نکاح ِعلی و فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنھما قسط نمبرنو


حضرتِ سیِّدُناعلی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم حضرتِ سیِّدَتُنا فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے محبت بھری گفتگو کرنے لگے یہاں تک کہ جب رات کا اندھیرا چھا گیا تو وہ رونے لگیں۔

حضرتِ سیِّدُناعلی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہ، الْکَرِیْم نے پوچھا : '' اے تمام عورتوں کی سردار! کیاآپ خوش نہیں کہ میں آپ کا شوہر ہوں اور آپ میری بیوی ہیں؟''
کہنے لگیں:'' میں کیونکر راضی نہ ہوں گی ،آپ تو میری رضا بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ہیں، میں تو اپنی اس حالت و معاملے کے متعلق سوچ رہی ہوں کہ جب میری عمر بِیت جائے گی اور مجھے قبر میں داخل کردیاجائے گا، آج میرا عزت و فخر کے بستر میں داخل ہونا کل قبر میں داخل ہونے کی مانند ہے۔

آج رات ہم اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں کھڑے ہو کر عبادت کریں گے کہ وہی عبادت کا زیادہ حق رکھتا ہے ۔''اس کے بعد وہ دونوں عبادت کی جگہ کھڑے ہو کر ربّ ِقدیر عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کرنے لگے۔پھر وہ دونوں اپنے بستر پر آرام فرما ہوئے۔

چوتھے دن حضرتِ سیِّدُنا جبرائیل امین علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃ والسلام آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی خدمتِ بابرکت میں حاضر ہوئے اور عرض کی:'' اللہ تعالیٰ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو سلام بھیجتا ہے اور ارشاد فرماتاہے کہ علی اور فاطمہ نے تین دن سے نینداور بستر کو ترک کر رکھا ہے اورعبادت اور روزوں میں مصروف ہیں،تم ان کے پاس جاؤ اور ان سے ارشاد فرماؤ کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ تمہاری وجہ سے ملائکہ پرفخر فرما رہا ہے اور یہ کہ تم دونوں بروزِ قیامت گنہگاروں کی شفاعت کرو گے۔''

آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم فورًا ان کے گھر تشریف لائے تو وہاں حضرتِ سیِّدَتُنا اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہاکو پایا تو استفسار فرمایا: '' کس چیز نے تجھے یہاں ٹھہرایا ہے؟ حالانکہ گھر میں ایک مرد بھی موجود ہے۔''

انہوں نے عرض کی:''یا رسول اللہ عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ! میرے ماں باپ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم پر قربان! جب کوئی لڑکی شادی کی پہلی رات اپنے خاوند کے پاس آتی ہے تو اسے ایک ایسی عورت کی ضرورت ہوتی ہے جو اس کی دیکھ بھال کرے اوراس کی ضروریات پوری کرے۔لہٰذاحضرت سیِّدَتُنا فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ضروریات پوری کرنے کے لئے میں یہاں ٹھہرگئی۔''

اس پرآپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی چشمانِ مبارک نَم ناک ہو گئیں اوردعا فرمائی : '' اے اسماء (رضی اللہ تعالیٰ عنہا)! اللہ عَزَّوَجَلَّ تیری دنیا و آخرت کی تمام حاجات پوری فرمائے ۔



جاری ہے ۔۔۔۔

نکاح ِعلی و فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنھما قسط نمبر آٹھ

  
حضرتِ سیِّدُناعلی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہ، الْکَرِیْم فرماتے ہیں:'' جب میں اُمِّ ایمن رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا تو تمام ازواجِ مطہّرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن اندر کمرے میں تشریف لے گئیں،

میں آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے سامنے سر جھکا کر بیٹھ گیاتوآپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے استفسار فرمایا:'' کیا تم اپنی زوجہ کے ساتھ رہنا چاہتے ہو؟'' میں نے عرض کی:'' جی ہاں! یا رسول اللہ عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ! میرے ماں باپ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم پر قربان!''

 آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:'' بڑی محبت وعزت سے، ان شآء اللہ عَزَّوَجَلَّ آج رات سے تم اپنی زوجہ کے ساتھ رہا کرو گے۔'' حضرتِ سیِّدُناعلی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہ، الْکَرِیْم فرماتے ہیں :'' پھر میں آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی بارگاہِ اقدس سے خوشی ومسرت کی حالت میں اُٹھا۔

حضرت سیِّدُنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ولیمہ

    اللہ کے رسول، رسولِ مقبول، بی بی آمنہ کے گلشن کے مہکتے پھول عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ورضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضرتِ سیِّدَتُنا فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکو آراستہ کرنے کا حکم دیااورحضرتِ سیِّدَتُنا اُمِّ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس رکھے ہوئے دراہم میں سے دس درہم حضرتِ علی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہ، الْکَرِیْم کو دیئے اور ارشاد فرمایا:'' ان سے کھجور،گھی اور پنیر خرید لو۔''

آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: '' میں یہ چیزیں خرید کرآپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی خدمت میں حاضر ہوگیا۔ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے چمڑے کا ایک دسترخوان منگوایا اور آستینیں چڑھاکر کھجوروں کوگھی میں مسلنے لگے اور پھر پنیر کے ساتھ اس طرح ملایا کہ وہ حلوہ بن گیا
پھر ارشاد فرمایا: '' اے علی (رضی اللہ تعالیٰ عنہ)! جسے چاہو بلا لاؤ۔''میں مسجد گیا اور آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے کہا: '' آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی دعوت قبول کریں۔''سب لوگ اٹھ کر چل دیئے۔

جب میں نے آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی بارگاہ میں عرض کی کہ لوگ بہت زیادہ ہیں توآپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے چمڑے کے دسترخوان کو ایک رومال سے ڈھانک دیا اور ارشاد فرمایا:'' دس دس افراد کو داخل کرتے جاؤ۔''

میں نے ایسا ہی کیا صحا بۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کھا کر نکلتے گئے لیکن کھانے میں بالکل کمی نہ ہوئی یہاں تک کہ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی برکت سے سات سو افراد نے وہ حلوہ کھایا۔

    
اس کے بعدآپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے حضرتِ فاطمہ اورحضرتِ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو اپنے پاس بلایا اورحضرتِ علی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہ، الْکَرِیْم کو اپنے دائیں اورحضرتِ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکو اپنے بائیں طرف بٹھا کر سینے سے لگایا اور دونوں کی آنکھوں کے درمیان پیشانی پر بوسہ دیا

اور پھرحضرتِ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کوحضرتِ علی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہ، الْکَرِیْم کے حوالے کر دیا اور ارشاد فرمایا:'' اے علی! میں نے کتنی اچھی زوجہ سے تیرا نکاح کیا ہے۔'' پھر ان دونوں کے ساتھ ان کے گھر تک پیدل چلے۔

پھر گھر سے باہر نکل کر دروازے کے کواڑ پکڑے اور یہ دُعا فرمائی: ''اللہ عَزَّوَجَلَّ تم دونوں کو اتفاق واتحاد عطا فرمائے، میں تمہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سپرد کرتا ہوں اور تم دونوں کو اس کی حفاظت میں دیتا ہوں۔۔۔۔



جاری ہے ۔۔۔۔۔

غوثِ پاک کے والد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیھما کا لقب جنگی دوست کیسے پڑا؟

غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے والدمحترم حضرت ابوصالح سیّدموسیٰ جنگی دوست رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تھے، آپ کا اسم گرامی ''سیّدموسیٰ''کنیت ''ابوصالح''اورلقب ''جنگی دوست'' تھا،آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جیلان شریف کے اکابر مشائخ کرام رحمہم اللہ میں سے تھے۔

آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کالقب جنگی دوست اس لئے ہواکہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ خالصۃًاللہ عزوجل کی رضاکے لئے نفس کشی اورریاضتِ شرعی میں یکتائے زمانہ تھے، نیکی کے کاموں کا حکم کرنے اوربرائی سے روکنے کے لئے مشہورتھے،اس معاملہ میں اپنی جان تک کی بھی پروا نہ کرتے تھے،چنانچہ
   
ایک دن آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جامع مسجدکوجارہے تھے کہ خلیفہ وقت کے چندملازم شراب کے مٹکے نہایت ہی احتیاط سے سروں پراٹھائے جارہے تھے،آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے جب ان کی طرف دیکھاتوجلال میں آگئے اوران مٹکوں کوتوڑدیا۔

آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے  رعب اوربزرگی کے سامنے کسی ملازم کودم مارنے کی جرأت نہ ہوئی توانہوں نے خلیفہ وقت کے سامنے واقعہ کااظہارکیااورآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے  خلاف خلیفہ کوابھارا،توخلیفہ نے کہا:''سیّدموسیٰ(رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ)کوفوراًمیرے دربارمیں پیش کرو۔''چنانچہ

حضرت سیّدموسیٰ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ دربارمیں تشریف لے آئےخلیفہ اس وقت غیظ وغضب سے کرسی پربیٹھاتھا،خلیفہ نے للکارکرکہا:''آپ کون تھے جنہوں نے میرے ملازمین کی محنت کورائیگاں کردیا؟''حضرت سیدموسیٰ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:''میں محتسب ہوں اورمیں نے اپنافرض منصبی اداکیاہے۔''خلیفہ نے کہا:''آپ کس کے حکم سے محتسب مقررکئے گئے ہیں؟''حضرت سیدموسیٰ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے رعب دارلہجہ میں جواب دیا:''جس کے حکم سے تم حکومت کررہے ہو۔''

  
  آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے  اس ارشادپرخلیفہ پرایسی رقّت طاری ہوئی کہ گھٹنوں پرسررکھ کر بیٹھ گیا اورتھوڑی دیرکے بعدسرکواٹھاکرعرض کیا: ''حضوروالا! امربالمعروف اورنہی عن المنکرکے علاوہ مٹکوں کو توڑنے میں کیا حکمت ہے؟''

حضرت سیدموسیٰ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ارشادفرمایا:''تمہارے حال پرشفقت کرتے ہوئے نیزتجھ کودنیااورآخرت کی رسوائی اورذلت سے بچانے کی خاطر۔''

خلیفہ پرآپ کی اس حکمت بھری گفتگوکابہت اثرہوااورمتاثرہوکرآپ کی خدمت اقدس میں عرض گزارہوا:''عالیجاہ!آپ میری طرف سے بھی محتسب کے عہدہ پرمامورہیں۔''
   
حضرت سیدموسیٰ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے متوکلانہ اندازمیں فرمایا:''جب میں حق تعالیٰ کی طرف سے مامورہوں توپھرمجھے خَلْق کی طرف سے مامورہونے کی کیا حاجت ہے ۔''اُسی دن سے آپ''جنگی دوست''کے لقب سے مشہورہوگئے۔

اللہ تعالیٰ ان پر رحمت ہو اور ان کےصدقے ہماری مغفرت ہو ،،،  آمین ۔

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مختصر تعارف


سرکارِبغدارحضورِغوث پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کااسم مبارک عبدالقادر ، کنیت  ابومحمد اورالقابات محی الدین،محبوبِ سبحانی ،غوثُ الثقلین،غوثُ الاعظم وغیرہ ہیں،آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ یکم رمضان المبارک 470ھ میں بغدادشریف کے قریب قصبہ جیلان میں پیدا ہوئے ۔

  
  آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا خاندان صالحین کاگھراناتھا ، اسی وجہ سے لوگ آپ کے خاندان کواشراف کا خاندان کہتے تھے۔  آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے والدمحترم  کا اسم گرامی سیّدموسیٰ کنیت  ابوصالح اورلقب  جنگی دوست  تھا،آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جیلان شریف کے مشائخ کرام رحمہم اللہ میں سے تھے۔

حضرت شیخ ابو محمد عبداللہ بن احمد بن قدامہ مقدسی فرماتے ہیں کہ ہمارے امام شیخ الاسلام سید عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ضعیف البدن،میانہ قد،فراخ سینہ،چوڑی داڑھی  ، درازگردن،رنگ گندمی،ملے ہوئے ابرو، سیاہ آنکھیں،بلند آواز،اور بڑے علم و فضل والے تھے۔

    
شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے  والد ماجد  نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی ولادت کی رات مشاہدہ فرمایا کہ سرور کائنات ﷺ بمع  صحابہ کرام اور اولیاء عظام رضی اللہ تعالیٰ عنہم  اِن کے گھر جلوہ افروز ہیں اور ان کو اس بشارت سے نوازا: ’’اے ابو صالح !اللہ تعالیٰ  نے تم کو ایسا فرزند عطا فرمایا ہے جو ولی ہے اوروہ میرا اور اللہ  تعالیٰ  کا محبوب ہے اور اس کی اولیاء اور اَقطاب میں ویسی شان ہوگی جیسی انبیاء اور مرسلین علیہم السلام میں میری شان ہے۔''

  
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے  فرزندسیدنا عبدالوہاب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ'' حضورسیدناشیخ عبدالقادرجیلانی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے521ھ سے 561ھ تک چالیس سال مخلوقِ خدا کو وعظ و نصیحت فرمائی۔

   
شیخ یحیی صحراوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے  والدفرماتے ہیں کہ ''میں نے ایک دفعہ عمل کے ذریعے جنات کو بلایا تو انہوں نے کچھ زیادہ دیر کر دی پھر وہ  آئے اور کہنے لگے کہ'' جب شیخ سید عبدالقادر جیلانی بیان فرما رہے ہوں تو اس وقت ہمیں بلانے کی کوشش نہ کیا کرو۔'' میں نے کہا وہ کیوں؟'' انہوں نے کہا کہ ''ہم حضورغوث اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی مجلس میں حاضر ہوتے ہیں۔'' میں نے کہا:'' تم بھی ان کی مجلس میں جاتے ہو۔'' انہوں نے کہا :''ہاں! ہم مردوں میں کثیرتعدادمیں ہوتے ہیں ، ہمارے بہت سے گروہ ہیں جنہوں نے اسلام قبول کیا ہے اور ان سب نے حضورغوث پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے  ہاتھ پر توبہ کی ہے۔''

    
شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ آپ کے علمی کمالات کے متعلق ایک روایت نقل کرتے ہیں کہ'' ایک روز کسی قاری نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی مجلس شریف میں قرآن مجید کی ایک آیت تلاوت کی تو آپ نے اس آیت کی تفسیر میں پہلے ایک معنی پھر دو اس کے بعد تین یہاں تک کہ حاضرین کے علم کے مطابق آپ نے اس آیت کے گیارہ معانی بیان فرمادیئے اورپھر دیگر وجوہات بیان فرمائیں جن کی تعداد چالیس تھی اور ہر وجہ کی تائید میں علمی دلائل بیان فرمائے اور ہر معنی کے ساتھ سند بیان فرمائی، آپ کے علمی دلائل کی تفصیل سے سب حاضرین متعجب ہوگئے۔''

آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ  کاوصال11ربیع الآخر 561ھ  بغدادشریف میں ہوا ،آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مزارِ پرانوارعراق کے مشہورشہربغدادشریف میں فیض عام  جاری رکھے ہوئے ہے۔


اللہ تعالیٰ کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری مغفرت ہو،،، آمین ۔

نکاح ِعلی و فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنھما قسط نمبر سات

    

حضرتِ سیِّدُناعلی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم ارشاد فرماتے ہیں: '' جب مہینہ گزر گیاتو میرے بھائی حضرتِ عقیل رضی اللہ تعالیٰ عنہ میرے پاس تشریف لائے اور کہنے لگے:'' اے میرے بھائی! آج تک میں اتنا خوش نہیں ہوا جتنا یہ سن کر خوش ہوا کہ تمہاری شادی بنتِ رسول صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ورضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ہو گئی ہے،اب اگرآپ ان کو اپنے گھر بھی لے آئیں تو اس سے ہمارے دل خوش ہوں گے ۔''

میں نے جواب دیا:'' اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم! میں بھی یہی چاہتا ہوں،لیکن مجھے سرکار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سے شرم آتی ہے۔''انہوں نے کہا:'' میں اپ کو قسم دیتا ہوں کہ آپ میرے ساتھ چلیں۔''

لہٰذا ہم آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی بارگاہ میں ملاقات کے ارادے سے گھر سے نکلے تو راستے میں ہماری ملاقات آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی خادمہ حضرت اُمِّ اَیمن رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ہوگئی۔

 ہم نے ان سے تذکرہ کیا تو کہنے لگیں :'' ذرا انتظار کریں،ہم عورتیں اپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سے حضرتِ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے متعلق بات کرتی ہیں کہ( ان معاملات میں )مردوں کی نسبت عورتوں کی باتیں زیادہ مؤثر ہوتی ہیں۔''

وہ واپس مڑکرحضرتِ سیِّدَتُنا اُمِّ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس گئیں اور انہیں اور پھر دوسری ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کو ساری بات بتائی تو سب اُمّہاتُ المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ن اکٹھی ہو کر آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے پاس حضرتِ سیِّدَتُنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے حجرۂ مبارکہ میں حاضر ہوئیں

اورآپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے چاروں طرف بیٹھ کر عرض کی: ''یا رسول اللہ عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! ہمارے ماں باپ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم پر قربان! ہم ایک اہم معاملے میں اپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے پاس حاضر ہوئی ہیں، کاش! اگر آج حضرتِ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا زندہ ہوتیں تو اس سے ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوتیں۔
    
حضرتِ سیِّدَتُنا اُمِّ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں:'' جب ہم نے حضر تِ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا تذکرہ کیا توآپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم آب دیدہ ہو گئے اور

 ارشاد فرمایا :'' خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکی مثل کون ہو سکتا ہے؟اس نے میری اس وقت تصدیق کی جب سب نے مجھے جھٹلادیا اور اپنے مال سے میرے دین و دنیا کے معاملات میں میری امداد کی۔''

توحضرتِ سیِّدَتُنا ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عرض کی: '' یا رسول اللہ عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ! ہاں! واقعی حضرتِ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ایسی ہی تھیں مگر وہ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے پاس جا چکی ہیں، اللہ عَزَّوَجَلَّ یقینا ہمیں ان کے ساتھ جنت میں جمع فرمائے گا۔

 آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے چچا زاد اور دینی بھائی حضرتِ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہااپنی بیوی حضرتِ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکی رخصتی چاہتے ہیں۔''

توآپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے حکم فرمایا: '' اُمِّ ایمن رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو علی (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کو بلانے کے لئے بھیج دو۔''حضرتِ اُمِّ اَیمَن رضی اللہ تعالیٰ عنہا جب نکلیں اور حضرتِ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنامنتظر پایا تو ان سے عرض کی:'' حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے بلاوے پرلبیک کہیں۔
   
حضرتِ سیِّدُناعلی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہ، الْکَرِیْم فرماتے ہیں:'' جب میں اُمِّ ایمن رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا

تو تمام ازواجِ مطہّرات رضی اللہ تعالیٰ عنہ ن اندر کمرے میں تشریف لے گئیں،میں آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے سامنے سر جھکا کر بیٹھ گیاتوآپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے استفسار فرمایا کہ ۔۔۔


جاری ہے ۔۔۔۔

نکاح ِعلی و فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنھما قسط نمبر چھ


    حضرتِ سیِّدُناعلی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم ارشاد فرماتے ہیں: '' میں نے اپنی زرہ لی اور بازار میں حضرت سیِّدُناعثمانِ غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو چار سو درہم میں فروخت کردی۔

جب میں نے درہم اور انہوں نے زرہ کو لے لیا تو مجھ سے فرمانے لگے :'' اے علی!کیا اب میں آپ سے زیادہ زرہ کا اور آپ مجھ سے زیادہ دراہم کے حق دار نہیں؟''میں نے کہا:'' کیوں نہیں۔'' تو کہنے لگے: ''پھر یہ زرہ میری طرف سے آپ کو ہدیہ ہے ۔''

حضرتِ سیِّدُناعلی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم فرماتے ہیں: ''میں نے زرہ اور درہم لئے اور رسول اللہ عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہو کرحضرتِ سیِّدُناعثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حسنِ سلوک کی خبر دی توآپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے انہیں خیر و برکت کی دعا دی

اور پھرحضرتِ سیِّدُنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلا کر مٹھی بھر درہم انہیں دیئے اور فرمایا: ''ان دراہم کے عوض فاطمہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) کے لئے مناسب اشیاء خرید لاؤ۔''حضرتِ سیِّدُناسلمان فارسی اورحضرتِ سیِّدُنا بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو خریدی ہوئی اشیاء اٹھانے میں مدد کے لئے ساتھ بھیجا۔

حضرتِ سیِّدُنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں : مجھے حضور نبئ پاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے تریسٹھ (63) درہم عطا فرمائے تھے ، میں نے روئی سے بھرا ہوا موٹے کپڑے کا بستر، چمڑے کا دسترخوان ،چمڑے کاتکیہ جس میں کھجور کے پتے بھرے ہوئے تھے،پانی کے لئے ایک مشکیزہ اور کوزہ اور نرم اُون کا ایک پردہ خریدا۔

پھر میں،حضرتِ سلمان اورحضرتِ بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہمانے تھوڑا تھوڑا کر کے وہ سامان اٹھالیااورآپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی خدمت میں حاضر کردیا ۔جب آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے دیکھا تو رونے لگے اور آسمان کی جانب نگاہ اٹھا کر عرض کی: یااللہ عَزَّوَجَلَّ! ایسے لوگوں کو اپنی برکت سے نواز جن کا شعار ہی تجھ سے ڈرنا ہے۔

    حضرتِ سیِّدُناعلی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم ارشاد فرماتے ہیں''آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے بقیہ درہم حضرت سیِّدَتُنا اُمِّ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے حوالے کر دیئے اور ارشاد فرمایا:'' ان دراہم کو اپنے پاس رکھو۔''

پھر ایک مہینہ تک شرم و حیاء کے باعث میں آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی خدمت میں حاضر نہ ہوا۔ جب کبھی راستے میں آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سے ملاقات ہوتی توآپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ارشاد فرماتے:'' اے علی (رضی اللہ تعالیٰ عنہ)! میں نے تمہارا نکاح اس کے ساتھ کیاہے جو تمام جہانوں کی عورتوں کی سردارہے ۔

حضرتِ سیِّدُناعلی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم ارشاد فرماتے ہیں: '' جب مہینہ گزر گیاتو میرے بھائی حضرتِ عقیل رضی اللہ تعالیٰ عنہ میرے پاس تشریف لائے اور کہنے لگے :


جاری ہے ۔۔۔۔

نکاح علی و فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنھما قسط نمبر پانچ


حضرت سیِّدُناعلی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہ الْکَرِیْم ارشاد فرماتے ہیں:'' میں بارگاہ ِرِسالت علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام سے نکلا تو اتنی جلدی میں تھا کہ خوشی و مسرت سے اپنا ہوش بھی نہ تھا۔
 راستے میں حضرتِ سیِّدُنا ابوبکر صدیق اورحضرتِ سیِّدُنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے ملاقات ہوئی، انہوں نے پوچھا :'' اے علی (رضی اللہ تعالیٰ عنہ)! خیریت ہے، کیا ہواہے؟کہ تم اتنی جلدی میں ہو۔''تو میں نے بتایا کہ 

'' رسول اللہ عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے میرا نکاح اپنی شہزادی سے کر دیا ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے میرا نکاح آسمانوں میں کیا ہے ،اب حضورصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم میرے پیچھے پیچھے مسجد میں تشریف لا کر اس کا اعلان فرمائیں گے۔''وہ دونوں بھی یہ سن کر خوش ہو گئے اور مسجد کی طرف چل دئیے۔

بخدا  ! جب رسول اللہ عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ہمارے پاس تشریف لائے تو ان کا چہرہ خوشی سے دمک رہاتھا۔آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:'' اے بلا ل (رضی اللہ تعالیٰ عنہ)! مہاجرین وانصار کو جمع کرو ۔''

حضرتِ سیِّدُنابلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ بحکمِ نبئ پاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم تشریف لے گئے۔ امام الانبیاء صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم اپنے منبرِ اقدس کے پاس تشریف فرما  ہوئے
    حضرت سیِّدُناعلی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہ، الْکَرِیْم نے کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء کی اور یہ خطبہ پڑھا

    ''اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَشُکْرًا لِاَنْعُمِہٖ وَ اَیَادِیْہٖ اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَلَا شَبِیْہَ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ نَبِیُّہُ الْنَبِیْہُ وَرَسُوْلُہُ الْوجِیْہُ وَصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَعَلٰی اٰلِہٖ وَ اَصْحَابِہٖ وَ اَزْوَاجِہٖ وَ بَنِیْہِ صَلَاۃً دَآئِمَۃً تُرْضِیْہِ وَبَعْدُ !

یعنی سب تعریفیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے ہیں اور اس کے انعامات واحسانات پر اس کا شکر ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہ یکتا ہے، اس کا کوئی شریک ومثل نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ حضرت سیِّدُنا محمد صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم اس کے بندے اور رسول ہیں، اس کے معزز نبی اور عظیم ُ الشان رسول ہیں،ان پر اور ان کی آل واصحاب، ازواجِ مطہّرات اوراولادِ اطہار رضوان اللہ علیہم اجمعین پر اللہ عَزَّوَجَلَّ کی ایسی دائمی رحمت ہوجو حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو خوش کر دے (آمین)۔''   

اس کے بعد فرمایا

نکاح اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حکم پر عمل ہے اور اس نے اس کی اجازت دی ہے، رسول اللہ عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے اپنی شہزادی حضرتِ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نکاح مجھ سے کر دیا ہے اور میری اس زرہ کو بطورِ حق مہر مقرر فرمایا ہے،

میں اور آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم اس پر راضی ہیں،تم لوگ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سے پوچھ لو اور گواہ بن جاؤ۔''

توسب مسلمانوں نے کہا: ''اللہ عَزَّوَجَلَّ تمہارے جوڑے میں برکت عطا فرمائے اور تمہیں اتفاق عطا فرمائے۔'' پھر حضورنبئ پاک، صاحب ِ لولاک، سیّاحِ افلاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم اپنی ازواجِ مطہّرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کے پاس تشریف لائے ۔


جاری ہے  ۔۔۔۔

نکاح علی و فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنھما قسط نمبر پانچ


حضرت سیِّدُناعلی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہ الْکَرِیْم ارشاد فرماتے ہیں:'' میں بارگاہ ِرِسالت علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام سے نکلا تو اتنی جلدی میں تھا کہ خوشی و مسرت سے اپنا ہوش بھی نہ تھا۔
 راستے میں حضرتِ سیِّدُنا ابوبکر صدیق اورحضرتِ سیِّدُنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے ملاقات ہوئی، انہوں نے پوچھا :'' اے علی (رضی اللہ تعالیٰ عنہ)! خیریت ہے، کیا ہواہے؟کہ تم اتنی جلدی میں ہو۔''تو میں نے بتایا کہ 

'' رسول اللہ عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے میرا نکاح اپنی شہزادی سے کر دیا ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے میرا نکاح آسمانوں میں کیا ہے ،اب حضورصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم میرے پیچھے پیچھے مسجد میں تشریف لا کر اس کا اعلان فرمائیں گے۔''وہ دونوں بھی یہ سن کر خوش ہو گئے اور مسجد کی طرف چل دئیے۔

بخدا  ! جب رسول اللہ عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ہمارے پاس تشریف لائے تو ان کا چہرہ خوشی سے دمک رہاتھا۔آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:'' اے بلا ل (رضی اللہ تعالیٰ عنہ)! مہاجرین وانصار کو جمع کرو ۔''

حضرتِ سیِّدُنابلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ بحکمِ نبئ پاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم تشریف لے گئے۔ امام الانبیاء صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم اپنے منبرِ اقدس کے پاس تشریف فرما  ہوئے
    حضرت سیِّدُناعلی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہ، الْکَرِیْم نے کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء کی اور یہ خطبہ پڑھا

    ''اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَشُکْرًا لِاَنْعُمِہٖ وَ اَیَادِیْہٖ اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَلَا شَبِیْہَ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ نَبِیُّہُ الْنَبِیْہُ وَرَسُوْلُہُ الْوجِیْہُ وَصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَعَلٰی اٰلِہٖ وَ اَصْحَابِہٖ وَ اَزْوَاجِہٖ وَ بَنِیْہِ صَلَاۃً دَآئِمَۃً تُرْضِیْہِ وَبَعْدُ !

یعنی سب تعریفیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے ہیں اور اس کے انعامات واحسانات پر اس کا شکر ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہ یکتا ہے، اس کا کوئی شریک ومثل نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ حضرت سیِّدُنا محمد صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم اس کے بندے اور رسول ہیں، اس کے معزز نبی اور عظیم ُ الشان رسول ہیں،ان پر اور ان کی آل واصحاب، ازواجِ مطہّرات اوراولادِ اطہار رضوان اللہ علیہم اجمعین پر اللہ عَزَّوَجَلَّ کی ایسی دائمی رحمت ہوجو حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو خوش کر دے (آمین)۔''   

اس کے بعد فرمایا

نکاح اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حکم پر عمل ہے اور اس نے اس کی اجازت دی ہے، رسول اللہ عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے اپنی شہزادی حضرتِ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نکاح مجھ سے کر دیا ہے اور میری اس زرہ کو بطورِ حق مہر مقرر فرمایا ہے،

میں اور آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم اس پر راضی ہیں،تم لوگ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سے پوچھ لو اور گواہ بن جاؤ۔''

توسب مسلمانوں نے کہا: ''اللہ عَزَّوَجَلَّ تمہارے جوڑے میں برکت عطا فرمائے اور تمہیں اتفاق عطا فرمائے۔'' پھر حضورنبئ پاک، صاحب ِ لولاک، سیّاحِ افلاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم اپنی ازواجِ مطہّرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کے پاس تشریف لائے ۔


جاری ہے  ۔۔۔۔

نکاح ِعلی و فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنھما قسط نمبر چار


جبرئیل نے جواب دیا کہ آپ کا وہ محبوب ''آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا چچا زاد اور دینی بھائی حضرتِ سیِّدُنا علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہ، الْکَرِیْم ہے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ساری جنتوں اور حوروں کو آراستہ پیراستہ ہونے ، شجرِ طُوبیٰ کو زیورات سے مزین ہونے اور ملائکہ کو چوتھے آسمان میں بیت المعمور کے پاس جمع ہونے کا حکم دیا ہے،

اوررضوانِ جنت نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حکم سے بیت ُ المعمور کے دروازے پر منبرِکرامت رکھ دیا ہے۔ یہ وہی منبر ہے کہ جب اللہ عَزَّوَجَلَّ نے حضرتِ سیِّدُنا آدم علیہ الصلٰوۃ والسلام کو تمام اشیاء کے نام سکھائے تھے تو انہوں نے اس پر خطبہ دیا تھا۔     پھر اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حکم سے اس منبر پر راحیل نامی فرشتے نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے شایانِ شان اس کی حمد و ثناء کی توآسمان فرحت وسرور سے جھوم اُٹھا۔''

 پھرحضرتِ جبرا ئيل علیہ السلام نے مزید عرض کی : اللہ عَزَّوَجَلَّ نے مجھے وحی فرمائی کہ ''میں نے اپنے محبوب بندے علی کا نکاح اپنی محبوب بندی اور اپنے رسول کی بیٹی فاطمہ سے کر دیا ہے، تم ان کا عقد ِ نکاح کردو۔''پس میں نے عقد ِ نکاح کر دیا اور اس پر فرشتوں کو گواہ بنایااور ان کی گواہی اس ریشم کے ٹکڑے میں لکھی ہوئی ہے،

اللہ عَزَّوَجَلَّ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں یہ خط آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے حضور پیش کر وں اور اس پر سفید کستوری کی مہر لگا کر داروغۂ جنت ،رضوان کے حوالے کر دوں۔

جب اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ملائکہ کو اس نکاح پر گواہ بنایا تو شجرِ طوبیٰ کو حکم دیا کہ وہ اپنے زیورات بکھیرے۔ جب اس نے زیورات کی بوچھاڑ کی تو ملائکہ اور حُوروں نے سب زیورات چن لئے اورحوریں قیامت تک یہ زیورات ایک دوسرے کو تحفے میں دیتی رہیں گی

اور اللہ عَزَّوَجَلَّ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سے یہ عرض کروں کہ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم زمین پر حضرتِ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی شادی حضرتِ علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہ، الْکَرِیْم سے کر دیں

اور مجھے یہ بھی حکم ملا ہے کہ حضرتِ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو دو ایسے شہزادوں کی بشارت دوں جو انتہائی ستھرے ،عمدہ خصائل وفضائل کے حامل ،پاکیزہ فطرت اور دونوں جہاں میں بھلائی والے ہوں گے۔

''مکی مدنی سلطان ،سردارِدوجہان صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ''اے علی(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) ! ابھی فرشتہ بلندنہ ہواتھا کہ تم نے دروازے پر دستک دے دی۔
میں تمہارے متعلق حکمِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ نافذ کر رہا ہوں، تم مسجد میں پہنچ جاؤ، میں بھی آرہا ہوں۔میں لوگوں کی موجودگی میں تمہارا نکاح کر وں گا اور تمہارے وہ فضائل بیان کروں گا جن سے تمہاری آنکھیں ٹھنڈی ہوں۔

    
حضرت سیِّدُناعلی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہ، الْکَرِیْم ارشاد فرماتے ہیں:'' میں بارگاہ ِرِسالت علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام سے نکلا تو اتنی جلدی میں تھا کہ خوشی و مسرت سے اپنا ہوش بھی نہ تھا۔

راستے میں حضرتِ سیِّدُنا ابوبکر صدیق اورحضرتِ سیِّدُنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے ملاقات ہوئی، انہوں نے پوچھا :'' اے علی (رضی اللہ تعالیٰ عنہ)! خیریت ہے، کیا ہواہے؟کہ تم اتنی جلدی میں ہو۔''تو میں نے بتایا کہ  ۔۔۔۔۔۔


جاری ہے ۔۔۔۔۔ ۔

نکاح علی و فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنھما قسط نمبر تین


حضرتِ سیِّدَتُنا اُمِّ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں :'' میں نے دیکھا کہ حضور  صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا چہرۂ انور خوشی و مسرت سے کِھل اٹھا۔

پھر آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے مسکرا کر حضرتِ علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہ الْکَرِیْم کے چہرے کو دیکھااور  پوچھا:'' اے علی!کیا تمہارے پاس کوئی چیز ہے جس سے تم فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا حق مہر ادا کر سکو ؟''

 حضرتِ سیِّدُنا علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہ الْکَرِیْم نے عرض کی:'' اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم !یا رسول اللہ عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم پر میری حالت پوشیدہ نہیں ، آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم جانتے ہیں کہ میں ایک زِرہ ، تلوار اور پانی لانے والے ایک اونٹ کے علاوہ کسی چیز کا مالک نہیں۔''

 تو بی بی آمنہ کے لال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ورضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ارشاد فرمایا:'' اپنی تلوار سے تو تم اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں جہاد کرو گے لہٰذا اس کے بغیر گزارہ نہیں اور اونٹ سے اپنے گھر والوں کے لئے پانی بھر کرلاؤ گے اور سفر میں بھی اس پر اپنا سامان لادو گے،لیکن زرہ کے بدلے میں، مَیں اپنی بیٹی کا نکاح تجھ سے کرتاہوں اورمیں تجھ سے خوش ہوں،

اوراے علی !تجھے مبارک ہوکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے زمین پر فاطمہ سے تمہارا نکاح کرنے سے پہلے آسمان میں تم دونوں کا نکاح کر دیا ہے اور تیرے آنے سے پہلے آسمانی فرشتہ میرے پاس حاضر ہوا جس کو میں نے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا، اس کے کئی چہرے اور پَر تھے،اس نے آکر عرض کی : ''اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُولَ اللہ عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! مبارک مِلن اور پاکیزہ نسل کی آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کوبشارت ہو۔

میں نے پوچھا :''اے فرشتے! کیا کہہ رہے ہو؟''اس نے جواب دیا: ''یا رسول اللہ عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ! میں سبطائیل ہوں اور عرش کے ایک پائے پر مقرّر ہوں، میں نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں گزارش کی کہ وہ مجھ کو اجازت دے کہ میں آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو بشارت سناؤں اور حضرتِ جبرائیل علیہ السلام بھی میرے پیچھے پیچھے فضل وکرمِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ کی خبرلے کر آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے پاس پہنچنے والے ہیں ۔''
حضور نبی کریم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: '' ابھی اس فرشتے نے اپنی بات بھی پوری نہ کی تھی کہ حضرتِ جبرائیلِ امین علیہ السلام نے آکر سلام کیا اور ایک سفید ریشم کا ٹکڑا میرے ہاتھوں پر رکھ دیا جس میں دو سطریں نور کے ساتھ لکھی ہوئی تھیں۔''

میں نے پوچھا :'' اے میرے دوست جبرائيل(علیہ السلام)! یہ خط کیسا ہے؟''تو انہوں نے بتایا:'' یا رسول اللہ عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! اللہ عَزَّوَجَلَّ نے دنیا پرنظرِ رحمت فرمائی اوراپنی رسالت کے لئے مخلوق میں سے آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا انتخاب فرمایا اور آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے لئے ایک حبیب ، بھائی ، دوست اور وزیرچن کر اس کے ساتھ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی بیٹی حضر تِ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نکاح فرما دیا۔''میں نے پوچھا: '' اے جبریل علیہ السلام ! ذرایہ تو بتاؤکہ یہ میرا حبیب کون ہے؟''تو اس نے جواب دیا کہ ۔۔۔۔۔


جاری ہے ۔۔۔۔ 

نکاح ِعلی و فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنھما قسط نمبر دو



    پھرحضرتِ سیِّدُنا علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہ الْکَرِیْم نے اونٹ کھولا اور اپنے گھر چل دیئے۔ گھر جاکر اونٹ باندھا اور جوتے پہن کر حضرتِ سیِّدَتُنااُمِّ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے گھرکی طرف چل دئیے، دروازہ کھٹکھٹایاتو حضرتِ سیِّدَتُنااُمِّ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے پوچھا:''کون ؟'' تو سرکارِ عالی وقارﷺ نے ارشاد فرمایا: ''اُٹھو اور دروازہ کھولو۔ یہ وہ ہے جس سے اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کارسول ﷺ محبت کرتا ہے اور یہ بھی ان سے محبت کرتا ہے۔''

حضرتِ سیِّدَتُنا اُمِّ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے عرض کی :''میرے ماں باپ آپ (ﷺ) پر قربان! یہ کون ہے؟'' تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:''یہ میرا بھائی ہے اور مجھے ساری مخلوق سے بڑھ کر پیارا ہے۔''

حضرتِ سیِّدَتُنااُمِّ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں :''میں اس تیزی سے اٹھی 
کہ چادر میں الجھنے لگی تھی۔میں نے دروازہ کھولا تودیکھا کہ حضرت سیِّدُنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں، اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم ! جب تک انہیں پتہ نہ چلا کہ میں اوٹ میں ہوگئی ہوں ، وہ اندر داخل نہ ہوئے۔

پھر حاضرِ خدمتِ اقدس ہوکر انہوں نے سلام عرض کیا اورآپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے جواب عنایت کیا پھر فرمایا: ''بیٹھو'' آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے سامنے بیٹھ گئے اور زمین کُرَیدنے لگے گویاکوئی حاجت عرض کرنے میں حیا کر رہے ہوں۔
    
سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:''اے علی! کوئی کام ہے تو بتاؤ،ہمارے ہاں! تمہاری ہر حاجت پوری ہو گی۔'' حضرتِ سیِّدُناعلی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہ، الْکَرِیْم نے عرض کی :''یا رسول اللہ عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! میرے ماں باپ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم پرقربان! آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم جانتے ہیں کہ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے مجھے اپنے چچا اورچچی فاطمہ بنت اسد سے لیا، میں اس وقت ایک ناسمجھ بچہ تھا۔ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے میری راہنمائی فرمائی،مجھے ادب سکھایا، مجھے شائستہ بنایا۔

آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے مجھ پر ماں باپ سے بڑھ کر شفقت واحسان فرمایا۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے ذریعے مجھے ہدایت بخشی اور اس شرک سے بچایاجس میں میرے والدین مبتلا تھے(ان کی والدہ فاطمہ بنتِ اسدبعدمیں ایمان لے آئیں تھیں)۔

یا رسول اللہ (عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم )!آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ہی دنیا و آخرت میں میرا وسیلہ اور ذخیرہ ہیں، اور میں یہ پسند کرتاہوں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے ذریعےمیری پشت پناہی اس 
طرح فرمائے کہ میرا بھی ایک گھر اور بیوی ہوجس میں چین حاصل کروں۔

 یہی غرض لئے میں آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا ہوں، یا رسول اللہ عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ! کیاآپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم اپنی لختِ جگرحضرتِ فاطمۃ الزہرا ء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا عقد ِنکا ح میرے ساتھ فرمانا پسند فرمائیں گے؟۔

جاری ہے ۔۔۔۔