اتنی بڑی رقم کی ادائیگی کا بدلہ صرف دودھ کا ایک گلاس



ایک چھوٹے سے شهر میں ایک غریب لڑکا اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کا لیے گھر گھر جاکر چیزیں فروخت کرتا تھا ، ایک دن اس کی کوئی بھی چیز فروخت نهیں هوئی  ، بھوک کی وجه سے اس کی حالت خراب هو رهی تھی لیکن وه کسی سے کھانے کے لیے کچھ مانگنے کی همت نهیں کر پا رها تھا   

 ایک گھر پر اس نے دستک دی تو دروازه ایک نوجوان عورت نے کھولا ، اس نے لڑکے کی شکل دیکھ کر بھانپ لیا که وه بھوکا هے ، خاموشی سے بغیر کوئی سوال کیے لڑکے کو دودھ کا گلاس تھما دیا ، دودھ پی کر لڑکے نے اس کی قیمت دریافت کی تو عورت نے کها

’’ہمدردی اور مهربانی کی کوئی قیمت نهیں هوتی‘‘

لڑکا شکریه ادا کر کے چلا گیا  ۔  

اس بات کو ایک عرصه گزر گیا

وه عورت ایک شدید قسم کی بیماری میں مبتلا هوگئی ، اس کی بیماری کسی کو سمجھ میں نهیں آرهی تھی ،

شهر کے ایک بڑے ڈاکٹر سے رجوع کیا گیا،

ڈاکٹر نے اسے دیکھا اور ایک نظر میں پهچان لیا ، اس نے پوری توجه سے اس کا علاج کیا ، عورت کی جان بچ گئی۔

 ڈاکٹر نے اسپتال والوں سے کہا که اس عورت کا بل مجھے بھجوا دیا جاۓ ، اسپتال والوں نے بل بھجوا دیا ، ڈاکٹر نے بل اپنی طرف سے ادا کر دیا اور اس  کے ایک کونے په کچھ لکھ کر واپس اس عورت کو بھیج دیا
جب بل کا لفافه اس عورت کو ملا تو اس نے ڈرتے ڈرتے لفافه کھولا ، اس کا خیال تھا که اس بل کی ادائیگی کے لیے اسے اپنے اثاثے فروخت کرنا هوں گے ، جبکہ درحقیقت ایسا نہیں تھا  بلکہ بل پر ایک جمله لکھا ہوا تھا کہ :ـ  
’’ مکمل ادائیگی ۔۔۔ ایک گلاس دودھ ‘‘

زندگی میں بے لوث کیاگیا کوئی بھی کام کبھی رائیگاں نهیں جاتا ، جو کچھ هم کرتے هیں ، اچھا یا برا ، اس کا بدل جلد یا دیر سے همیں ضرور ملتا هے ، لیکن شرط یه هے که بغیر کسی لالچ کے کسی کی خوشی کے لیے ، کسی سے همدردی کے لیے کیا جاۓ ۔


لکھنؤ بازار کے ایک غریب درزی کی کہانی

 
یہ 1902ء کا واقعہ ہے

لکھنؤ بازار میں ایک غریب درزی کی دکان تھی جو ہر جنازے کے لۓ دکان بند کر دیا کرتا تھا ۔
لوگ کہتے کہ اس سے آپ کے کاروبار کو نقصان ہوگا

 وہ جواب دیتا  کہ میں ایک  غریب بندہ  ہوں مجھے کوئی جانتا بھی نہیں  تو میرے جنازے پر کون آۓ گا ۔۔۔۔ ؟
        
اس لیے ایک تو مسلمان کا حق سمجھ کر پڑھتا ہوں اور دوسرا یہ کہ شاید اس سے ہی اللہ تعالیٰ  خوش  ہو جائے اور میرے جنازے میں بھی کچھ لوگ جمع ہو جائیں  ۔۔۔

 اللہ تعالٰی  کی شان دیکھیں کہ جس دن اس درزی  کا انتقال ہوا اسی دن وہاں کے ایک بہت بڑے اور مشہور عالم ِ دین  کا انتقال بھی ہوا ۔

ان عالم صاحب  کے ا نتقال کا ریڈیو پر بتایا گیا ، اخبارات میں جنازے کی خبر آگئی ،  جنازے کے وقت لاکھوں کا مجمع تھا  پھر بھی بہت سے لوگ انکا جنازہ پڑھنے سے محروم رہ گئے ۔

جب جنازہ گاہ میں ان کا جنازہ ختم ہوا تو اسی وقت جنازہ گاہ میں ایک دوسرا جنازہ داخل ہوا اور اعلان ہوا کہ ایک اور عاجز مسلمان کا بھی جنازہ پڑھ کر جائیں  ۔۔۔

 یہ دوسرا جنازہ اس درزی کا تھا ۔

مولانا کے جنازے کے سب لوگ ، بڑے بڑے اللہ والےاور علماءِ کرام نے اس درزی کا جنازہ پڑھا اور پہلے جنازے سے جو لوگ رہ گئے تھے وہ بھی اس میں شامل ہوگئے ۔

یوں اس غریب کا جنازہ مولانا کے جنازہ سے بھی بڑھ کر نکلا اور اللہ تعالیٰ  نے اس درزی کی لاج رکھ لی …

سچ کہا ہے کہ اخلاص بہت بڑی نعمت ہے




گھنٹوں کا سفر تھوڑی دیر میں طے کرلیا


 
ایک صاحب جن کا نام حیدر تھا ، بریلی شریف میں بگھی ( چار پہیوں والی گھوڑا گاڑی)  چلایا کرتے تھے  ، کہتے ہیں کہ :

ایک مرتبہ امام اہلسنت سیدی اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے مجھے یاد فرمایا۔ یہ نماز عصر کے قریب ک وقت تھا ، میری گھوڑی پورا دن چلنے کی وجہ سے بالکل تھک گئی تھی مگراعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ  کے یا د فرمانے کے بعد مجھے کچھ عرض کرنے کی جرأت نہ ہوئی اورحاضر ِ بارگاہ ہوگیا۔
 اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ نے ارشاد فرمایا: چلو ۔۔۔اور گاڑی  میں تشریف فرما ہو گئے ،گاڑی چل پڑی ،  نینی تال روڈ پر گاڑی روانہ ہوئی ۔ جب گاڑی لاری اسٹینڈ(بس اسٹاپ)  پر پہنچی تو فرمایا :پیلی بھیت والی سڑک پر چلنا ہے ۔  گاڑی پیلی بھیت کی جانب  روانہ ہوگئی، قریب ایک میل کی مسافت طے کی ہو گی کہ پیلی بھیت کی عمارتیں نظر آنے لگیں جبکہ  بریلی سے  پیلی بھیت کا فاصلہ تقریباً  132 میل  بنتا ہے  ۔

اعلیٰ حضر ت سید ھے آستانۂِ حضر ت محمد شیرمیاں صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ  پر حاضر ہوئے اور اُن سے عرض کی  : کیسے یاد فرمایا؟ شاہ صاحب نے فرمایا: ابھی ابھی خیال ہو ا کہ مولانا احمد رضا خان کی زبان سے نعت شریف سننا چاہئے ۔

اعلیٰ حضرت نے حضور علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کے فضائل بیان کیے ، اس کے بعد بریلی واپس تشریف لے آئے  ، جب ہم  بریلی واپس پہنچے تو  ابھی مغرب کا وقت بھی نہیں ہوا تھا بریلی شریف آکر نمازِ مغر ب ادا فرمائی ۔

سبحٰن اللہ  عز و جل  ۔۔۔ یہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی کرامت ہے کہ مختصر وقت میں ایک گھوڑا گاڑی پر دوسرے شہر تشریف لے گئے جس کا فاصلہ  تقریباً 132 میل تھا اور وہاں پر بیان بھی فرمایا اور واپس بھی تشریف لےآئے اور دوسری کرامت یہ ہے کہ اُدھر حاجی محمد شیر میاں صاحب کے دل میں خیال گزرا اِ دھر اعلیٰ حضرت کو خبر ہو گئی کہ جناب حاجی صاحب یاد فرماتے ہیں ۔ 
(حیاتِ اعلیٰ حضرت از مولانا ظفر الدین بہاری مکتبہ نبویہ لاہور ص886 )


اللہ تعالیٰ کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری مغفرت ہو ۔۔۔ آمین ۔

نماز کی وجہ سے ریل گاڑی چل نہ سکی کون تھے یہ بزرگ ؟


 

ریل گاڑی پِیلی بِھیت سے بریلی شریف کی طرف رواں دواں تھی ۔  نواب گنج کے اسٹیشن پر جو راستے  میں پڑتا تھا  وہاں ریل گاڑی ایک دو مِنَٹ کے لیے رُکی، مغرِب کا وَقت ہوچکا تھا ۔
 مگر ایک دو منٹ ہو جانے کے بعد  بھی گاڑی چل نہ سکی پتہ چلا کہ  ڈرائیور انجن چلانے کوشش کر رہا  ہے لیکن نہیں چل پا رہا ،اِنجن اُچھلتا اورپھر پٹری پر گرجاتا ہے۔ٹی ٹی، اسٹیشن ماسٹروغیرہ سب لوگ جمع ہوگئے، ڈرائیور نے چیک کر کے بتایا کہ انجن میں کوئی خرابی نہیں ہے۔
پھر  یہ کیوں نہیں چل رہی ۔۔۔ ؟ ابھی سب اسی سوچ میں تھے  کہ اتنے میں  ایک شخص چیخ کر کہنے لگا : وہ دیکھو کوئی دَرویش نمازپڑھ رہا ہے ، شاید رَیل اسی وجہ سے نہیں چلتی؟
 دیکھا  تو وہاں اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان  علیہ الرحمہ اپنے  ساتھیوں کے ساتھ نماز ادا فرما رہے تھے  ، پھر کیا تھا اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ  کے گرد لوگوں کا ہُجُوم ہوگیا۔
 آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اطمینان سے نَماز سے فارِغ ہو کرجیسے ہی ساتھیوں  کے ساتھ ریل میں سُوارہوئے ریل چل پڑی ۔۔۔ سچ ہے جواﷲ کاہوجاتاہے کائنات اسی کی ہوجاتی ہے۔ 
(تذکرۂِ امام احمد رضا ص 15 مطبوعہ مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی)

اللہ عَزّوَجَلَّ  کی اِن پر رحمت ہو اور اِن کے صد قے ہماری مغفِرت ہو۔۔۔ آمین۔

انتقال کے بعد بھی مدینہ منورہ میں حاضری


 
حضرت مولانا ضیاء الدین احمد صاحب  رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ   جو مدینے میں ہی رہائش رکھتے تھے ، فرماتے ہیں کہ دن کے تقریباً دس بجے کا وقت تھا ، میں سو رہا تھا ، خواب میں دیکھا کہ امام اہلسنت سید ی اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ حضور پر نور سرکار دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کے مواجہہِ اقدس پر  حاضرہیں اور صلوٰۃ وسلام عرض کررہے ہیں ۔ ابھی اتنا ہی خواب دیکھا تھا کہ  میری آنکھ کھل گئی ۔

اب بار بار خیال کر رہا تھا کہ خواب ہی تو تھا مگر دل کی یہ حالت تھی  کہ مسلسل حرم شریف چلنے پرآمادہ کررہاتھا ، آخر کار بسترسے اٹھا،وضو کیا اور’’باب السلام‘‘سے حرم شریف  میں داخل ہوگیا ۔

ابھی کچھ حصہ مسجد  کا طے کیا تھا کہ اپنی آنکھوں سے میں نے دیکھا کہ واقعی اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اسی سفید لباس میں مزار پُر انوار پر حاضر ہیں اور جیسا کہ خواب میں دیکھا تھا کہ صلوٰۃ و سلام پڑھ رہے تھے، آنکھوں نے یہ دیکھا کہ لبہائے مبارکہ میں جنبش ہو رہی  تھی مگر آواز سننے میں نہ آ رہی تھی  ۔

یہ سب  دیکھ کرمیں  بیتاب ہو کر قدم بوسی کے لیے آگے بڑھا تو  اعلیٰ حضرت  رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ  نظروں سے غائب ہو گئے ۔ اس کے بعد میں نے مواجہہ شریف  پر حاضری دی اور صلوٰۃ وسلام عرض کرکے واپس ہولیا۔

 واپسی پر جب اسی جگہ پہنچا  کہ جہاں سے انہیں پہلے دیکھا تھا تو ایک مرتبہ پھر آپ کو وہیں موجود پایا۔(پھر پلٹا مگر  وہی معاملہ ہوا  ، یہاں سے نظر آتے وہاں جا کر نظر نہ آتے )مختصر یہ کہ تین (مرتبہ پلٹا تینوں) مرتبہ ایسا ہی ہوا۔  (حیاتِ اعلیٰ حضرت از مولانا ظفر الدین بہار ی مطبوعہ مکتبہ نبویہ لاہور ص 973 )

ایسے بزرگ جو پرندوں کی بولیاں سمجھ جاتے تھے

نور الدین صاحب فرماتے ہیں کہ میں گورنمنٹ کا ملازم تھا ، اتفاقاً میری ڈیوٹی بریلی شریف میں لگ گئی  ، یہ انگریزوں کا زمانہ تھا ،   میرے پیر صاحب کی جانب سے مجھے یہ نصیحت تھی کہ جہاں بھی جاؤ اُس علاقہ کے بزرگ کے پاس حاضری ضرور دو  اور بریلی شریف میں  اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ جیسے کمال بزرگ موجود تھے چنانچہ میں بریلی شریف میں  اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی خدمت میں اکثرحاضر ہوتا تھا ۔

حسب ِ معمول میں ایک دن آپ کی خدمت میں حاضر تھا کہ دو انگریز آپ کی خدمت میں حاضرہوئے اور آپ سے گفتگو کرنے لگے  اور  گفتگو کے دوران انہوں نے کہا  کہ آپ فرماتے ہیں کہ پیغمبر ِ ِاسلام(صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایاہے کہ : ’’میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء کیطرح ہیں۔‘‘

کیا آپ اس کا ثبوت دے سکتے ہیں کیونکہ بنی اسرائیل کے پیغمبر تو جانوروں کی بولیاں تک سمجھتے تھے ۔آپ پیغمبر ِ اسلام(صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کے عالم ہیں ،آپ میں کوئی ایسی صلاحیت ہے ؟

اتفاق سے اُس وقت دو کونجیں (ایک  سائبیرین پرندہ جو سردی کے موسم میں ایشیاء کے علاقوں  میں آتا ہے ) اڑی چلی جارہی تھیں، فرنگیوں نے کہا  آپ یہ بتا دیں کہ وہ جو کونجیں اڑی چلی آرہی ہیں وہ ایک دوسری سے کیا باتیں کر رہی ہیں ؟
آپ نے فرمایا :میں تو  سرور ِ انبیاء(صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم) کا ادنی ٰغلام ہوں اورعاجزی و  اِنکساری ظاہر کی مگرانہوں نے اصرار کیا ۔ پھر آپ نے فرمایا اچھا اگر آپ اصرار کرتے ہیں تو سن لیجئے کہ وہ دونوں کونجیں یہ گفتگو کر رہی ہیں
اگلی پچھلی سے کہہ رہی ہے جلدی کرو ،اندھیرا ہو رہا ہے، پچھلی نے اگلی کو جواب دیا ہے کہ جب ہم پچھلی وادی میں جلدی سے اتری تھیں، تو میرے بائیں پاؤں میں کانٹا چبھ گیا تھا اس لیے مجھ سے تیز نہیں اڑاجارہا ،تم آہستہ آہستہ چلو میں پورے زور سے چلتی ہوں تاکہ تمھارے ساتھ ساتھ رہ سکوں۔

اُن فرنگیوں کے پاس اُس وقت بندوق تھی اور دونوں بڑے نشانے باز تھے ایک فرنگی نے فوراً نشانہ باندھا اور پچھلی کو نج گر کر تڑپنے لگی اور انہوں نے جا کر  دیکھا تو  واقعی کونج کے بائیں پاؤں میں کانٹا چبھا ہوا تھا ۔

آپ کی یہ کرامت دیکھ کر وہ انگریز مسلمان ہو گئے اور کہنے لگے حضور! واقعی دین ِ اسلام سچا ہے ۔
(گلستانِ اولیاء ازمحمد امیر سلطان چشتی مطبوعہ چشتی کتب خانہ فیصل آبادص50 )

نگاہ ِولی میں وہ  تاثیر  دیکھی
بدلتی ہزاروں کی تقدیر دیکھی  

ایسے بزرگ جو پرندوں کی بولیاں سمجھ جاتے تھے

نور الدین صاحب فرماتے ہیں کہ میں گورنمنٹ کا ملازم تھا ، اتفاقاً میری ڈیوٹی بریلی شریف میں لگ گئی  ، یہ انگریزوں کا زمانہ تھا ،   میرے پیر صاحب کی جانب سے مجھے یہ نصیحت تھی کہ جہاں بھی جاؤ اُس علاقہ کے بزرگ کے پاس حاضری ضرور دو  اور بریلی شریف میں  اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ جیسے کمال بزرگ موجود تھے چنانچہ میں بریلی شریف میں  اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی خدمت میں اکثرحاضر ہوتا تھا ۔

حسب ِ معمول میں ایک دن آپ کی خدمت میں حاضر تھا کہ دو انگریز آپ کی خدمت میں حاضرہوئے اور آپ سے گفتگو کرنے لگے  اور  گفتگو کے دوران انہوں نے کہا  کہ آپ فرماتے ہیں کہ پیغمبر ِ ِاسلام(صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایاہے کہ : ’’میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء کیطرح ہیں۔‘‘

کیا آپ اس کا ثبوت دے سکتے ہیں کیونکہ بنی اسرائیل کے پیغمبر تو جانوروں کی بولیاں تک سمجھتے تھے ۔آپ پیغمبر ِ اسلام(صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کے عالم ہیں ،آپ میں کوئی ایسی صلاحیت ہے ؟

اتفاق سے اُس وقت دو کونجیں (ایک  سائبیرین پرندہ جو سردی کے موسم میں ایشیاء کے علاقوں  میں آتا ہے ) اڑی چلی جارہی تھیں، فرنگیوں نے کہا  آپ یہ بتا دیں کہ وہ جو کونجیں اڑی چلی آرہی ہیں وہ ایک دوسری سے کیا باتیں کر رہی ہیں ؟
آپ نے فرمایا :میں تو  سرور ِ انبیاء(صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم) کا ادنی ٰغلام ہوں اورعاجزی و  اِنکساری ظاہر کی مگرانہوں نے اصرار کیا ۔ پھر آپ نے فرمایا اچھا اگر آپ اصرار کرتے ہیں تو سن لیجئے کہ وہ دونوں کونجیں یہ گفتگو کر رہی ہیں
اگلی پچھلی سے کہہ رہی ہے جلدی کرو ،اندھیرا ہو رہا ہے، پچھلی نے اگلی کو جواب دیا ہے کہ جب ہم پچھلی وادی میں جلدی سے اتری تھیں، تو میرے بائیں پاؤں میں کانٹا چبھ گیا تھا اس لیے مجھ سے تیز نہیں اڑاجارہا ،تم آہستہ آہستہ چلو میں پورے زور سے چلتی ہوں تاکہ تمھارے ساتھ ساتھ رہ سکوں۔

اُن فرنگیوں کے پاس اُس وقت بندوق تھی اور دونوں بڑے نشانے باز تھے ایک فرنگی نے فوراً نشانہ باندھا اور پچھلی کو نج گر کر تڑپنے لگی اور انہوں نے جا کر  دیکھا تو  واقعی کونج کے بائیں پاؤں میں کانٹا چبھا ہوا تھا ۔

آپ کی یہ کرامت دیکھ کر وہ انگریز مسلمان ہو گئے اور کہنے لگے حضور! واقعی دین ِ اسلام سچا ہے ۔
(گلستانِ اولیاء ازمحمد امیر سلطان چشتی مطبوعہ چشتی کتب خانہ فیصل آبادص50 )

نگاہ ِولی میں وہ  تاثیر  دیکھی
بدلتی ہزاروں کی تقدیر دیکھی  

ایسے بزرگ جو پرندوں کی بولیاں سمجھ جاتے تھے

نور الدین صاحب فرماتے ہیں کہ میں گورنمنٹ کا ملازم تھا ، اتفاقاً میری ڈیوٹی بریلی شریف میں لگ گئی  ، یہ انگریزوں کا زمانہ تھا ،   میرے پیر صاحب کی جانب سے مجھے یہ نصیحت تھی کہ جہاں بھی جاؤ اُس علاقہ کے بزرگ کے پاس حاضری ضرور دو  اور بریلی شریف میں  اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ جیسے کمال بزرگ موجود تھے چنانچہ میں بریلی شریف میں  اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی خدمت میں اکثرحاضر ہوتا تھا ۔

حسب ِ معمول میں ایک دن آپ کی خدمت میں حاضر تھا کہ دو انگریز آپ کی خدمت میں حاضرہوئے اور آپ سے گفتگو کرنے لگے  اور  گفتگو کے دوران انہوں نے کہا  کہ آپ فرماتے ہیں کہ پیغمبر ِ ِاسلام(صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایاہے کہ : ’’میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء کیطرح ہیں۔‘‘

کیا آپ اس کا ثبوت دے سکتے ہیں کیونکہ بنی اسرائیل کے پیغمبر تو جانوروں کی بولیاں تک سمجھتے تھے ۔آپ پیغمبر ِ اسلام(صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کے عالم ہیں ،آپ میں کوئی ایسی صلاحیت ہے ؟

اتفاق سے اُس وقت دو کونجیں (ایک  سائبیرین پرندہ جو سردی کے موسم میں ایشیاء کے علاقوں  میں آتا ہے ) اڑی چلی جارہی تھیں، فرنگیوں نے کہا  آپ یہ بتا دیں کہ وہ جو کونجیں اڑی چلی آرہی ہیں وہ ایک دوسری سے کیا باتیں کر رہی ہیں ؟
آپ نے فرمایا :میں تو  سرور ِ انبیاء(صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم) کا ادنی ٰغلام ہوں اورعاجزی و  اِنکساری ظاہر کی مگرانہوں نے اصرار کیا ۔ پھر آپ نے فرمایا اچھا اگر آپ اصرار کرتے ہیں تو سن لیجئے کہ وہ دونوں کونجیں یہ گفتگو کر رہی ہیں
اگلی پچھلی سے کہہ رہی ہے جلدی کرو ،اندھیرا ہو رہا ہے، پچھلی نے اگلی کو جواب دیا ہے کہ جب ہم پچھلی وادی میں جلدی سے اتری تھیں، تو میرے بائیں پاؤں میں کانٹا چبھ گیا تھا اس لیے مجھ سے تیز نہیں اڑاجارہا ،تم آہستہ آہستہ چلو میں پورے زور سے چلتی ہوں تاکہ تمھارے ساتھ ساتھ رہ سکوں۔

اُن فرنگیوں کے پاس اُس وقت بندوق تھی اور دونوں بڑے نشانے باز تھے ایک فرنگی نے فوراً نشانہ باندھا اور پچھلی کو نج گر کر تڑپنے لگی اور انہوں نے جا کر  دیکھا تو  واقعی کونج کے بائیں پاؤں میں کانٹا چبھا ہوا تھا ۔

آپ کی یہ کرامت دیکھ کر وہ انگریز مسلمان ہو گئے اور کہنے لگے حضور! واقعی دین ِ اسلام سچا ہے ۔
(گلستانِ اولیاء ازمحمد امیر سلطان چشتی مطبوعہ چشتی کتب خانہ فیصل آبادص50 )

نگاہ ِولی میں وہ  تاثیر  دیکھی
بدلتی ہزاروں کی تقدیر دیکھی  

ایک چَوَنیّ کی برکت سے کبھی پیسوں میں کمی نہ ہوئی




ایک باراعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن کو حاجیوں کے استقبال کے لیے بندرگاہ جانا تھا، جس سُواری سے جانے کا طے ہوا تھا اس کو آنے میں تاخیر ہوگئی تو اہل محبت میں سے ایک شخص جن  کا نام  غُلام نبی مستری تھا وہ  بِغیر پوچھے تانگہ لینے چلےگئے۔

 جب تانگہ لے کر پلٹے تو دُور سے دیکھا کہ جس سے طے ہوا تھا وہی سُواری پہنچ چکی ہے یہ دیکھ کر  انہوں نے تانگے والے سے معذرت کی اور اس کو چونیّ (ایک روپے کا چوتھائی حِصّہ) دے کر وہیں سے واپس  بھیج دیا  ۔

 اِس واقعہ کا کسی کو علم نہیں ہونے دیا تھا ۔ چار دن  کے بعد مستری صاحِب بارگاہِ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ میں حاضِر ہوئے تو اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے انہیں ایک چونیّ عطا فرمائی۔ مستری صاحب نے پوچھا: حضور یہ کس لیے ہے؟ تو آپ علیہ الرحمہ نے  فرمایا:اُس دن تانگے والے کو آپ نے دی تھی۔

مستری صاحِب حیران ہوگئے کہ میں نے تو  کسی سے اِس بات کا بالکل  بھی  تذکرہ نہیں کیا تھا پھر بھی اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو معلوم ہوگیا۔

اِنہیں اِس طرح سوچ میں ڈوبا ہوا دیکھ کر حاضِرین نے کہا: میاں بابَرَکت چونیّ ہے  کیوں چھوڑتے ہو!تبرُّک کے طور پر رکھ لو۔ اُنہوں نے رکھ لی۔ جب تک وہ بابَرَکت چَوَنِّی ان کے پاس رہی کبھی پیسوں میں کمی نہ ہوئی۔


)مُلَخَّص ازحیاتِ اعلٰی حضرت ج3ص260مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی(

ہزاروں جتن کے باوجود صحیح نہ ہونے والا پاگل پن اچانک کیسے ٹھیک ہوگیا ؟


یہ  1335ھ کے ربیع  الآخر   کی بات ہے   ۔حضور محدث سورتی علیہ الرحمہ کے عرس مبارک کی تقریبات چل رہی تھیں ، اعلی ٰ حضرت امام احمد رضا  علیہ الرحمہ بھی  تشریف فرما تھے ، اسی دوران   آٹھ رسیو ں میں جکڑے ہوئے ایک نوجوان دیوانے کو اعلیٰ حضرت کی خدمت میں پیش کیا گیا۔

 اس کے ساتھ کچھ رشتے دار بھی تھے  رشتہ داروں نے بتایا کہ کچھ ماہ سے یہ پاگل ہے ، ہزاروں علاج کروائے ہیں کوئی فائدہ نہیں ہوا ۔ پاگل خانے میں اس لیے داخل نہیں کیا کہ وہاں مریضوں کو بہت مارتے ہیں ہم بڑی اُمید کے ساتھ حضور کی خدمت میں آئے ہیں ، ان کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں تمام گھر والے بہت پریشان ہیں ۔

اعلیٰ حضرت تمام واقعات سننے کے بعد چند منٹ اس دیوانے کی طرف بہت غور سے دیکھتے رہے ،ایسا معلوم ہوتا تھاکہ آپ نگاہوں سے مرض کو کھینچ رہے ہیں۔اعلیٰ حضرت کے نگاہ ملاتے ہی دیوانے کی مجنونانہ حرکا ت میں افاقہ ہونا شروع ہو گیا اور تھوڑی ہی دیر میں وہ اسی جگہ بے حس و حرکت ہو کر گر پڑا ۔

اعلیٰ حضرت نے اس کے رشتہ داروں سے فرمایا ’’اب یہ ٹھیک ہیں ،رسیا ں کھول دو اور گھر لے جاؤ ، اور روزانہ ایک عد د منقیٰ تھوڑے دودھ کے ساتھ کھلا دیا کرو‘‘۔

خدا کے فضل سے دیوانہ اب تک زندہ ہے اورا پنے نو جوان لڑکوں کے ساتھ کاروباری زندگی میں مصروف ہے ۔

)حیاتِ اعلیٰ حضرت از مولانا ظفر الدین بہار ی مکتبہ نبویہ لاہور ص978(

امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ المنان کی مختصر سوانح حیات


جب ہم اسلام پر اٹھنے والے طوفانوں اور آندھیوں  پرنظر ڈالتے ہیں تو ہمیں ان میں سے ہر ایک کےآگے  کچھ ایسی ہستیاں دکھائی دیتے ہیں، جنہوں نے وارثینِ انبیائے کرام علیہم السلام ہونے  کا حق ادا کردیا۔ جنہوں نے علم وفن کی آبیاری کے ساتھ ساتھ فکروعمل اوراصلاح کو بھی زاویہ  ِنظر میں رکھا  اور ان طوفانوں اور آندھیوں کے آگے بند باندھتے چلے گئے ۔

ایسی ہی عظیم شخصیات میں ایک سنہرا نام اعلی حضرت امام احمد رضا خان بریلوی علیہ رحمۃ اللہ  القوی کا بھی ہے، جنہوں نے ہندوستان کی تاریخ کے ایسے خطرناک دور میں آنکھیں کھولیں، جب مسلمانانِ ہندکے دین و ایمان کے ساتھ ساتھ ان کی دنیاوی حشمت و شوکت پربھی چہار جانب سے  تابڑ توڑ حملے ہورہے تھے۔

خصوصًا  وجہِ تخلیقِ کائنات  شہنشاہ موجودات صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی ذات ستودہ صفات کی شان و عظمت پر ڈاکے ڈالنے کی کوششیں کی گئیں،ایسے پر فتن حالات میں آپ نے کہیں" تدبیر ِ فلاح ونجات "جیسے رسائل لکھ کر مسلمان کی تنزل کی وجوہات اور ان کے تدارک کا طریقہ بتایا توکہیں ان کے ایمان بچانے کے لئے ،سلّ السیوف الہندیہ الخ،سبحٰن السبوح الخ ،قھر الدیان الخ،جیسے اور بہت سے رسائل لکھ کر ان کے دین و ایمان کا تحفظ فراہم کیا ،پیارے آقا صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے شان میں بہت سے رسائل لکھ کرآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عشق رسول کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ علوم و فنون کی کھیتی کوبھی  سر سبز کیا، مسلمانوں میں ہمت و جرأت کی روح پھونکی اور اسلام کی صحیح تصویر پیش فرماکر اسلامی قوانین کی بالادستی برقرار فرمائی ۔

امام اہل سنت سیدی اعلی حضرت  رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی پیدائش 10 شوال المکرم  1272ھ  مطابق 14 جون  1856ء کو بروز ہفتہ بریلی شریف کے ایک ایسے گھرانے میں ہوئی جو علم و فضل، تقوی و طہارت اور قوت و بہادری میں مشہور تھا۔ آپ کے جدِّاعلیٰ محمد سعید اﷲ خان قندھار افغانستان سے لاہور تشریف لائے اور لاہور سے دہلی منتقل ہوئے۔ اعلی حضرت کے جدِّحقیقی یعنی دادا جان حضرت مولانا رضا علی خان صاحب علیہ الرحمہ بریلی میں ایک عرصہ تک منصب افتاء پر فائز رہے ۔ آپ کے بعد آپ کے صاحبزادے رئیس المتکلمین  حضرت علامہ نقی علی خان علیہ الرحمہ نے یہ منصب سنبھالا، آپ رحمۃ اللہ تعالی علیہ اپنے وقت  کے بہت بڑے مفتی ہونے کے ساتھ ساتھ کئی کتابوں کےمصنف بھی تھے ۔

 اس طرح کےدینی ، علمی اور روحانی فضل و کمال سے مالا مال گھرانے کے  فرد ہونے کی بنا پر علم و فضل اور تقوی و پرہیزگاری،عشق رسول  اعلی حضرت علیہ الرحمہ کو ورثے میں ملا، آپ نے  تعلیم کا بیشتر حصہ اپنے والد محترم حضرت علامہ نقی علی خان علیہ الرحمہ کے پاس حاصل کیا۔ آپ رضی اللہ تعالی بہترین قوت حافظہ والے کمال کے ذہین تھے، تیرہ سال دس ماہ چار دن کی عمر میں تمام علومِ مروّجہ کی سندِ فراغت سے نواز دئیے گئے اور اسی دن مسئلہ رضاعت پر پہلا فتو ٰی لکھا جسے دیکھ کر آپ کے والد ماجدنے اسی دن مسند افتاء کی ذمہ داری آپ کو سونپ دی،جسے آخری عمر تک بحسن و خوبی انجام دیتے رہے ،

1294ھ 22 سال کی عمر میں اپنے والد ماجد مولانا نقی علی خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ہمراہ  ضرت سید شاہ آلِ رسول مارہروی رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی بارگاہ میں بیعت ہونے کیلئے حاضر ہوئے تو حضرت  نے بغیر کسی امتحان و آزمائش کے داخلِ طریقت بھی فرمایا اور ساتھ ہی آپ اور آپ کے والد ماجد کو اجازت و خلافت سے بھی نواز دیا۔

اس پر کسی نے حضرت شاہ اٰل رسول رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت سراپااقدس میں عرض کی :''حضور! آپ کے یہاں تو ایک لمبے عرصے تک مجاہدات وریاضات کے بعد خلافت واجازت مرحمت کی جاتی ہے ،پھر کیا وجہ ہے کہ ان دونوں (یعنی مولانا نقی علی خان اور اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہما )کو بیعت کرتے ہی خلافت عطا فرمادی ؟''اِرشاد فرمایا:''اورلوگ زنگ آلود میلاکچیلا دل لے کر آتے ہیں ،اس کی صفائی وپاکیزگی کے لئے مجاہداتِ طویلہ اور ریاضات شاقہ کی ضرورت پڑتی ہے ،یہ دونوں حضرات صاف ستھرا دل لے کر ہمارے پاس آئے ان کو صرف اِتصالِ نسبت کی ضرورت تھی اور وہ مُرید ہوتے ہی حاصل ہوگئی ۔''

 علوم و فنون کی کثرت امام احمد رضا کی شان امتیاز ہے چنانچہ ایک اندازے کے مطابق پچاس سے زائد علوم و فنون پر آپ کو نہ صرف عبور حاصل تھا بلکہ پچاس سے زیادہ علوم و فنون میں آپ کی تصنیفات موجود ہیں ۔ آپ کی تصنیفات کی تعدادتقریباً ایک ہزار ہے۔جن کا شاہکار فتاوی رضویہ مخرجہ 30 ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے۔

 اللہ و رسول عزوجل و صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی محبت ،صحابہ و اہل بیت کا ادب بصورت شاعری دیکھنا ہو تو حدائق بخشش بہترین کلام ہے۔

آپ نے اپنے آبا و اجداد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اسلام مخالف تمام تحریکوں اور اسلام کے دشمن عناصر کا تعاقب کیا

معاشیات اور اقتصادیات میں آپ کے نظریات آئیڈیل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ بینک کاری اور بلاسودی نظام اقتصادیات کے حوالہ سے امام احمد رضا کی فکر قابل تقلید ہے ۔سیدی اعلی حضرت علیہ الرحمہ نے صرف اقتصادی نظریات ہی پیش نہیں کئے ہیں، بلکہ عصر حاضر میں اقتصادی بحران کا مضبوط اور مستحکم لائحہ عمل پیش فرمایا ہے۔

تقوی و پرہیز گاری، اتباعِ شریعت اور سنت نبوی ﷺ پر عمل ایسا تھا کہ عمر کے آخری ایام میں بھی نماز باجماعت کا التزام فرماتے تھے، سخت بیمار ہونے کے باجود کبھی جماعت ترک نہ کی، سنن قبلیہ و بعدیہ پر بھی ہمیشہ پابندی فرمائی ۔

 زہد و قناعت، توکل و اخلاص اس حد تک تھا کہ کبھی کسی سے اپنی ذات کیلئے کوئی مطالبہ نہیں فرمایا، حرص و طمع ، دنیاوی جاہ و حشمت سے بیزار رہ کر دین کی خدمت کی۔ آباء و اجداد سے ورثے میں ملنے والی جاگیروں سے جو کچھ ملتا تھا اسی پر اکتفا فرمایا۔ بلکہ جود و سخا اس قدر تھی کہ مال آتے ہی ضرورت مندوں میں خرچ کردیا کرتے تھے، غریبوں کیلئے ہند اور بیرون ہند ماہانہ وظیفہ مقرر کر رکھا تھا، موسم سرما میں لوگوں میں رضائیاں تقسیم کرواتے، کبھی کسی نے کوئی  چیز مانگ لی توفوراً عطا فرمادیتے تھے۔

ایمان و یقین کا حال یہ تھا کہ ہمیشہ جبل استقامت اور پیکرِصبر و رضا نظر آئے، حوادثات و مصائب کی آندھیاں چلیں، حق گوئی کی وجہ سے مخالفتیں ہوئیں، گالیوں سے بھرے خطوط بھیجے گئے، مگر آپ کےارادوں میں لغزش نہ آئی۔ ہمیشہ وہی لکھا اور وہی کہا جو قرآن و سنت کا حکم تھا۔

محبت رسولﷺ سے آپ کا دل اس طرح لبریز تھا کہ رسول اﷲﷺ کی شان میں گستاخی کا شائبہ بھی برداشت نہیں فرمایا۔ امر بالمعروف  اور نہی عن المنکر کا ایسا سچا جذبہ تھا کہ کبھی دینی مسئلے میں قریبی سے قریبی شخص کی رعایت نہیں فرمائی ۔

 مزارات وغیرہ پر جاہل لوگوں کی طرف سے کی جانے والی بدعات و خرافات سے سخت بیزاری اظہار فرماتے، مزارات پر عورتوں کی حاضری ناپسند فرماتے بلکہ آپ نے اسلامی معاشرہ میں پھیلی ہوئی ہر قسم کی برائیوں کو روکنے کی بھرپور کوشش فرمائی ، انھیں کارناموں کی وجہ سے اس وقت کے بڑے بڑے علماء و فقہاء نے آپ کوزمانے کا  ’’مجدد‘‘  قرار دیا ۔

25 صفر المظفر بروزجمعہ 1340ھ مطابق 28 اکتوبر1921ء کو آپ اس دار فانی سے رحلت فرماگئے لیکن آپ کے آثار علمیہ قیامت تک کیلئے امت مسلمہ کے لئے قیمتی اثاثہ بن کرآپ کا وقار بلند کرتے رہیں گے اور لاکھوں گمراہوں کےلیے باعث ِہدایت و رہنمائی ثابت ہوں گے   ؎

تم  کیا  گئے  کہ  رونقِ  محفل  چلی  گئی
شعر و ادب کی زلف پریشاں ہے آج بھی

اللہ تعالیٰ ان پر کروڑوں رحمتوں کانزول فرمائے اور ان کے صدقے ہماری بلا حساب مغفرت فرمائے  آمین۔

دو چچازاد بھائیوں کا دلچسپ واقعہ


’’ سر ۔۔۔ امجد  سلیم کو کام کرتے ہوئے ہارٹ اٹیک ہو گیاہے ۔‘‘ فیکٹری کےمالک جنید  صاحب کوان کےمینیجرالیاس نےاطلاع دی ۔

اب سےتقریباًدو گھنٹےپہلےسر ۔ یہ کب ہوا اور اب کہاں ہےوہ؟ جنید صاحب نےبےقراری سےپوچھا
اسےفوری ہسپتال بھیج دیاگیاہے ۔اس کےگھروالوں کومیں نےفون کر دیا ہے۔ بس اللہ رحم فرمائے سر ۔۔۔ اس کا کوئی بیٹابھی نہیں ہے ، اکیلا کمانے والا ہے

 ابھی کل ہی بتارہا تھا  کہ مالک مکان اچانک مکان خالی کرنے کا کہہ گیا ہے۔  ابھی تک کسی دوسرے مکان کا انتظام نہیں ہوا تھا ۔ ڈر رہا تھا کہ  اگر اس نے سب کو گھر سے باہر نکال کھڑا کیا تو وہ کہاں جائیں گے ۔ اس کا کوئی قریبی رشتہ دار بھی نہیں ہے ۔  شاید یہی پریشانی دل کے دورے کا سبب بنی ہو۔‘‘مینیجر الیاس اتنا کہہ کر خاموش ہو گیا۔

تم نے مجھے پہلےکیوں نہیں بتایا   ۔۔۔ ؟ جنید صاحب افسردگی سے بولے ۔

  خیر چلو میرے ساتھ۔ یہ کہہ کر وہ فوراً ہی کرسی سے اٹھے اور گاڑی لے کر ہسپتال پہنچ گئے شکیل کو ہوش آچکا تھا۔

جنید صاحب نے حال چال پوچھنے کے بعد امجد سے کہا  : آرام کیجئے  ،  آپ کی تنخواہ آپ کے گھر پہنچ جائے گی ۔ آپ کےمکان کا انتظام بھی ہو گیا ہے، آج ہی آپ اس مکان میں شفٹ ہو رہے ہیں۔ آپ کا سامان وہاں پہنچ جائے گا اور گھر والوں کی طرف سے بے فکر رہیے گا، انکی ہر ضرورت کا خیال رکھا جائے گا۔

 یہ کہہ کر انھوں نے ایک ملازم کو اس کے پاس چھوڑا اور فیکٹری کی طرف روانہ ہو گئے۔
 انکے مینیجر جنید صاحب کی خدا ترسی اور انسانی ہمدردی کے جذبے سے اچھی طرح واقف تھے مگر امجد کے معاملے میں انکی غیر معمولی دلچسپی انکی سمجھ سے بالاتر تھی ۔

فیکٹری کے مالک بہت نیک اور سخی آدمی ہیں ۔انھوں نےمکان بھی دیا ، 20 ہزار روپے اور بہت سارا سامان بھی گھر بھیج دیا ۔ دنیا ابھی نیک لوگوں سے خالی نہیں ہے‘‘امجد کی بیوی ہسپتال میں  امجد سے کہہ رہی تھی ۔۔۔

امجد کہیں دور خلاؤں میں گھورتے ہوئے بولا۔۔۔ تم جانتی ہو وہ کون ہے ۔۔۔  ؟

کون ہیں ۔۔۔۔ ؟
وہ میرے چچا کا بیٹا ہے، چچی اس کے بچپن میں ہی فوت ہوگئی تھیں۔ جب چچا فوت ہوئے تو بابا نے اسے جوانی میں گھر سے نکال کر اس کے حصے پر قبضہ کر لیا تھا اور اسکو گھر سے نکالنے میں سب سے زیادہ ہاتھ میرا تھا اور میں اپنے کیے  کی سزا بھگت چکا ہوں بلکہ بھگت رہا ہوں ۔

شکر کریں انھوں نے آپ کو پہچانا نہیں ورنہ آپ اتنی اچھی نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھتے اور اتنے اچھے لوگوں سے بھی ،جنہوں نے ہر موقعے پر ہمارا ساتھ دیا۔

ہاں! پہچان لیتا تو اپنی فیکٹری میں ملازمت ہی کیوں دیتا اسی وقت دھکے دے کر باہر نکال دیتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

معاف کیجئے گا سر میں نے آپ کو ڈسٹرب کیا۔مینیجر  آفس میں داخل ہوتے ہوئے بولے۔

بولو  ۔۔۔ !جنید صاحب نے اخبار سے نظریں ہٹا تے ہوے بولا

میں جانتا ہوں سر کہ آپ غریبوں کی مدد کر نے میں ہمیشہ پیش پیش رہتے ہیں۔ مگر امجدکےمعاملےمیں آپکی غیرمعمولی دلچسپی سےلگتا ہےکہ آپ کےاوراس کےدرمیان کوئی خاص بات ہے۔

جنید صاحب  نے نظر اٹھا کر ان کی طرف دیکھا

سوری سر! آپ مجھ سےہر بات کھل کر کرلیتے ہیں،بس اسی لیئے میں پوچھ بیٹھا،  اورسر مجھے یاد پڑتا ہے ، چار سال پہلے جب امجد ملازمت لینے آیا تھا تو آپ اسے دیکھ کر چونکے تھے اور پھر کوائف پورے نہ ہونے کے باوجود آپ نے اسے ملازمت دے دی تھی۔

جنید صاحب کچھ دیر تک خاموشی سے ایک طرف تکتے رہے ۔پھر انکے لبوں میں جنبش ہوئی۔
دراصل امجد میرے چچا کا بیٹا ہے ۔جانتے ہو کس چچا کا؟‘‘ اتنا کہہ کر وہ سانس لینے کے لئے رکے۔ انکی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں۔ کچھ دیر بعد وہ خود کو سنبھالتے ہوئے گویا ہوئے ۔

جنہوں نے مجھے میرے والدین کے مرجانے کے بعد  گھر سے نکال دیا تھا اور مجھے گھر سے نکالنے میں شکیل کا سب سے زیادہ ہاتھ تھا۔

میں بھی روز  کی مار  پیٹ  سے تنگ  تھا اس گھر میں نہیں رہنا چاہتا تھا۔سو میں نکل گیا نا معلوم منزل کی طرف۔  ہاں ۔۔۔ بگولے میں اڑجانے والے کاغذکی طرح یا کسی کٹی ہوئی پتنگ کی طرح جس کی کوئی منزل نہیں ہوتی۔‘‘اتنا کہہ کر انہوں نے ٹھنڈی آہ بھری ۔کچھ دیر تک وہ خاموش رہے ، پھر ایک سمت میں نظریں جمائے کہنے لگے

قدرت کے کام بہت انوکھے اور عجیب ہوتے ہیں۔ ہماری ناقص عقل انھیں دیکھنے سے قاصر ہے یا یوں کہہ لیجئے کہ جہاں ہماری عقل کی انتہا ہوتی ہے، وہاں سے قدرت کے کاموں کی ابتدا ہوتی ہے۔مجھے میرے رب نے اچھا ٹھکانہ بھی دیا،اعلیٰ تعلیم بھی اور بہترین کاروبار بھی۔ مختصراً بتا دیتا ہوں کہ اعلیٰ خاندان کے ایک نیک آدمی کے ہاتھ لگ گیا تھا اور اللہ کی مہربانی سے آج اس مقام پر ہوں۔‘‘ اتنا کہہ کر انہوں نے مینیجر کی طرف دیکھا جو دنیا سے بے خبر ان کی داستان سننے میں مگن تھا۔

مجھے گھر سے نکالنے کے تقریباً پانچ سال بعد میرے بڑے چچا فوت ہو گئے۔تو اسکے کچھ عرصے بعد میرے دوسرے چچا نے امجد اور اسکی والدہ کو بالکل اسی طرح دھکے دے کر گھر سے نکال دیا۔  پھر انہوں نے بڑی مشکل سے کرائے پر گھر حاصل کیا۔گھر میں غربت نے ڈیرے ڈال دیے اور اب جہاں تک میرا خیال ہے شکیل یہ سمجھتا ہے کہ میں نے اسے نہیں پہچانا مگر میں اسے کبھی نہیں بھول سکتا ۔۔۔

یہاں تک کہہ کر انھوں نے مینیجر کی طرف دیکھااور بھر پور انداز میں مسکرا دیےاور ادھر مینیجر حیرت سے منہ کھولے جنید صاحب کو تکتا رہ گیا ۔

حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :
جو تم سے ناطہ توڑے تم اس سے جوڑو،جو تمہیں محروم کرے اُسکو عطا کرو اورجو تم پر ظلم کرے تم اُسے معاف کرو۔

(مسند احمد بن حنبل ، ج6،ص148،رقم 126)