امیر اہل سنت سے علمائے عرب کی ملاقات


امیر اہل سنت سے علمائے عرب کی ملاقات ۔۔۔۔۔ وہاں کیا ایمان افروز باتیں ہوئیں۔۔۔
از ابومحمد مفتی علی اصغر عطاری المدنی  مدظلہ العالی
 ابھی  کچھ دیر قبل ہی گھر واپسی ہوئی ہے قبلہ شیخ طریقت امیر اہل سنت حضرت مولانا محمد الیاس عطار قادری دامت برکاتہم العالیہ نے علمائے عرب کی دعوت کی ہوئی تھی
صوفی کانفرس میں شریک ہونے والے علمائے عرب مہمان تھے
جوکچھ وہاں ہوا اس کے اثرات قلب پر غلبہ کیے ہوئے ہیں سوچا کچھ نہ کچھ لکھ کر ہی سوُؤں گا۔
اہل تصوف کی محفل تھی باہم ادب بھی دیکھنے کو ملا اورہیرے کی قدر جوہری ہی جانتا ہے اس کا عملی نمونہ بھی آنکھوں سے دیکھا۔
دل کی یہ کیفیت ہے کہ جھوم کر باہر آنا چاہتا ہے۔
شیخ المشائخ عبد العزیز الخطیب، "دمشق" سے آئے ہوئے ہیں، سو،100 سے زائد کتب کے مصنف ہیں۔
انہوں نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے قیامت کے دن اگر پوچھا کہ کیا کسی نیک آدمی کی صحبت میں کوئی وقت گزارا؟ تومیں عرض کروں گا کہ ہاں میں نے الیاس قادری کی خدمت میں کچھ وقت گزارا ہے۔
شیخ ناصر  الحوت جو کہ دنیائے عرب کے خطیب اعظم مانے جاتے ہیں، "حلب" ملک شام سے تعلق ہے۔
آپ نے فرمایا کہ کچھ لوگ تنہا ہوتے ہیں لیکن وہ جماعت پر بھاری ہوتے ہیں انہوں نے چند آیات پڑھ کر اس محاورہ کی تائید کی اور فرمایا کہ شیخ الیاس قادری ایسے ہی ایک فرد ہیں جو ایک شخص نہیں بلکہ ایک پہچان کا نام ہے
لبنان سے آئے ہوئے مفتی شیخ ریاض بازو، نے فرمایا
کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ زبان بند ہوتی ہے لیکن آنکھوں ہی آنکھوں میں بات ہو رہی ہوتی لیکن شیخ جن کےپاس ہم آکر خاموش بیٹھے ہیں یہاں ہماری آنکھیں بھی بند ہیں اور زبان بھی لیکن دل اور روح ان سے باتیں کر رہے ہیں کہ  شیخ ہوتا ہی وہ ہے جو قال سے حال میں پہنچا دے۔
بغداد شریف سے آئے ہوئےغوث پاک رضی اللہ تعالی عنہ کی مسجد کے خطیب عراقی پارلیمنٹ کے ممبر شیخ جراد نے کہا کہ میری خوش قسمتی ہے کہ میں آج شیخ کی خدمت میں موجود ہوں۔ مزید فرمایا کہ میرے گھر پر سب سے زیادہ  تیسرے نمبر پر چلنے والا چینل مدنی چینل ہے باوجود یہ کہ اردو سمجھ نہیں آتی لیکن ہم اس کو دیکھتے رہتے ہیں۔
مصر دار الافتاء ازہر سے وابستہ مفتی مصطفی زغلول شافعی قادری نے فرمایا کہ تصوف کی ت کا مطلب ہے تکشف یعنی کشف اور اس کا ادراک ہمیں اس محفل میں ہو رہا ہے فرمایا کہ امیر اہل سنت نے اپنے آپ کو چھپا کر رکھا ہوا ہے  شیخ مصطفی نے آخر میں امیر اہل سنت کا ہاتھ پکڑ کر مسلسل غوث پاک کی  بارگاہ میں استغاثہ کرتے رہے۔
کینیا سے آئے شیخ فیصل محمود جو خود بڑے صوفی رہنما ہیں لیکن عجب رنگ میں تھے فرمایا، میرے والد محترم مسلسل آپ کو مدنی چینل پر دیکھتے رہتے ہیں باوجود یہ کہ ان کو اردو نہیں آتی لیکن آپ کو دیکھ کر بہت خوش ہوتے ہیں امیر اہل سنت کو پانی دے کر کہا آپ اس میں سےکچھ پی کر مجھے اپنا بچا ہوا پانی دیجئے۔
بقایا بھی بہت کچھ عرفاء کی اس محفل سے سیکھنے اور سننے کو ملا یہ محفل اہل حال کی محفل تھی، کچھ چیزوں کی تو کوئی سمجھ ہی نہیں آئی کہ کیا ہوا؟ جیسے شیخ عبد العزیر جاتے جاتے واپس آئے امیر اہل سنت کے ہاتھ پر خود بھی ہاتھ رکھا دیگر عرب سے آئے مہمانوں کا ہاتھ بھی اس انداز سے رکھا جس طرح بیعت کرتے وقت رکھا جاتا ہے، یوں دس بارہ افراد بیعت کی طرح ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر  کچھ دیر کھڑے رہے لیکن امیر اہل سنت کے لبوں سے وہ آواز میں نہ سن سکا  حالانکہ میں بہت قریب کھڑا تھا جو بیعت کرواتے وقت آپ کہا کرتے ہیں، کیا ہوا؟ کیوں ہوا؟ کوئی خبر نہیں۔
واپسی پر مہمان جانے لگے تو دل کہہ رہا تھا یہ سب دیکھ کر باہر جانےکی کیا حاجت ہے؟ یہیں قدموں پر نثار ہونے کا موقع ہے، آج ایسی نورانی محفل کے بعد مرشد سے دور جانا کوئی بہتر کام نہیں، لیکن جذبات جذبات ہی ہوتے ہیں ، مہمانوں کو رخصت بھی تو کرنا تھا، سو باہر جانا پڑا اور باہر تو ویسے بھی جانا ہی پڑتا جب صاحب بیت کے آرام کا خیال دل میں آتا تو کوئی چارہ ہی نہ بچتا باہر آئے بغیر۔
راستے بھر سوچتا رہا ،وہ لوگ جو امیر اہل سنت سے پہلی دفعہ ملے جن کے ہزاروں مریدین و تلامذہ ہیں، جس دنیا کے مختلف علاقوں سے آئے ہیں، ان میں سے اکثر علماء ہیں بلکہ پی ایچ ڈی ہیں، مختلف دینی  علوم کے ماہر ہیں۔ اول تو وہ محفل میں خاص ادب سے خاموش بیٹھے رہے، امیر اہل سنت سے دعا کروائی پھر کسی کے کہے بغیر از خود تاثرات بیان کرنا شروع کیے۔
ان کی زبانی ایسی ایمان افروز باتیں سن کر اپنے مرشد کریم کی شخصیت کی محبت سے دل و دماغ روشن ہو گئے۔ الحمد للہ رب العالمین
 شعبان المعظم 1438 بمطابق 3 مئی 2017