حضرت اویس قرنی رحمہ اللہ تعالیٰ

 حضرت  اسیر بن جابر رحمہ اللہ  فرماتے  ہیں:  " جب بھی یمن  کی طرف سے  قبائل حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آتے توحضرت  عمر رضی اللہ  عنہ  ان سے پوچھتے: "کیا تم میں اویس بن عامر ہے؟"
              ایک دن اویس بن عامر خود بھی حاضر ہوئے ، تو عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا:  "تم اویس بن عامر  ہو؟" انہوں نے کہا: "جی ہاں میں ہی ہوں "
                   پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا:  "قرن قبیلے کی شاخ مراد سے ہو ؟" انہوں نے کہا:  ’’جی ہاں‘‘  پھر حضرت  عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا : "تمہیں برص کی بیماری لاحق تھی، جو اب ختم ہوچکی ہے، صرف ایک درہم  کے برابر جگہ باقی ہے؟" انہوں نے عرض کی : " جی ہاں
پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا:  "تمہاری والدہ حیات  ہیں؟" انہوں نے کہا: " جی ہاں "
                        پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں حدیث نبوی ﷺ سنائی کہ: "میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ’’ تمہارے پاس  یمن کے حلیف قبائل کے ساتھ  اویس بن عامر آئے گا، اس کا تعلق قرن قبیلے کی شاخ مراد سے ہوگا، اسے برص کی بیماری لاحق تھی، جو کہ ختم ہو چکی ہے، صرف ایک درہم  کے برابر باقی ہے،  وہ اپنی والدہ کیساتھ نہایت نیک سلوک کرتا ہے، اگر اللہ تعالی پر  قسم  بھی کھالے تو اللہ تعالی اس کی قسم پوری فرما دے گا، چنانچہ اگر  تم اس سے اپنے لیے استغفار کروا سکو ،تو  لازمی کروانا ‘‘
لہذا اب آپ میرے لیے مغفرت کی دعا کر یں، تو انہوں نے  حضرت عمر رضی اللہ عنہ کیلئے مغفرت کی دعا فرمائی ۔
پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے دریافت کیا: "آپ کہاں جانا چاہتے ہیں؟ "
انہوں نے کہا: "میں کوفہ جانا چاہتا ہوں " ۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "میں کوفہ کے گورنر کے نام خط نہ لکھ دوں ؟ آپ اس کی مہمان نوازی میں رہو گے۔
تو انہوں نے کہا: "میں گم نام  رہوں  تو مجھے زیادہ اچھا لگے گا"
  راوی کہتے ہیں: جب آئندہ سال  حج کے موقع پر  انکے قبیلے کا سردار آیا  اور اس کی ملاقات حضرت  عمر رضی اللہ عنہ سے ہوئی ، تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے اویس قرنی رحمہ اللہ تعالیٰ  کے بارے میں معلوم  کیا، تو اس نے جواب دیا کہ:  "میں اسے خستہ حالی  اور ناداری کی حالت میں چھوڑ کر آیا ہوں۔ "
                       تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے بھی حدیث نبوی ﷺ سنائی کہ : "میں نے رسول اللہ ﷺ کو سنا ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’ تمہارے پاس  یمن کے حلیف قبائل کے ساتھ  اویس بن عامر آئے گا، اس کا تعلق قرن قبیلے کی شاخ مراد سے ہوگا، اسے برص کی بیماری لاحق تھی، جو کہ ختم ہو چکی ہے، صرف ایک درہم  کے برابر باقی ہے،  وہ اپنی والدہ کیساتھ نہایت نیک سلوک کرتا ہے، اگر اللہ تعالی پر  قسم  بھی اٹھالے تو اللہ تعالی اس کی قسم پوری فرما دے گا، چنانچہ اگر  تم اس سے اپنے لیے استغفار کروا سکو ،تو  لازمی کروانا ‘‘
یہ آدمی بھی واپس جب اویس قرنی رحمہ اللہ تعالیٰ  کے پاس آیا تو ان سے کہا: "میرے لیے دعائے استغفار کر دو۔ "
اویس قرنی رحمہ اللہ تعالیٰ  نے کہا: "تم  ابھی نیک سفر سے آئے ہو تم میرے لیے استغفار کرو "
اس نے پھر کہا: "آپ میرے لئے  استغفار کریں۔ "
اویس قرنی رحمہ اللہ تعالیٰ  نے پھر وہی جواب دیاکہ : "تم  ابھی نیک سفر سے آئے ہو تم میرے لیے استغفار کرو۔
پھر ارشاد فرمایا: "کہیں آپ کی ملاقات حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے تو نہیں ہوئی؟"
           آدمی نے کہا: ہاں میری ملاقات حضرت  عمر رضی اللہ عنہ سے ہوئی ہے۔


تو  حضرت اویس قرنی رحمہ اللہ تعالیٰ  نے  ان کیلئے دعائے استغفار فرمائی،پھر لوگوں کو اویس قرنی رحمہ اللہ کے بارے میں معلوم ہونا شروع ہوگیا، تو اویس قرنی رحمہ اللہ اپنا علاقہ چھوڑ کر تشریف لے گئے۔ ( صحیح مسلم؛  حدیث : 2542 )