’’امیدِ سحر‘‘ - قیامِ پاکستان سے اب تک


   1947ء میں پاکستان کی کل آمدنی 24 ارب روپے تھی جس میں سے 14.6 ؍ ارب روپے یعنی 60 فیصد زراعت اور 11.2؍ ارب روپے صنعتوں اور دیگر ذرائع سے حاصل ہورہے تھے۔ معدنیات سے صرف 25 کروڑ حاصل ہوتے تھے۔ 
          ملک میں صرف 34 کارخانے تھے۔ سوتی کپڑے کے 17، سیمنٹ کے 4، چینی کے 6، شیشے کے 4 کارخانے تھے۔ ہمارے پاس پٹ سن ، کاغذ، گتے، لوہے، ریشمی کپڑے، فولاد سازی کا کوئی کارخانہ سرے سے موجود ہی نہیں تھا۔
        1947ء میں پاکستان کو ریل کے 11 میں سے صرف  2 سلسلے ملے۔ ریل کی لمبائی 6958 میل، انجن 1339، مسافر ڈبے 4280 اور مال گاڑی کے40229 ڈبے ملے۔ سڑکوں کی کل لمبائی 14 ہزار میل تھی۔ سرحد بلوچستان سندھ میں بڑے علاقوں میں سڑکیں سرے سے موجود ہی نہ تھیں ۔
       6477 ڈاک خانے، 248 ٹیلی فون ایکسچینج اور 15283 ٹیلی فون تھے۔صرف 3 ریڈیو اسٹیشن تھے۔ ٹی وی کا وجود ہی نہ تھا۔ ہمارے پاس 38 بینکوں کی 195 شاخیں تھیں۔  پہلے برس ہماری برآمدات 72 کروڑ اور درآمدات 27 کروڑ روپے کی تھیں۔
      کل آبادی کا 6 فیصد پرائمری، 2 فیصد مڈل اور ایک فیصد سے بھی کم افراد میٹرک پاس تھے۔ 38 ہزار پرائمری اور 6 ہزار ہائی اسکول تھے۔ چار میڈیکل کالج، 2 زرعی، 13 تجارتی اور 100 صنعتی تعلیم و تربیت کے ادارے تھے۔ سارے ملک کے کل طلبہ 38 لاکھ تھے۔ رجسٹرڈ ڈاکٹروں کی تعداد 1225 اور 61 ہزار افراد کے لیے صرف ایک ڈاکٹر مہیا تھا۔

 اورپھر ۔۔۔۔     اللہ کے کرم سے پاکستان میں قانونی اصلاحات  کے ذریعے سے نظم و ضبط لایا گیا۔
       تقریباً 1970ء تک ہم سالانہ 64180 ٹن گندم پیدا کرنے کے قابل ہوگئے تھے۔ چاول 14990 ٹن، مکئی 7920 ٹن، کاٹن 51800 ٹن، گنا 186606 ٹن ہوگئی۔
       سوتی کپڑے کے کارخانوں کی تعداد 115 ہوگئی۔ پٹ سن کے 153، آرٹ سلک کے 690، بناسپتی گھی کے 27، چینی کے 34، کھاد کے 15 کارخانے لگادیے گئے۔
         یوریا کھاد 43 ہزار سات سو ٹن، سپر فاسفیٹ کھاد 16 ہزار ایک سو ٹن، المونیم نائٹریٹ 76 ہزار 9 سو ٹن، المونیم سلفیٹ 46 ہزار 8 سو ٹن، بناسپتی گھی 94 ہزار ٹن، چینی 2 ہزار 5 سو 52 ٹن، سیمنٹ 2 ہزار ایک سو 63 ٹن، سگریٹ 20 ہزار 24 ٹن تک پیدا ہونے لگا۔
       بیسیویں صدی کے اختتام تک پاکستانیوں کی فی کس آمدنی 5081 روپے تھی۔ ہم نے معدنی وسائل میں حیرت انگیز ترقی کی تھی ۔ پاکستان نے کرومائٹ، کوئلہ، سنگ مرمر، چونے کا پتھر، جپسم، چائنا مٹی، ڈائنامائٹ، فائرکلے کی پیداوار کو ملین ٹنوں تک پہنچادیا۔
      1947ء میں ہمارے جنگلات کل رقبے کا 3 فیصد تھے۔ 1971ء میں یہ 4.7 فیصد تک جاپہنچے۔ جنگلات کی لکڑی کی پیداوار 720 لاکھ مکعب فٹ سے 920 لاکھ مکعب فٹ تک پہنچ گئی۔
      تقسیم کے وقت ہمارے پاس کوئی اسلحہ ساز فیکٹری نہ تھی ۔ ہم از خود ایک کارتوس بھی نہ بنا سکتے تھے  اور اب اللہ کے فضل سے  ہم پہلی مسلمان ایٹمی  طاقت  ہیں ۔ اگر ہم 1947ء سے 2017ء تک کے ان 70 سالوں کو دیکھیں  تو ہمیں بے شمار شعبوں میں حیرت انگیز ترقی نظر آئے گی۔
       ہم گلاس کو آدھا خالی دیکھنے کے عادی ہوچکے ہیں ہمیں بھرا ہوا حصہ نظر نہیں آتا  ۔ یہ درست ہے کہ آج کے پاکستان میں مسائل کے انبار ہیں۔ اس کے باوجود ہماری زندگیوں میں بے شمار روشن امکانات بھی تو موجود ہیں۔ ان سے صرفِ نظر کرلینا دانشمندی نہیں ۔
      کاش! ہم پاکستان کے ان 70 برسوں کے کئی شعبوں کی ترقی کے دائرے کو مزید پھیلالیں۔ کاش! ہم ہر پاکستانی کی زندگی کو زیادہ سے زیادہ سہل بناسکیں۔


’’خدا کرے کہ ہم انسانیت کی بلند ترین سطح یعنی مسلمانیت تک پہنچ جائیں ۔ آمین‘‘