اسلام نے بہن کو کیا دیا؟




اسلام سے پہلے آسمانِ دنیا نے یہ دردناک مَناظِر بھی دیکھےکہ عورت کو بُری طرح ذلیل و رُسوا کیا جاتا ،اسے مارا پیٹا جاتااور اس کے حُقُوق پر غاصِبانہ قبضہ جما لینے کوجرأت مندی و بہادری سمجھا جاتا۔ماں اوربیٹی کی طرح “بہن‘‘ کے  ساتھ بھی کوئی اچھا سُلوک نہیں کیا جاتا تھا۔ ماں باپ کی وِراثت سے تو اسے یوں بے دَخَل کر دیتے جیسے دودھ سے مکّھی کو نکال کر پھینک دیا جاتا ہے۔اِسلام نے ماں اور بیٹی کی طرح ’’بہن‘‘کو بھی وِراثت کا حق دیاکہ “اگر کوئی شخص فوت ہو اور اس کے وُرَثاء میں باپ اور اولاد نہ ہو تو سگی اور باپ شریک بہن کو وِراثت سے مال کا آدھا حصّہ ملے گاجبکہ صرف ایک ہو اور اگر دو یا دو سے زیادہ(بہنیں) ہوں تو دو تہائی حصّہ ملے گا”۔
 (صراط الجنان ،ج2، ص370)
مگرافسوس! آج اسلامی تعلیمات سے دُور بعض لوگ اپنی بہنوں کے حق پر ڈاکہ ڈالتے اور انہیں وِراثت میں ملنے والی جائیداد پر قبضہ جما لیتے ہیں،بلکہ بعض تو یہ دھمکی بھی دیتے ہیں کہ اگر حصّہ لینا ہے تو ہمارا تمہارا تعلّق خَتْم! چنانچہ’’بہن بے چاری” بھائیوں سے اپنے حق کا مُطالَبہ اس خوف  سے نہیں کرتی کہ بھائیوں کو چھوڑنا پڑے گا۔
عورتوں کے سب سے بڑے خیر خواہ،مدینے کے سلطان، رحمت عالمیان صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیہ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے بھائیوں کو بہنوں کی عزّتوں کا رَکھوالا یوں بنایا:”جس كى تىن بىٹىاں ىا تىن بہنىں ہوں ىا دو بىٹىاں ىا دو بہنىں اور اس نے ان كے ساتھ حُسنِ سُلُوك كىااور ان كے بارے مىں اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرتا رہا تو اسےجنّت ملے گى۔
 (ترمذى،ج3، ص367، حدیث:1923)
بلکہ ایک مرتبہ تو چاروں انگلیاں جوڑ کر جنّت میں رفاقت کی خوشخبری سنائی:ایسا شخص جنت میں میرے ساتھ یوں ہو گا۔
(مسند احمد،ج4، ص313، حدیث: 12594)

اسی طرح نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیہ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے بہنوں پر خَرْچ کو دوزخ سے رُکاوٹ کا یوں سبب بتایا:جس نے اپنی دو بیٹیوں یا دو بہنوں یا دو رشتہ دا ر بچیوں پر اللہ عَزَّوَجَلَّ  کی رضا کے لئے  خرچ کیایہاں تک کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ  نے انہیں اپنے فضْل سے غنی کر دیاتو وہ اُس کے لئے آگ سے پردہ ہوجائیں گی۔
(مسند احمد ،ج10،ص179، حدیث:26578ملتقطا)

بہنوں سے حُسنِ سُلُوک کی مثالیں:
نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیہ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے اپنی رَضاعِی (دودھ شریک )بہن حضرت شیماء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی  عَنہا کےساتھ یوں حُسنِ سُلُوک فرمایا: (1)اُن کےلئےقیام فرمایا(یعنی کھڑے ہوئے)(سبل الھدی والرشاد،ج5، ص333) (2)اپنی مُبارَک چادر بچھا کر اُس پر بٹھایا اور (3)یہ ارشاد فرمایا: مانگو،تمہیں عطا کیا جائے گا، سفارش کرو، تمہاری سفارش قبول کی جائے گی۔
 (دلائل النبوۃ للبیہقی،ج5، ص199،ملتقطاً)
اس مثالی کرم نوازی کے دوران آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیہ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی مُبارَک آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے، (4)یہ بھی ارشادفرمایا :اگر چاہو تو عزّت و تکریم کے ساتھ ہمارے پاس رہو،(5)واپس جانے لگیں تو نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیہ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے تین غلام اور ایک لونڈی نیز ایک یا دو اونٹ بھی عطا فرمائے،(6)جب جِعْرَانَہ میں دوبارہ انہی رَضاعی  بہن سے ملاقات ہوئی تو بھیڑ بکریاں بھی عطا فرمائیں۔
(سبل الھدی والرشاد،ج5، ص333 ملتقطا)
ہمارے پیارے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیہ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کا اپنی رَضاعی بہن سے حُسْنِ سُلُوک ہر بھائی  کویہ اِحساس دِلانے کے لیے کافی ہےکہ بہنیں کس قَدْر پیاراورحُسنِ سُلُوک کی مستحق ہیں۔ حضرت سیّدُنا جابِر بن عبداللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنہُما نےمحض اپنی  نو یا سات بہنوں کی دیکھ بھال،اُن کی کنگھی چوٹی اور اچھی تربیت کی خاطر بیوہ عورت سے نکاح کیا۔
(مسلم، ص593،594،حدیث:3641،3638)

اَلْغَرَض عورت کو ماں، بیٹی، بہن اور بیوی کی حیثیّت سے جو عزّت وعظمت،مقام ومرتبہ اور اِحتِرام اسلام نے دیا ، دنیا کے کسی قانون ،مَذہب یا تہذیب نے نہیں دیا۔اِسلام کے اس قدْر اِحسانات کے باوُجود کسی”اسلامی بہن“کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اسلامی تعلیمات کو چھوڑ کراپنے لباس،چال ڈھال،بول چال، کھانے پینے،مِلنے ملانےوغیرہ میں غیروں کے دئیے ہوئے انداز اپنائے!لہٰذاہر اسلامی بہن کو چاہئے کہ وہ اپنی زندگی اللہو رسولعَزَّوَجَلَّ وصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیہ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی اِطاعت میں گزارے۔ اس کے لئے دعوتِ اِسلامی کے مَدَنی ماحول سے وابَستہ ہوجانا بہت مفید ہے ۔