشاہی کرتے ہیں ۔ہماری اسلامی روایات بھی ہمیں یہی درس دیتی ہیں ۔