قرض دار

 بنی اسرئیل میں ایک  شخص کو ایک  ہزار  اشرفیوں  کی ضرورت پڑی  تو وہ کسی کے پاس گیا اور اس کو کہا مجھے ہزار اشرفیوں کی ضرورت ہے مجھے قرض دے دو   ۔  اس نے کہا کہ قرض تو دےدوں گا مگر کوئی گواہ لاؤ جس کے سامنے میں تمہیں دوں  تا کہ واپس بھی لے سکوں۔
                              اِس شخص نے کہا کہ   اللہ کا گواہ ہونا کافی ہے ۔ قرض دینے والے نے کہا  کہ  چلو کوئی ایسا شخص ہی لے آؤ  جو تمہاری ضمانت لے سکے  ۔ تو اس  نے کہا کہ ضمانت کے لیے بھی اللہ ہی کافی ہے ۔  قرض دینے والے نے کہا کہ   آپ نے ٹھیک کہا کہ ضمانت کے لیے  خدا ہی کافی ہے ۔  یہ کہہ کر اس نے ہزار اشرفیاں اس کو دے دیں اور بولا کہ خدا کو ضامن بناتے ہوئے یہ اشرفیا ں آپ کو دے رہا ہوں اور فلاں  تاریخ کو مجھے واپس کر دینا  ۔
                          وہ شخص وہ اشرفیاں لے کر  کمانے کے غرض سے سمندر پار چلا گیا ۔ جب   مدت پوری ہونے کے قریب آئی تو وہ شخص قرض واپس کرنے کے لیے سمندر پر آ گیا اور کسی جہاز کا انتظار کرنے لگا ۔مگر کوئی جہاز اسے نہ مل سکا  ۔  ادھر جہاز ملنے کے کوئی آثار نہیں تھے اور ادھر  مدت پوری ہوتی جا  رہی تھی ۔ 
                                  جب اس شخص کو کوئی  حل نہ ملا تو اس نے ایک لکڑی لی اس میں سوراخ کر کے  اس میں اشرفیاں ڈال دیں اورساتھ ہی قرض دینے والے کے نام ایک خط لکھ کر اس میں ڈال  دیا اور  سوراخ کو اچھی طرح  بند کر کے اس لکڑی کو سمندر میں ڈال دیا اور کہا  ’’ اے اللہ تو جانتا ہے کہ میں نے تیری ضمانت پر فلاں شخص سے یہ اشرفیاں لی تھیں اور وہ شخص تیری ضمانت پر دینے کو راضی ہو گیا تھا ۔ اب چونکہ مدت پوری ہو گئی ہے  اور کوئی جہاز نہیں مل رہا   کہ میں اس کا قرض واپس کر سکوں ۔ اب میں یہ امانت تیرے سپرد کرتا ہوں تو  یہ اشرفیاں اس شخص تک پہنچا دے ‘‘ یہ کہہ کر اس نے وہ لکڑی سمندر میں بہا دی اور خود واپس چلا گیا ۔
                                  ادھر وہ قرض دینے والا اس امید پر  ساحل تک آیا کہ شاید وہ سوداگر  اس کا قرض لیکر  آیا ہو ۔  اس نے دیکھا کہ یہاں کوئی جہاز تو نہیں ہے  مگر ایک لکڑی بہتی ہوئی آ رہی ہے ۔ جب وہ لکڑی کنارے تک آ لگی تو وہ اسے اٹھا کر  جلانے کی خاطر گھر لے آیا ۔ جب اسے کاٹا تو اس میں سے ایک ہزار  اشرفیاں اور ایک خط نکلا  جو اسی کے نام تھا۔
                      ایک مدت کے بعد جب وہ سوداگر  واپس آیا تو  یہ سوچ کر کہ پتہ نہیں وہ  لکڑی اس کو ملی بھی ہو گی یا نہیں  وہ ایک ہزار اشرفیاں لیکر اس قرض دینے والے کے گھر گیا  اور اسے بولا کہ  خدا کی قسم  میں تمہارا قرض لیکر  ساحل تک آیا مگر مجھے کوئی جہاز نہیں ملا ۔اب میں آیا ہوں تو یہ لواپنا قرض  ۔
                                                             قرض دینے والے نے پوچھا کہ پہلے یہ بتاؤ کہ تم نے کوئی ایک ہزار اشرفیاں اور خط میری طرف بھیجا تھا ؟ وہ بولا کہ جب مجھے  کوئی جہاز نہ ملا تو  میں نے ایک لکڑی میں سوراخ کر کے اس میں خط اور اشرفیاں رکھ کر اللہ کے سپرد کر دیا تھا  کہ وہ آپ تک پہنچا دے ۔
                             قرض دینے والا بولا : تو سن لو کہ وہ لکڑی مجھ تک پہنچ گئی تھی  اور میرا  سب مال مجھے مل چکا ہے ۔  اب تم یہ اشرفیاں واپس لے جاؤ ۔ ( صحیح بخاری ؛  حدیث : 2291(

  نتیجہ نیت صاف منزل آسان۔  معلوم ہوا کہ دینے والے کی نیت درست ہو تو اللہ تعالیٰ کوئی نہ کوئی سبب پیدا فرما دیتا  ہے ۔اللہ تعالیٰ ہمیں آسانیاں عطا فرمائے اور اگر مجبوراً کبھی قرض لینا بھی پڑ جائے تو  اپنے وقت  پر اتار دینے کی ہمت اور توفیق عطا ء فرمائے ۔ ۔۔ آمین ۔