وہ کبھی دوڑتا ہوا باہر جاتا کبھی دوڑتا ہوا اندر آتا ۔ وہ
پچھلے دو گھنٹوں سے اسی صورت ِ حال سے دو
چار تھا ۔ وہ ڈاکٹرز کے کہنے کے مطابق
دوائیاں لاتا جا رہا تھا ۔
یوں باہر اور اندر کے چکر لگا لگا کر اس کا سانس پھولا جا رہا تھا مگر اسے اپنے سانس کی پرواہ نہیں تھی ،اپنی تھکن کی پرواہ نہیں تھی بلکہ وہ تو اس سے بڑھ کر اور بھی بہت کچھ کر
سکتا تھا کیونکہ آج اسے ایک اور خوشی
ملنے جا رہی تھی ، اس کے ہاں تیسرے مہمان کی آمد تھی ۔
مگرکوئی بات تھی جس کی وجہ سے وہ اتنی خوشی کے باوجود کبھی کبھی با لکل سنجیدہ ہو جاتا مگر پھر جیسے اپنے آپ کو سنبھا لتے ہوئے دوبارہ خوش دکھنے کی کوشش کرتا اور کسی حد تک اس کوشش میں کامیاب بھی ہو جاتا
۔
چند گھنٹے مزید گزرنے کے بعد
ڈاکٹر ز کی طرف سے اسے ایک خوشخبری سنائی گئی کہ بچے کی ماں بالکل خیریت سے
ہے اور اللہ نے آپ کو بیٹی سے نوازا
ہے ۔بیٹی!۔۔۔۔۔۔بیٹی!اور پھر۔۔۔۔۔۔بیٹی،
یہ سنتے ہی جیسے اسے سخت دھچکا لگا ۔ اس
نے ایسے چپ سادھ لی جیسے کسی طوفان سے
پہلے کا سکوت ہو ۔
وارڈ بوائے اور دیگر عملہ اس سے مٹھائی کا تقاضا کرنے لگا وہ مٹھائی لینے گیا ،تھوڑی دیر میں واپس
آیا اور سب کو مٹھائی کھلانے لگا
۔ اسی دوران آپریشن تھیٹر کا
دروازہ کھلا اور زچّہ و بچہ کو ان کے روم
میں پہنچانے کے لیے باہر نکالا گیا عورت اب تک تقریباً بے ہوش تھی ۔عورت کو دیکھتے ہی اسے نہ جانے کیا ہوا کہ
مٹھائی کا ڈبہ دور پھینکا اور عورت کو
مارنے پیٹنے لگا ۔ وہ کسی جلاد کی طرح اسے جھنجوڑ رہا تھا اور کہتا
تھا کہ میں اسے نہیں چھوڑوں گا تیسری دفع
بھی بیٹی پیدا کی ہے ،مجھے بیٹا چاہیے تھا ۔ اس سے بہتر ہے یہ مر جائے ،جب بیٹا پیدا نہیں کر سکتی تو
اس کے جینے کا کوئی فائدہ نہیں ۔ آس پاس کے لوگوں نے بیچ میں پڑ کر اس عورت کی جان بچائی ورنہ وہ تو اسے مارنے کے در پے
تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیٹی کی پیدائش پر کوئی اس حد تک ہوش کھو بیٹھے گا ۔۔۔۔
سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا مگر یہ منظر چشمِ فلق نے دیکھا کہ ایک باپ ہوتے
ہوئے بھی وہ اپنا ضبط توڑ بیٹھا ۔
آخر
وہ کون سی باتیں ہیں جو ایک باپ کو بیٹی کے متعلق اتنا پریشان کر دیتی ہیں ۔
آخر اس کا یا اس جیسے ہونے والے دیگر
واقعات کے پیچھے کون سے عوامل ہوتے ہیں
ایک انسان کو اس حد تک گرا دیتے ہیں ۔
ہمیں اپنے معاشرے کی
روش کو تبدیل کرنا ہو گا ۔ اس
میں پنپنے والی ان غیر شرعی اور غیر اخلاقی رسومات کو ختم کرنا ہو گا کہ جن کی نتیجے میں ہمارا معاشرہ ایک بیٹی کے لیے مشکل
سے مشکل تر بنتا چلا جا رہا ہے ۔
ہمیں ان تمام
مسائل کو سلجھانا ہو گا جن کی وجہ سے ہر بیٹی
کا باپ ایک غیر فطری اور
انجانےخوف سے ہمہ وقت دو چار رہتا ہے ۔
اور اگر ہم واقعی سنجیدگی
سے اپنے معاشرے کو عورت سمیت سب کے لیے محفوظ بنانا چاہتے ہیں تو اس کا سب
سے بہترین حل یہ ہے کہ ہم اپنے معاملات کو
اسلام اور اس کے احکامات کے تابع کر لیں ۔
کیونکہ اسلام ہی وہ خوبصورت مذہب ہے جس کے نظام میں ہر کسی کی عزت آبرو ،جان مال محفوظ ہیں ۔ اسلام نے ہی عورت کو عزت عطا کی ، اسلام بیٹی
اور اس کی پرورش کرنے والے کے فضائل سناتا
ہے چنانچہ حضور صلی اللہ تعالی علیہ
وآلہ وسلم نے فرمایا :ـ
جس شخص کی دو یا تین بیٹیاں ہوں اور وہ ان کی اچھے انداز سے
پرورش کرے تو میں اور وہ شخص جنت میں اس طرح داخل ہونگے جس طرح یہ دونوں انگلیاں
ملی ہوئی ہیں ۔
(
ترمذی ۔
باب ما جاء فی النفقہ علی البنات و الاخوات حدیث:1913 (
ایک اور مقام پر فرمایا :ـ
جس شخص پر لڑکیوں کی پرورش اور
دیکھ بھال کی ذمہ داری ہو اور وہ اس کو صبر وتحمل سے انجام دے تو یہ لڑکیاں اس کے
لئے جہنم سے آڑ بن جائیں گی ۔
(ترمذی ۔
باب ما جاء فی النفقہ علی البنات و الاخوات حدیث:1914 (