کیا رمضان المبارک میں اشیا کی قیمتیں بڑھا سکتے ہیں؟




بسمِ االلّٰہ الرَّحمنِ ا لرَّحِیم
الصلوۃ والسلام علیک یارسول اللّٰ                                                                                   وعلی الک واصحبک یا حبیب اللّٰہ
دارالافتاء اھلسنت
نزدجامع مسجدغوثیہ حاجی احمد جان بینک روڈصدرراولپنڈی پاکستان
E-Mail :darulifta@dawateislami.net
ریفرنس نمبر5146                                                                                              تاریخ 21-05-2017
کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس بارے میں کہ رمضان المبارک میں جو لوگ اپنی چیزوں کی قیمتیں بڑھا دیتے ہیں، ان کے لئے چیزیں مہنگی بیچ کر روٹین سے زیادہ پرافٹ کمانا کیسا؟
سائل : دلنواز ( صدر، راولپنڈی)
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب بعون الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب
رمضان المبارک بہت عظمتوں اوربرکتوں والا مہینہ ہے، اس میں نفل کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ستر گنا بڑھا دیا جاتا ہے، حدیث پاک میں اس مہینے کو ماہِ مبارک اور ماہِ مؤاسات قرار دیا گیا ہے، مؤاسات سے مراد اپنی روزی میں دوسروں کو حصہ دار بنانا ہے، تو اس ماہِ مقدس کی عظمت کے پیش نظر ہر مسلمان کو چاہئے کہ اپنے مسلمان بھائیوں کے لئے جذبہ خیر خواہی رکھے، اور خیر خواہی کے تحت اپنی چیزوں کو مناسب بھاؤ میں فروخت کرے، اور اللہ عزوجل سے ثواب اور رزق میں برکت کی امید رکھے۔
رمضان المبارک ماہِ مواسات ہے، چنانچہ صحیح ابن خزیمہ و شعب الایمان میں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی، فرماتے ہیں:
’’
خطبنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی آخر یوم من شعبان فقال: ایھا الناس قد اظلکم شھر عظیم، شھر مبارک، شھر فیہ لیلۃ خیر من الف شھر، جعل اللہ صیامہ فریضۃ، وقیام لیلہ تطوعا، من تقرب فیہ بخصلۃ من الخیر، کان کمن ادی فریضۃ فیما سواہ، ومن ادی فیہ فریضۃ کان کمن ادی سبعین فریضۃ فیما سواہ، وھو شھر الصبر، والصبر ثوابہ الجنۃ، وشھر المواساۃ، وشھر یزداد فیہ رزق المؤمن‘‘
 ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شعبان کے آخری دن ہمیں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: اے لوگو! تم پر عظمت والا مہینہ سایہ فگن ہو رہا ہے، یہ مہینہ برکت والا ہے، جس کی ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے، یہ وہ مہینہ ہے جس کے روزے اللہ تعالیٰ نے فرض کئے، اور جس کی رات کا قیام نفل بنایا، جو اس ماہ میں نفلی بھلائی سے قربِ الٰہی حاصل کرے تو گویا اس نے دوسرے مہینے میں فرض ادا کیا، اور جو اس میں ایک فرض ادا کرے توایسا ہو گا جیسے اس نے دوسرے مہینے میں ستر فرض ادا کئے، یہ صبر کا مہینہ ہے، اور صبر کا ثواب جنت ہے، یہ غم خواری کا مہینہ ہے، یہ وہ مہینہ ہے جس میں مؤمن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے ‘‘۔
 ( صحیح ابن خزیمہ، کتاب الصیام، باب فضائل شھر رمضان ان صح الخیر، جلد 3، صفحہ 191، مطبوعہ بیروت)
اس حدیث پاک کے تحت مرقاۃ المفاتیح میں ہے : ’’ (وشھر المواساۃ) ای المساھمۃ والمشارکۃ فی المعاش والرزق،۔۔ قالہ الطیبی: وفیہ تنبیہ علی الجود والاحسان علی جمیع افراد الانسان، لا سیما علی الفقراء والجیران‘‘
 ترجمہ : مواساۃ یعنی اپنی روزی اور رزق میں دوسروں کو حصہ دار بنانے کا مہینہ ہے، علامہ طیبی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: اس حدیث پاک میں تمام لوگوں پر سخاوت اور احسان کرنے کی ترغیب دی گئی ہے، بالخصوص فقراء اور پڑوسیوں پر ‘‘۔
(مرقاۃ المفاتیح، کتاب الصوم، جلد 4، صفحہ 397، مکتبہ رشیدیہ، کوئٹہ)
دین خیر خواہی کا نام ہے، چنانچہ صحیح مسلم میں حضرت سیدنا تمیم داری رضی اللہ عنہ سے مروی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
’’ الدین النصیحۃ، قلنا: لمن؟ قال: للہ ولکتابہ ولرسولہ ولائمۃ المسلمین وعامتھم‘‘
 ترجمہ : دین سارے کا سارا نصیحت ( خیر خواہی ) ہے، عرض کی گئی: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کس کے لئے خیر خواہی ہے؟ ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ، اسکی کتاب، اسکے رسول، آئمہ مسلمین اور عام لوگوں کیلئے ‘‘۔
( صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب بیان ان الدین النصیحۃ، جلد 1، صفحہ 54، قدیمی کتب خانہ، کراچی)
اس حدیث مبارکہ کے تحت علامہ ابن رجب حنبلی علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں:
’’
واما النصیحۃ للمسلمین، فان یحب لھم ما یحب لنفسہ، ویکرہ لھم ما یکرہ لنفسہ، ویشفق علیھم، ویرحم صغیرھم، ویوقر کبیرھم، ویحزن لحزنھم، ویفرح لفرحھم، وان ضرہ ذلک فی دنیاہ کرخص اسعارھم، وان کان فی ذلک فوات ربح ما یبیع من تجارتہ‘‘
ترجمہ: عام لوگوں کے ساتھ نصیحت ( خیر خواہی) یہ ہے کہ ان کے لئے وہی پسند کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے، اور جو اپنے لئے ناپسند ہیں ان کے لئے ناپسند کرے، ان پر نرمی کرے، چھوٹوں پر شفقت اور بڑوں کی تعظیم کرے، خوشی و غمی میں ان کا ساتھ دے اگرچہ اسے دنیوی نقصان ہو، مثلاً بھاؤ سستا کرنا اگرچہ تجارت سے ملنے والا نفع نہ ملے ‘‘۔
( جامع العلوم والحکم، الحدیث السابع: الدین النصیحۃ، جلد 1، صفحہ 222، مطبوعہ بیروت)
            معلوم ہوا کہ بھاؤ میں کمی کرنا بھی مسلمانوں کی خیر خواہی ہے، لہذا بالخصوص اس ماہِ مقدس میں اور بالعموم سارا سال ہی اس عمل خیر کو اپنانا چاہئے، البتہ اگر کوئی اپنی چیز زیادہ نفع رکھ کر بیچے تو جائز ہے، بشرطیکہ جھوٹ اور دھوکے سے کام نہ لے۔
            سیدی اعلی حضرت علیہ الرحمہ سے سوال ہوا کہ دوکاندار عموماً ہر چیز کی قیمت بڑھا کر کہتے ہیں اور پھر اس سے کم پر بیچ ڈالتے ہیں، یہ شرعاً جائز ہے یا نہیں؟ نیز ہر ایک کا چار پیسے کی چیز کا دگنی یا تین گنی قیمت پر فروخت کرنا جائز ہے؟ تو آپ علیہ الرحمہ نے جواباً ارشاد فرمایا: ’’ دونوں باتیں جائز ہیں، جبکہ جھوٹ نہ بولے، فریب نہ دے، مثلاً کہا یہ چیز تین یا چار پیسے کی میری خرید ہے اور خریدی پونے چار کو تھی، یا کہا خرچ وغیرہ ملا کر مجھے سوا چار میں پڑی ہے اور پڑی تھی پونے چار کو، یا خرید وغیرہ ٹھیک بتائے مگر مال بدل دیا یہ دھوکا ہے، یہ صورتیں حرام ہیں، ورنہ چیزوں کے مول لگانے میں کمی بیشی حرج نہیں رکھتی ‘‘۔
( فتاوی رضویہ، جلد 17، صفحہ 139، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
                                                                          واللہ تعالی اعلم ورسولہ اعلم عزوجل وصلی اللہ تعالی علیہ وسلم
کتبـــــــــــــــــــــــــــــــــہ
ابو صالح محمد قاسم القادری