حضرت سیدنا اویس قرنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا آخری وقت - قسط نمبر 1


ایک بزرگ  فرماتے ہیں کہ ہم عراق سے  مکہ ، مدینہ جانے کے لیے نکلے ۔ ہمارے قافلے میں بہت سے لوگ تھے ۔ جیسے ہی ہم عراق سے نکلے تو ایک عراقی شخص بھی ہمارے ساتھ چل پڑا۔اس کا گندمی رنگ کثرتِ عبادت کی وجہ سے پیلا پڑچکا تھا ۔ اس نے مختلف چیتھڑوں سے بنا ہوا پرانا لباس پہن رکھا تھا۔اسکے ہاتھ میں ایک عصا (لاٹھی) اور ایک تھیلی جس میں تھوڑا ساتوشہ(کھانے پینے کا کچھ سامان) تھا۔دراصل یہ عراقی شخص مشہور عاشق رسول  خیرالتابعین حضرت سیدنااویس قرنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے، قافلے والے انہیں اس حالت میں دیکھ کر پہچان نہ پائے بلکہ ان کی ظاہری حالت  دیکھتے ہوئے کہنے لگے:'' ایسا لگتا ہے تم کوئی غلام ہو؟''حضرتِ سیِّدُنا اویس قرنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عاجزی کرتے ہوئے  فرمایا:'' ہاں میں ایک غلام ہوں۔'' لوگوں نے کہا :''ہمارا گمان ہے کہ تم اپنے آقا سے بھاگے ہوئے ایک  بُرے غلام ہو ۔''آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:'' ہاں، ایسا ہی ہے ۔''لوگو ں نے کہا :''اپنے آقا سے بھاگنے پر دیکھو تمہاری کیا حالت ہوئی  ہے۔اگر تم نہ بھاگتےتو تم اس حال کو نہ پہنچتے ،بے شک تم بہت برے اور خطاکار غلام ہو۔''
 آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پھر عاجزی کرتے ہوئے  فرمایا:'' بے شک اللہ عزوجل کی قسم! میں ایک گنہگار غلام ہوں ،میرا آقا بہت ہی اچھا ہے اور غلطی میری ہی ہے اگر میں اسکی اطاعت کرتا اور اسکی رضا کا طالب رہتا تو میری یہ حالت ہرگز نہ ہوتی۔''
    یہ کہہ کر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رونے لگے اور اتنا روئے کہ قریب تھا کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روح پرواز کر جاتی۔لوگو ں کوبڑا تر س آیا،
لوگ تو آقا سے مراد دنیوی آقا سمجھ رہے تھے جبکہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  تو اللہ عزوجل کے ولی تھے اور آقا سے مراد اللہ عزوجل کی ذات کو لیاتھا ۔ قافلے والوں میں سے ایک شخص  کہنےلگا :''ڈرو مت !میں تمہارے لئے تمہارے آقا سے اَمان لے لوں گا ، تم اس کی طرف لوٹ کررجوع کر لو۔'' تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:'' میں اس کی طرف رجوع کرتا ہوں اور ا س کے انعامات کا طالب ہوں ۔''

حضرتِ سیِّدُنا اویس قرنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضہ پر انور کی زیارت کیلئے اس قافلے میں شامل ہوئے تھے۔ اُسی دن قافلہ اپنی منزل کی طرف چل پڑا اور تیزی سے سفر کرنے لگا۔ رات کو جب قافلے نے ایک پتھریلی جگہ پرپڑاؤ کیا ،تو بارش ہونے کے ساتھ ساتھ سخت سردی بھی ہوگئی۔  لوگ سردی سے بچنے کے لئے اپنے کجاووں  اور خیموں میں دبک گئے لیکن افسوس حضرت ِ سیدنا اویس قرنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس نہ کجاوہ تھا ،نہ خیمہ اورنہ ہی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کسی سے کچھ مانگا۔'' کیونکہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ بات ناپسند تھی کہ آپ مخلوق سے مانگیں بلکہ راضی برضائے مولا کے مصداق سخت سردی میں ٹھٹھرتے رہے۔


(جاری ہے ۔۔۔ قسط نمبر 2 آپ اگلے آرٹیکل میں ملاحظہ فرماسکیں گے ۔)