لگی روزی اور بندھا کاروبار مت چھوڑئیے


رزقِ حلال کمانے کے لئے جائز کاروبار اور اچھی نوکری کا مِل جانا اللہ عَزَّوَجَلَّ  کی نعمت ہے۔اِنسان کو چاہئے کہ اس نعمت کی قدر کرے اور اسے لازِم پکڑ لے، چنانچہ حدیثِ پاک میں ہے:مَنْ رُّزِقَ فِیْ شَیْء ٍ فَلْیَلْزَمْہُ یعنی جس کو کسی شے سے رِزق دیا جائے  وہ اُسے لازِم پکڑ لے۔ (شُعَبُ الْاِیمان،ج 2، ص89، حدیث:1241) اچھی اچھی نیّتوں کے ساتھ کاروبار میں ترقی کی خواہش کرنے میں حرَج نہیں مگر اس کے لئے بِلاوجہ اور  بغیر کسی مضبوط سبب کے  لگا بندھا جائز کاروبار یا نوکری نہ چھوڑی جائے۔ حضرتِ سَیِّدُنا نافِع رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں:میں شام اور مِصر کی طرف سامانِ تجارت بھیجا کرتا تھا، ایک بار عراق کی طرف مال بھیجنے لگا تو اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا عائشہ صِدِّیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی:اے اُمُّ المؤمنین! میں شام کی طرف مال بھیجا کرتا تھا اس بار عراق بھیج رہا  ہوں۔ فرمایا: ایسا نہ کرو !تمہیں اور تمہاری سابِقہ تجارت والی جگہ میں کیا مسئلہ ہے؟ میں نے رسولُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کو فرماتے سنا کہ جب اللہ عَزَّوَجَلَّ  تم میں سے کسی کے لئے کسی ذَریعہ سے رِزق کا سبب بنا دے تو وہ اُسے اس وقت تک  نہ چھوڑے جب تک اس میں کوئی تبدیلی یا خرابی پیدا نہ ہو۔(ابنِ ماجہ،ج3، ص11، حدیث: 2148(

اِس حدیثِ پاک کے تحت حکیمُ الاُمَّت مفتی احمد یار خان  عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان فرماتے ہیں: یعنی جب تمہیں مِصر و شام سے نفع بھی حاصل ہو رہا ہے اور تمہاری تجارت بھی وہاں چمک رہی ہے تو تم وہاں سے مُتنَفِّر کیوں ہوئے جاتے ہو؟ مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے ذَریعۂ آمدنی کو بِلاوجہ بند نہ کرے کہ اس میں رَبّ تعالیٰ کی ناشُکری ہے بلکہ اس کی نعمت کا ٹھکرانا ہے، لگی نوکری،بندھا  کاروبار بِلاوجہ مت چھوڑو۔اعلیٰ حضرت (رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالیٰ عَلَیْہ)فرماتے ہیں:جو شخص بِلاوجہ پچاس روپیہ ماہوار کی نوکری چھوڑ دے گا تو ایک دن ایسا آئے گا کہ وہ پندرہ روپے کی نوکری تلاش کرے گا پَر نہ ملے گی۔ہاں اگر قدرتی طور پر بند ہوجائے تو پرواہ نہ کرے کہ اس صورت میں رَبّ تعالیٰ اس سے بہتر دروازہ کھول دے گا۔ یہ حدیث بہت مُجَرَّب (یعنی آزمائی ہوئی ) ہے جس کا خود فقیر نے بارہا تجربہ کیا۔صوفیا فرماتے ہیں: یَکْ دَرْ گِیْر مُحْکَمْ گِیْر (یعنی ایک دروازہ پکڑ اور مضبوطی کے ساتھ پکڑ)۔(مراٰۃ المناجیح،ج4، ص240 ملتقطاً(

ملازمت یا کاروبار کب بدلنا چاہئے: اگر  کاروبار یا نوکری میں نفع نہ ہو یا نقصان ہو رہا ہو تو پھر سو چ سمجھ کر اسے بدلنے میں مضایَقہ نہیں۔حکیمُ الاُمَّت مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان فرماتے ہیں: ہر شخص اپنے مناسب طا قت تجارت کرے، قدرت نے ہر ایک کو علیٰحدہ علیٰحدہ کام کے لئے بنایا ہے۔ کسی کو غَلَّہ کی تجارت پھَلتی ہے،کسی کو کپڑے ،کسی کو لکڑی کی ، کسی کو کتابوں کی،  غرَضیکہ تجارت سے پہلے یہ خوب سو چ لو کہ میں کس قسم کی تجارت میں کامیاب ہو سکتا ہوں۔ میرا مشغلہ شروع سے ہی عِلم کا رہا ۔ مجھے بھی تجارت کا شو ق تھا کہ میں نے غَلَّہ کی مختلف تجارتیں کیں مگر ہمیشہ نقصان اُٹھایا ۔ اب کتابو ں کی تجارت کو ہاتھ لگایا۔ رَبّ تعالیٰ نے بڑا فائدہ دیا۔ معلوم ہواکہ علما اور مُدَرِّسِین کو علمی تجارت فائدہ مند ہو سکتی ہے۔(اسلامی زندگی ، ص153(