عام راستے پر کچرا پھینکنا




بسمِ اللہ الرَّحمنِ ا لرَّحِیم

الصلوۃ والسلام علیک یارسول اللہ                                                     وعلی آلک واصحبک یا حبیب اللہ

دارالافتاءاھلسنت(جامع مسجد کنزالایمان)

جامع مسجد کنزالایمان ،بابری چوک ،گرو مندر کراچی ،74800پاکستان



ریفرینس نمبر:12335                                                                                                                                                                                                                                                             تاریخ : 3-05-17

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ فی زمانہ بکثرت یہ دیکھا جاتا ہے کہ لوگ اپنے گھر کا کچرا یا کاٹھ کباڑ واضافی سامان اپنے گھر سے نکال کر گلی یا شارع عام پر رکھ دیتے ہیں جس کی وجہ سے گلی یا شارع عام سے گزرنے والوں کو تکلیف وتنگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے  لوگوں کا یہ عمل کیسا ہے؟ اسلام اس بارے میں ہماری کیا رہنمائی کرتا ہے؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب  اللھم  ھدایۃ الحق وا لصواب

راستہ سے تکلیف دہ چیز ہٹانا نیکی اور ثواب کاکام ہے بلکہ حدیث مبارک میں اسے ایمان کی ایک شاخ(خصلت )قرار دیا گیا جبکہ ایک اور حدیث مبارک میں راستہ میں بیٹھنے والوں کو فرمایا :راستہ کے حقوق ادا کرو ،اور ان میں سے ایک حق یہ بھی بیان فرمایاکہ راستہ سےتکلیف دہ چیز ہٹاؤ جب کہ اس کے برعکس مسلمانوں کے راستہ میں تکلیف دہ چیز ڈالنا ، ان پر راستہ تنگ کرنا انہیں تکلیف پہنچانا ناجائز وگناہ بلکہ اسے کبیرہ گناہوں میں شمار کیا گیا اور ایسے شخص کے بارے میں فرمایا کہ ا س پر مسلمانوں کی لعنت لازم ہوجاتی ہے۔

راستہ سے تکلیف دہ چیز ہٹانا صدقہ ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یمیط الاذی عن الطریق صدقۃ  ترجمہ:راستہ سے تکلیف دہ چیز ہٹانا صدقہ ہے۔

 (صحیح بخاری جلد 2صفحہ133مطبوعہ :بیروت)

ایک اور حدیث مبارک میں ہے: عن النبى صلى اللہ عليه وسلم قال: « عرضت على أعمال أمتى حسنها وسيئها فوجدت فى محاسن أعمالها الأذى يماط عن الطريق ووجدت فى مساوى أعمالها النخاعة تكون فى المسجد لا تدفن ». ترجمہ:رسول اﷲ صلی اللہ علیہ  وسلم نے ارشادفرمایا:مجھ پر میری امت کے اچھے برے اعمال پیش کئے گئے   تو میں نے ان کے اچھے اعمال میں تکلیف دہ چیز کاراستہ  سےدورکردینا پایا اور ان کے برے اعمال میں   اس تھوک کوپایا جومسجدمیں ہو اور اسے صاف  نہ کیا گیا۔

(صحیح مسلم جلد صفحہ204مطبوعہ: بیروت)

راستہ کے حقوق بیان کرتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: فأعطوا الطريق حقھا، قالوا :وما حق الطریق؟ قال غض البصر وكف الأذى ورد السلام وامر بالمعروف ونهي عن المنكر ترجمہ:راستہ کو اس کا حق دو  صحابہ کرام نے عرض کیا : راستہ کا کیا حق ہے ؟یارسول اللہ ! فرمایا :نگاہ نیچی رکھنا،تکلیف دہ چیز ہٹانا اور سلام کا جواب دینا اور اچھائیوں کا حکم دینا،برائیوں سے روکنا۔

(صحیح بخاری جلد2صفحہ132مطبوعہ : بیروت)

راستہ سے تکلیف دہ چیز ہٹانا ایمان کی ایک خصلت ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:(الإيمان بضع وسبعون شعبة ، فافضلھا قول لاإله إلا اللہ ، وأدناها إماطة الأذى عن الطريق) ترجمہ:ایمان کی چنداورستّر شاخیں ہیں   ان سب میں افضل یہ کہنا ہے  کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور سب سے ادنیٰ،  تکلیف دہ چیز کا راستہ سے ہٹانا ہے ۔

(صحیح مسلم صفحہ39مطبوعہ : بیروت)

راستہ سے تکلیف دہ چیز ہٹانا مغفرت کا سبب ہے جیسا کہ حدیث مبارک میں ہےان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: بینما رجل یمشی بطریق وجد غصن شوک علی الطریق فاخذہ فشکر اللہ لہ فغفرلہ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک دفعہ ایک شخص راستہ میں چل رہا تھا اس نے کانٹے دار شاخ راستہ پر پائی تو اسکو اٹھالیا اللہ تعالی نے اسکا یہ عمل قبول فرمایااور اس کو بخش دیا ۔

 (صحیح بخاری جلد 2صفحہ136مطبوعہ: بیروت)

اس حدیث مبارک کے تحت شرح ابن بطال میں ہے: وفيه: دليل أن طرح الشوك فى الطريق والحجارة والكناسة والمياه المفسدة للطرق وكل ما يؤذى الناس تخشى العقوبة عليه فى الدنيا والآخرة.یعنی اس میں اس بات پر دلیل ہے کہ راستہ میں کانٹا،پتھر،کچرا اور راستہ کو خراب کرنے والا پانی اور ہر وہ چیز جو لوگوں کو ایذا دے پھینکنے پر دنیا وآخر ت میں پکڑ کا خوف ہے۔

(شرح ابن بطال  جلد 6صفحہ600مطبوعہ : الریاض)

مسلمانوں کو ان کے راستہ میں تکلیف دینے والا مستحقِ لعنت ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: «من آذى المسلمين في طرقهم وجبت عليه لعنتهم» ''جو مسلمانوں کو ان کے کسی راستے کے معاملے ميں تکلیف ديتا ہے اس پر مسلمانوں کی لعنت لازم ہو جاتی ہے۔''

  (المعجم الکبیر،الحدیث:3050،جلد3صفحہ179)

            امام احمد بن حجر المکی الہیتمی الشافعیعلیہ الرحمہ نے اپنی کتاب الزواجر عن اقتراف الکبائر میں اس گناہ( شارع عام میں غیر شرعی تصرف )کو  گناہ کبیرہ میں شمار کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: (الكبيرة الرابعة والخامسة والسادسة عشر، بعد المائتين ) : التصرف في الطريق الغير النافذ بغير إذن أهله والتصرف في الشارع بما يضر المارة إضرارا بليغا غير سائغ شرعا ، والتصرف في الجدار المشترك بغير إذن شريكه بما لا يحتمل عادة عند من قال بحرمة ذلك .وذكري لهذه الثلاثة معلوم من كلامهم وإن لم يصرحوا به لأن كل ذلك يرجع إلى أذية الناس الأذية البالغة والاستيلاء على حقوقهم تعديا وظلما ، ولا شك أن كلا من هذين الأمرين العامين أعني الأذية والاستيلاء المذكورين يشمل هذه الثلاثة وغيرها فذكرها إنما هو تصريح بما علم من كلامهم كما تقررترجمہ: کبيرہ نمبر214: کسی راستے ميں بلااجازتِ مالک تصرف کرنایعنی ايسا راستہ جسے مالک نے اپنی ملکیت سے الگ نہ کیا ہو۔کبيرہ نمبر215:    شارع عام ميں غيرشرعی تصرف کرنایعنی ایساتصرف کرنا جس سے گزرنے والوں کو سخت نقصان پہنچے۔کبيرہ نمبر216:     قائلین حرمت کے نزديک مشترکہ ديوارميں بلااجازتِ شریک تصرف کرنایعنی ايسا تصرف کرنا جسے عادۃًبرداشت نہ کيا جاتا ہو۔    ان تینوں کو کبيرہ گناہوں ميں شمار کرنا علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کے کلام سے ظاہر ہے مگر انہوں نے ان کے کبيرہ گناہ ہونے کی صراحت نہيں کی کيونکہ ان ميں سے ہر ايک ميں لوگوں کی ايذا رسانی اور ان کے حقوق کو ظلم و تعدی کی بناء پر دبانا پايا جاتا ہے، اور بلاشبہ يہ دونوں باتيں يعنی ايذارسانی اور حق تلفی ان تینوں کو شامل ہے، لہذا اسے علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کے کلام سے سمجھی جانے والی تصريح کی بناء پر کبيرہ گناہ کہا گيا ہے۔

(الزواجر عن اقتراف الکبائر  جلد 1صفحہ 430مطبوعہ: بیروت)

            اسلام میں راستہ کے حقوق کا اتنا خیال رکھا گیا ہے کہ جو شخص راستہ پر خرید وفروخت کرے اور اسکی وجہ سے راستہ تنگ ہو تو اس شخص سے خرید و فروخت کرنے سے بھی منع کیا گیا کہ ایسی صورت میں اس سے خریدنا گناہ پر مدد کرنا ہے کیونکہ جب کوئی خریدے گا نہیں تو وہ راستہ میں بیٹھے گا بھی نہیں ۔

چنانچہ فتاوی عالمگیری میں ہے:من يبيع ويشتري على الطريق ولم يضر قعوده للناس لسعة الطريق لا بأس به وإن أضر بهم فالمختار أنه لا يشترى منه لأنه إذا لم يجد مشتريا لا يقعد فكان الشراء منه إعانة على المعصية كذا في الغياثية

(فتاوی عالمگیری جلد 3صفحہ210 مطبوعہ:بیروت)

صدر الشریعہ بدر الطریقہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں:جو شخص راستہ پر خریدوفروخت کرتا ہے اگر راستہ کشادہ ہے کہ اس کے بیٹھنے سے راہ گیر وں پر تنگی نہیں ہوتی تو حرج نہیں اور اگر گزرنے والوں کو اس کی وجہ سے تکلیف ہوجائے تو اُس سے سودا خریدنا نہ چاہیے کہ گناہ پر مدد دینا ہے کیونکہ جب کوئی خریدے گا نہیں تو وہ بیٹھے گا کیوں۔

(بہار شریعت جلد دوم حصہ 11صفحہ 726مطبوعہ : مکتبۃ المدینہ ،کراچی)

احادیث مبارکہ واحکامِ شرعیہ کی روشنی میں صورتِ مسئولہ کا حکم واضح ہے کہ راستہ میں تکلیف دہ چیز ڈالنا یا ایسا تصرف کرنا جس سے گزرنے والوں کو سخت نقصان پہنچے ناجائز وحرام اور گناہ کبیرہ ہے،ایسا کرنے والوں پر اللہ عزوجل کی بارگاہ میں سچی توبہ کے ساتھ ساتھ راستہ کو اپنے ان ناجائز تصرفات سے پاک کرنا بھی فورا لازم ہے حتی کہ اگر کوئی شخص ان سے ٹکرا کر گر کر مرگیا تو راستہ میں یہ کچرا کوڑا ڈالنےوالا ضامن ہوگا۔

چنانچہ بہار شریعت میں ہے " کوڑا جمع کر کے اکٹھا کر دیا جس سے ٹکرا کر کوئی گرا اور مر گیا تو کوڑا ڈالنے والا ضامن ہوگا۔ "

 ( بہار شریعت ، جلد 3 ، صفحہ 872 ، مکتبۃ المدینہ ، کراچی )

مذکورہ بالا فقہی احکام کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر ہم اپنے گرد و پیش کا جائز ہ لیں تو انفرادی و اجتماعی زندگی میں اس کی بے شمار مثالیں اور نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں ۔راستہ میں جگہ جگہ کوڑے کرکٹ کے ڈھیر ،اکھڑی سٹرکیں ،کھلے گٹر ،گندے پانی سے بھری گلیاں  ،لٹکتے تار،  لائنیں ڈالنے ،نکالنے اور مرمت کرنے کیلئے کھودکر غفلت سے چھوڑدئیےگئے گڑھے متعلقہ افرادکے ظلم و زیادتی کی منہ بولتی دلیلیں ہیں، کاش کہ ہم  اپنی ذمہ داریوں کی کما حقہ ادائیگی کرتے ہوئے راستہ سے  تکلیف دہ چیز دور کریں اور احادیث مبارکہ کے مطابق صدقہ کا ثواب حاصل کریں اور اپنے لئے مغفرت کے سامان کا اہتمام بھی کریں جب کہ اس کے برعکس اپنی ذمہ داریوں سے لاپرواہی برتنے کی صورت میں اگر کوئی شخص دنیا میں قانونی سطح پر پکڑسے بچ بھی جائے تو بھی یہ ضرور یاد رکھے کہ آخرت میں جوابدہ ہونا پڑے گااورحقوق العباد کی حق تلفی کی صورت میں اولا اپنے نیک اعمال دے کر  اور اسکے بعد دوسروں کے گناہ اپنے سر لے کر بھی ان حقوق کی ادائیگی کرنی ہوگی ۔

جیسا کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشادفرمایا :کیا تم جانتے ہو کہ مفلس و کنگال کون ہے ؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ ہم میں مفلس وہ ہے کہ جس کے پاس نہ درہم ہوں نہ سامان ،تو فرمایا :میری امت میں مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن نماز روزے زکوۃ لے کر آیا  اور یوں آئے کہ اسے گالی دی،اسے تہمت لگائی ،اس کا مال کھایا،اس کا خون بہایا،اسے مارا  تو اس کی نیکیوں میں سے کچھ اس مظلوم کو دے دی جائیں اور کچھ اس مظلوم کو پھر اگر اس کے ذمہ حقوق کی ادائیگی سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہوجائیں تو ان مظلوموں کی خطائیں لے کر اس ظالم پر ڈال دی جائیں پھر اسے آگ میں پھینک دیا جائے۔

(صحیح مسلم صفحہ 1000مطبوعہ بیروت)

یونہی اپنے گھروں وغیرہ  کے معاملات میں بھی یہ دیکھا گیا ہے کہ تعمیرات کے نام پر ملبہ ،سریا ،ریت بجری ،ٹوٹا پھوٹا سامان مہینوں روڈ یا فٹ پاتھ پر بکھرا پڑا رہتا ہے ، جس کی وجہ سے شارع عام لوگوں کیلئے تنگ ہوجاتی ہےاورگزرنے والوں کو  تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے  او رافسوس کی بات یہ ہے کہ حقوق العباد سے غفلت اور گزرنے والوں کو تکلیف دینے کی یہی صورتیں  مساجد و مدارس کی تعمیرات کے وقت بھی نظر آتی ہے، وہی روڈاور فٹ پاتھ پر کچرا پھینکنا، گزرنے والوں کا تنگ ہونا، گندگی کا پھیلنا، سریا، سیمنٹ بجری اور ملبے کا مہینوں بکھرا پڑے رہنا سب ویسے کا ویسے ہی ہے۔

یونہی مارکیٹوں میں بھی بد نظمی عروج پر ہو تی ہے ،دوسرے لوگوں کا لحاظ کئے بغیر ہر فرد بیچ روڈپرگاڑی کھڑی کرکےاپنی سہولت کے مطابق اپنا سامان لوڈ ،اَن لوڈ کرنے میں مصروف ہو تا ہے،انتظامیہ اگر چاہے تو لوگوں کو تکلیف پہنچائے  بغیر بھی یہ سب کام ہو سکتے ہیں ،لیکن  ایسا محسوس ہو تا ہے،دینی جذبہ رکھنے والے لوگوں میں بھی اس درد کو سمجھنے والے کم ہو تے جارہے ہیں ۔

کاش کہ متعلقہ افراد ان چیزوں کو درست کرنے کی کوشش کریں اور بے ہنگم اور اذیت ناک ماحول سے لوگوں کو نجات دلانے کی کوشش کریں اور یونہی محراب و منبر سے بھی ان مسائل پر آواز اٹھائی جائے اور عقائد و عبادات اور حلال و حرام کے احکام سکھانے کے ساتھ ساتھ قرآن و سنت، اسوہ حسنہ اور سلف صالحین کی سیرتوں کی روشنی میں حقوق العباد پر لوگوں کو وعظ و نصیحت کی جائے   لیکن مجموعی صورت ِ حال سے یوں لگتا ہے کہ شاید  ہر شخص یہی سوچتا ہے کہ یہ مسئلہ میرے متعلق نہیں بلکہ کسی اور کو سمجھایا جارہا ہے۔دینی اداروں کی انتظامیہ  کو بھی یہ درد سمجھنا ہو گا اور اس گناہ سے خود عملی طور پر بچ کر دوسروں کو بچانا ہو گا۔

اللہ تعالیٰ ہمیں مسلمانوں کے کما حقہ حقوق ادا کرنے کی توفیق ،جذبہ اور حقیقی سوچ عطافرمائے ۔آمین

واللہ ورسولہ اعلم عزوجل وصلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم

الجواب صحیح                                                  کتبـــــــــــــــــــــــــــہ
 ابو الصالح محمد قاسم القادری                                                                                                                                                                                    ابو مصطفی محمد کفیل رضا عطاری المدنی



06شعبان المعظم 1438 ھ/03مئی 2017 ء