حضرت سیدنا اویس قرنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا آخری وقت - قسط نمبر 2


سردی اتنی سخت تھی کہ آپ کے مبارک اعضاء اس کی شدت سے زور زور سے کانپنے لگے ۔یہاں تک کہ اسی طرح سردی سے ٹھٹھرتے کانپتے ایسی شدید تکلیف کی حالت میں بھی اپنے رب عزوجل کی رضا پر راضی رہتے ہوئے اس دنیائے فانی سے کوچ کرگئے ،سخت سردی سے آپ کا انتقال ہوگیا۔
صبح قافلے والے بیدار ہوئے اپنی ضروریات سے فارغ ہوکر جب کُوچ کا ارادہ کیا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پکارنے لگے: '' اے شخص اٹھو! لوگ یہاں سے جارہے ہیں ۔''چند بار پکارنے پر بھی جب آپ نے جواب نہ دیا تو ایک شخص آگے بڑااور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ہلانے جھلانے لگا تو دیکھا کہ آپ تو وصال فرماچکے ہیں۔
وہ شخص  پکارنے لگا: 'اے اہل قافلہ:" اپنے آقا سے بھاگا ہوا غلام انتقال کرگیا ہے اوراسے دفن کئے بغیر بے گوروکفن  چھوڑکریہاں سے چلےجانا  مناسب نہیں ۔''قافلے والوں نے کہا:''یہ تو اپنے آقا سے بھاگا ہواگناہگار غلام تھا اس کا کیا ہوگا؟، ایک نیک شخص نے جواباً کہا :''یہ غلام توبہ کرکے اپنے آقا کی طرف لوٹنے کا ارادہ رکھتا تھا اور اپنے عمل پر نادم بھی تھا اور ہم اس کا کفن دفن کا اہتمام کریں گے۔ ہوسکتا اللہ تعالی اس عمل کی ہمیں برکتیں عطا فرمائے ،اسکی تو بہ قبول ہوچکی ہو اوراگرہم اسے دفن کئے بغیر چل پڑے توقیامت کے دن اگر اس کا سوال کرلیا گیا تو کیا جواب دیں گے؟
اب  لوگوں نے اولاً غسل دینے کا ارادہ کیا تومعلوم ہوا،اس علاقے میں پانی  نہیں ہے۔''   اس علاقے کے ایک شخص نے کہا :"اپنا ایک آدمی میرے ساتھ بھیج دو پانی یہاں سے ایک گھنٹے کی مسافت پر ملے گا ۔'' ڈول لے کر یہ لوگ روانہ ہوگئے ۔
لیکن جیسے ہی وہ قافلے سے روانہ ہوئے تو چونک کر کھڑے ہوگئے، اچانک سامنے قریب ہی انہیں پانی کی ایک نہر نظر آرہی ہے ، وہی آدمی کہنے لگا: ''بڑا عجیب معاملہ ہے میں اسی علاقے کا ہوں لیکن آج سے پہلے  اس جگہ  کبھی بھی  اس نہر کو نہیں دیکھا بلکہ اس جگہ اور اس کے گرداگرد علاقے میں تو پانی  ملتا ہی نہیں ۔''
 بہرحال وہ شخص قافلے کی طرف لوٹ آیا اور کہنے لگا:'' تمہاری مشقت ٹل گئی ،اب پانی گرم کرنے کے لئے لکڑیا ں جمع کرو۔''اورنہر سے پانی لینے کے لئے نہر پر پہنچے تو مزید حیران بلکہ ہیبت میں بھی مبتلا ہوگئے اس لئے کہ نہر کا پانی  شدید گرم پایا ۔
اب تو لوگوں کو سیدنا اویس قرنی رضی اللہ تعالی عنہ کوئی عظیم ہستی محسوس ہونے لگی ،اور پھر مزید عجائبات کا سلسلہ شروع ہوگیا قبر کھودنے کا معاملہ آیا تو مٹی کو جھاگ سے زیادہ نرم پایا،زمین سے خوشبو کی ایسی لپٹیں آرہی تھیں لوگوں نے دنیا میں اس سے زیادہ پاکیزہ خوشبو کبھی نہ سونگھی تھی ۔
لوگ پر گھبراہٹ اور خوف طاری ہونے لگا ۔قبر سے نکلنے والی مٹی سے مشک سے زیادہ پیاری خوشبو آرہی تھی۔اب تو  لوگوں نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے ایک خیمہ نصب کیا جہاں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جسد اقدس کو منتقل کر دیا اورپھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کفن کے معاملے میں گفتگو کرنے لگے، ایک شخص نے کہا کہ'' انہیں کفن میں دوں گا۔''دوسرے نے کہا:''میں دوں گا ۔'' پھر جب ان سب کی رائے اس بات پر متفق ہو ئی کہ ہر شخص کفن کے لئے ایک ایک کپڑا دے  گا اور کاغذ،قلم پکڑکر  آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حلیہ مبارک ،چہرہ مبارک وغیرہ  صفات مبارکہ لکھنے لگے  تاکہ  کوفہ پہنچ کر یہ نشانیاں پوچھ کر ان کے بارے میں لوگوں سے دریافت کریں گے،     پھر ان لوگو ں نے اس پرچے کو اپنے سامان میں رکھ لیا۔
پھر ان لوگوں نے حضرتِ سیِّدُنا اویس قرنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو غسل  دیا اور کفن پہنا نے کے لئے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لباس کو اُتارناچاہا تو آپ کی ایک اور کرامت کا اظہار ہوگیا اور وہ یوں کہ آپ کا کفن جنّتی کفن میں تبدیل ہوچکا تھا۔ دیکھنے والوں نے کبھی ایسا کفن نہ دیکھا تھا ۔اس کفن پر مشک وعنبر لگا ہوا تھا جس کی خوشبو نے فضاکومزید معطر کر دیا اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جبین اطہر اور مبارک قدموں پر مشک کی مہک لگی ہوئی تھی۔یہ دیکھ کر لوگ کہنے لگے : '' گناہ سے بچنے اور نیکی کرنے کی قوّت رب عزوجل ہی دیتاہے،اللہ عزوجل نے انہیں اپنی قدرت کاملہ سے کفن پہنا کربندوں کے کفن سے بے نیاز کردیا، ہم اللہ عزوجل سے امید رکھتے ہیں کہ وہ اپنے اس برگزیدہ اور مقبول شخص کے وسیلہ سے ہمیں جنت عطا فرمائے گا اور ہم پر رحم فرمائے گا۔''
اب لوگوں کو حضرتِ سیِّدُنا اویس قرنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سخت سردی کی رات تنہا چھوڑنے پر سخت ندامت و شرمندگی ہو ئی ۔پھر ان لوگو ں نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نماز جنازہ ادا کرنے کے لئے ایک ہموار جگہ پر رکھا۔ جب ان لوگوں نے تکبیر کہی تو آسمان سے زمین تک مشرق سے مغرب تک تکبیر کہنے کی ایسی  آواز یں سنیں کہ ان کے کلیجے دہل گئے ، آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ اپنے سروں سے سنی جانے والی آوازوں سے مرعوب ہونے اور گھبراہٹ کی شدت کی وجہ سے یہ نہ سمجھ پائے کہ نماز جنازہ کس طر ح ادا کی جائے ۔پھر جب انہیں قبر کی طرف لے جانے کا ارادہ کیاتو اٹھاتے وقت انہیں یوں محسوس ہوا کہ حضرتِ سیِّدُنا اویس قرنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جسد اقدس کسی اور مخلوق نے تھام رکھاہے اور انہیں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاوزن تک محسوس نہ ہوا۔بہرحال آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دفن کرنے کے لئے قبر کی طرف لائے اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جسم اقد س کو قبر میں دفن کردیا۔
بعد دفن لوگ حیران وپریشان سفر پر روانہ ہوگئے۔ سفر پورا کرکے کوفہ کی مسجد میں آئے اوروہاں  لوگو ں کو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا واقعہ سنا یا اور وہاں حلیہ بیان کیاتو حلیہ بیان کرنے پرکچھ لوگوں نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پہچان کر رونا شروع کردیا ، اگر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وصال کے بعد آپ کی کرامات ظاہر نہ ہوتیں تو حضرتِ سیِّدُنا اویس قرنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وصال کی خبرکسی کو نہ ہوتی اور نہ ہی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مزار پُر انوار کا پتاچلتا کیونکہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لوگو ں سے پوشیدگی اور کنارہ کشی اختیار کر رکھی تھی۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہوا ور اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین )




گناہ گار شخص جس کا جنازہ کوئی نہیں پڑھا رہا تھا پھر ایسا کیا ہوا کہ وقت کا بڑا ولی خود جنازہ پڑھانے آگیا



حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ کی ایک مریدنی تھی اسکا ایک بیٹا تھا جو بہت سرکش تھا دنیا میں ایسا کوئی گناہ نہیں تھا جو اُس نے نہ کیا ہو

ایک دن سخت بیمار ہوگیا قریب الموت ہوا تو ماں کی گود میں سر رکھ کےکہنے لگا، ماں جب مجھے موت آئے تو اے ماں اپنے پیرو مرشد سے میرا جنازہ پڑھانے کی سفارش کرنا اگر وہ آئیں گے تو لوگ میرے جنازے کو کندھا دینگے ورنہ میں نے نیکی کا کوئی کام کیا ہی نہیں

جب طبیعت بگڑنے لگی تو ماں حضرت حسن کے پاس گئی کہ حضرت میرا بیٹا موت و حیات کی کشمکش میں ہے اس نے آپ سے جنازہ پڑھانے کی سفارش کی ہے، حضرت نے کہا کہ محترمہ! آپ کے بیٹے کو میں نے کبھی سجدہ کرتے دیکھا نہیں میں کیسے جنازہ پڑھاؤں؟

ماں بوجھل قدموں کے ساتھ نا کام واپس لوٹی اور بیٹے سے کہا بیٹا اگر زندگی میں میری ایک بات مانی ہوتی تو آج میرے مرشد جنازہ پڑھانے سے انکار نہ کرتے۔۔۔

بیٹا حسرت بھری آنکھوں سے ماں کی بے چینی کو دیکھتا رہا رونے لگا بولا ماں!

جب مجھے موت آئے تو میرے پاؤں کو رسی سے باندھ کر سارے شہر میں گھسیٹنا اور یہ آواز لگانا کہ جو اللہ کی نافرمانی کرتا ہے جو اس کا حکم نہیں مانتا اس کا یہی حشر ہوگا اور ماں!
پھر مجھے دفنانا نہیں مجھے اس شہر کی سب سے گندی جگہ پھینکنا کہ تاکہ لوگ مجھ سے عبرت پکڑیں۔ اس حالت میں اس لڑکے کو موت آئی اور روح پرواز کرگئی۔۔۔۔

وفات کے چند لمحوں کے بعد دروازے پر دستک ہوئی ماں نے دروازہ کھولا تو دیکھا حضرت حسن کھڑے تھے، کہنے لگے میں جنازہ پڑھانے آیا ہوں۔۔۔۔۔
ماں بولی!
حضرت میرا بیٹا فوت ہوگیا  یہ صرف میں اور اللہ جانتا ہے آپ کو کیسے پتہ؟

حضرت فرمانے لگے!
جب آپ واپس آئیں تو میں قیلولہ کر رہا تھا میری آنکھ لگی اور نیند میں آواز آئی کہ آپ نے اللہ کے ایک دوست کا جنازہ پڑھانے سے انکار کیسے کیا؟

اللہ اکبر!
یہاں ندامت کے دو آنسوں گرے وہاں مغفرت کا فیصلہ ہوگیا۔

ایک آخری بات عرض کرتا چلوں کے اگر کبھی کوئی ویڈیو، قول، واقعہ،سچی کہانی یا تحریر وغیرہ اچھی لگا کرئے تو مطالعہ کے بعد مزید تھوڑی سے زحمت فرما کر اپنے دوستوں سے بھی شئیر کر لیا کیجئے، یقین کیجئے کہ اس میں آپ کا بمشکل ایک لمحہ صرف ہو گا لیکن ہو سکتا ہے کہ، اس ایک لمحہ کی اٹھائی ہوئی تکلیف سے آپ کی شیئر کردا تحریر ہزاروں لوگوں کے لیے سبق آموز ثابت ہو

گناہ گار شخص جس کا جنازہ کوئی نہیں پڑھا رہا تھا پھر ایسا کیا ہوا کہ وقت کا بڑا ولی خود جنازہ پڑھانے آگیا



حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ کی ایک مریدنی تھی اسکا ایک بیٹا تھا جو بہت سرکش تھا دنیا میں ایسا کوئی گناہ نہیں تھا جو اُس نے نہ کیا ہو

ایک دن سخت بیمار ہوگیا قریب الموت ہوا تو ماں کی گود میں سر رکھ کےکہنے لگا، ماں جب مجھے موت آئے تو اے ماں اپنے پیرو مرشد سے میرا جنازہ پڑھانے کی سفارش کرنا اگر وہ آئیں گے تو لوگ میرے جنازے کو کندھا دینگے ورنہ میں نے نیکی کا کوئی کام کیا ہی نہیں

جب طبیعت بگڑنے لگی تو ماں حضرت حسن کے پاس گئی کہ حضرت میرا بیٹا موت و حیات کی کشمکش میں ہے اس نے آپ سے جنازہ پڑھانے کی سفارش کی ہے، حضرت نے کہا کہ محترمہ! آپ کے بیٹے کو میں نے کبھی سجدہ کرتے دیکھا نہیں میں کیسے جنازہ پڑھاؤں؟

ماں بوجھل قدموں کے ساتھ نا کام واپس لوٹی اور بیٹے سے کہا بیٹا اگر زندگی میں میری ایک بات مانی ہوتی تو آج میرے مرشد جنازہ پڑھانے سے انکار نہ کرتے۔۔۔

بیٹا حسرت بھری آنکھوں سے ماں کی بے چینی کو دیکھتا رہا رونے لگا بولا ماں!

جب مجھے موت آئے تو میرے پاؤں کو رسی سے باندھ کر سارے شہر میں گھسیٹنا اور یہ آواز لگانا کہ جو اللہ کی نافرمانی کرتا ہے جو اس کا حکم نہیں مانتا اس کا یہی حشر ہوگا اور ماں!
پھر مجھے دفنانا نہیں مجھے اس شہر کی سب سے گندی جگہ پھینکنا کہ تاکہ لوگ مجھ سے عبرت پکڑیں۔ اس حالت میں اس لڑکے کو موت آئی اور روح پرواز کرگئی۔۔۔۔

وفات کے چند لمحوں کے بعد دروازے پر دستک ہوئی ماں نے دروازہ کھولا تو دیکھا حضرت حسن کھڑے تھے، کہنے لگے میں جنازہ پڑھانے آیا ہوں۔۔۔۔۔
ماں بولی!
حضرت میرا بیٹا فوت ہوگیا  یہ صرف میں اور اللہ جانتا ہے آپ کو کیسے پتہ؟

حضرت فرمانے لگے!
جب آپ واپس آئیں تو میں قیلولہ کر رہا تھا میری آنکھ لگی اور نیند میں آواز آئی کہ آپ نے اللہ کے ایک دوست کا جنازہ پڑھانے سے انکار کیسے کیا؟

اللہ اکبر!
یہاں ندامت کے دو آنسوں گرے وہاں مغفرت کا فیصلہ ہوگیا۔

ایک آخری بات عرض کرتا چلوں کے اگر کبھی کوئی ویڈیو، قول، واقعہ،سچی کہانی یا تحریر وغیرہ اچھی لگا کرئے تو مطالعہ کے بعد مزید تھوڑی سے زحمت فرما کر اپنے دوستوں سے بھی شئیر کر لیا کیجئے، یقین کیجئے کہ اس میں آپ کا بمشکل ایک لمحہ صرف ہو گا لیکن ہو سکتا ہے کہ، اس ایک لمحہ کی اٹھائی ہوئی تکلیف سے آپ کی شیئر کردا تحریر ہزاروں لوگوں کے لیے سبق آموز ثابت ہو

مویشی منڈی جانے کی دس احتیاطیں

حضرت سیدنا اویس قرنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا آخری وقت - قسط نمبر 1


ایک بزرگ  فرماتے ہیں کہ ہم عراق سے  مکہ ، مدینہ جانے کے لیے نکلے ۔ ہمارے قافلے میں بہت سے لوگ تھے ۔ جیسے ہی ہم عراق سے نکلے تو ایک عراقی شخص بھی ہمارے ساتھ چل پڑا۔اس کا گندمی رنگ کثرتِ عبادت کی وجہ سے پیلا پڑچکا تھا ۔ اس نے مختلف چیتھڑوں سے بنا ہوا پرانا لباس پہن رکھا تھا۔اسکے ہاتھ میں ایک عصا (لاٹھی) اور ایک تھیلی جس میں تھوڑا ساتوشہ(کھانے پینے کا کچھ سامان) تھا۔دراصل یہ عراقی شخص مشہور عاشق رسول  خیرالتابعین حضرت سیدنااویس قرنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے، قافلے والے انہیں اس حالت میں دیکھ کر پہچان نہ پائے بلکہ ان کی ظاہری حالت  دیکھتے ہوئے کہنے لگے:'' ایسا لگتا ہے تم کوئی غلام ہو؟''حضرتِ سیِّدُنا اویس قرنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عاجزی کرتے ہوئے  فرمایا:'' ہاں میں ایک غلام ہوں۔'' لوگوں نے کہا :''ہمارا گمان ہے کہ تم اپنے آقا سے بھاگے ہوئے ایک  بُرے غلام ہو ۔''آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:'' ہاں، ایسا ہی ہے ۔''لوگو ں نے کہا :''اپنے آقا سے بھاگنے پر دیکھو تمہاری کیا حالت ہوئی  ہے۔اگر تم نہ بھاگتےتو تم اس حال کو نہ پہنچتے ،بے شک تم بہت برے اور خطاکار غلام ہو۔''
 آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پھر عاجزی کرتے ہوئے  فرمایا:'' بے شک اللہ عزوجل کی قسم! میں ایک گنہگار غلام ہوں ،میرا آقا بہت ہی اچھا ہے اور غلطی میری ہی ہے اگر میں اسکی اطاعت کرتا اور اسکی رضا کا طالب رہتا تو میری یہ حالت ہرگز نہ ہوتی۔''
    یہ کہہ کر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رونے لگے اور اتنا روئے کہ قریب تھا کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روح پرواز کر جاتی۔لوگو ں کوبڑا تر س آیا،
لوگ تو آقا سے مراد دنیوی آقا سمجھ رہے تھے جبکہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  تو اللہ عزوجل کے ولی تھے اور آقا سے مراد اللہ عزوجل کی ذات کو لیاتھا ۔ قافلے والوں میں سے ایک شخص  کہنےلگا :''ڈرو مت !میں تمہارے لئے تمہارے آقا سے اَمان لے لوں گا ، تم اس کی طرف لوٹ کررجوع کر لو۔'' تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:'' میں اس کی طرف رجوع کرتا ہوں اور ا س کے انعامات کا طالب ہوں ۔''

حضرتِ سیِّدُنا اویس قرنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضہ پر انور کی زیارت کیلئے اس قافلے میں شامل ہوئے تھے۔ اُسی دن قافلہ اپنی منزل کی طرف چل پڑا اور تیزی سے سفر کرنے لگا۔ رات کو جب قافلے نے ایک پتھریلی جگہ پرپڑاؤ کیا ،تو بارش ہونے کے ساتھ ساتھ سخت سردی بھی ہوگئی۔  لوگ سردی سے بچنے کے لئے اپنے کجاووں  اور خیموں میں دبک گئے لیکن افسوس حضرت ِ سیدنا اویس قرنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس نہ کجاوہ تھا ،نہ خیمہ اورنہ ہی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کسی سے کچھ مانگا۔'' کیونکہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ بات ناپسند تھی کہ آپ مخلوق سے مانگیں بلکہ راضی برضائے مولا کے مصداق سخت سردی میں ٹھٹھرتے رہے۔


(جاری ہے ۔۔۔ قسط نمبر 2 آپ اگلے آرٹیکل میں ملاحظہ فرماسکیں گے ۔)

حضرت اویس قرنی رحمہ اللہ تعالیٰ

 حضرت  اسیر بن جابر رحمہ اللہ  فرماتے  ہیں:  " جب بھی یمن  کی طرف سے  قبائل حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آتے توحضرت  عمر رضی اللہ  عنہ  ان سے پوچھتے: "کیا تم میں اویس بن عامر ہے؟"
              ایک دن اویس بن عامر خود بھی حاضر ہوئے ، تو عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا:  "تم اویس بن عامر  ہو؟" انہوں نے کہا: "جی ہاں میں ہی ہوں "
                   پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا:  "قرن قبیلے کی شاخ مراد سے ہو ؟" انہوں نے کہا:  ’’جی ہاں‘‘  پھر حضرت  عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا : "تمہیں برص کی بیماری لاحق تھی، جو اب ختم ہوچکی ہے، صرف ایک درہم  کے برابر جگہ باقی ہے؟" انہوں نے عرض کی : " جی ہاں
پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا:  "تمہاری والدہ حیات  ہیں؟" انہوں نے کہا: " جی ہاں "
                        پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں حدیث نبوی ﷺ سنائی کہ: "میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ’’ تمہارے پاس  یمن کے حلیف قبائل کے ساتھ  اویس بن عامر آئے گا، اس کا تعلق قرن قبیلے کی شاخ مراد سے ہوگا، اسے برص کی بیماری لاحق تھی، جو کہ ختم ہو چکی ہے، صرف ایک درہم  کے برابر باقی ہے،  وہ اپنی والدہ کیساتھ نہایت نیک سلوک کرتا ہے، اگر اللہ تعالی پر  قسم  بھی کھالے تو اللہ تعالی اس کی قسم پوری فرما دے گا، چنانچہ اگر  تم اس سے اپنے لیے استغفار کروا سکو ،تو  لازمی کروانا ‘‘
لہذا اب آپ میرے لیے مغفرت کی دعا کر یں، تو انہوں نے  حضرت عمر رضی اللہ عنہ کیلئے مغفرت کی دعا فرمائی ۔
پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے دریافت کیا: "آپ کہاں جانا چاہتے ہیں؟ "
انہوں نے کہا: "میں کوفہ جانا چاہتا ہوں " ۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "میں کوفہ کے گورنر کے نام خط نہ لکھ دوں ؟ آپ اس کی مہمان نوازی میں رہو گے۔
تو انہوں نے کہا: "میں گم نام  رہوں  تو مجھے زیادہ اچھا لگے گا"
  راوی کہتے ہیں: جب آئندہ سال  حج کے موقع پر  انکے قبیلے کا سردار آیا  اور اس کی ملاقات حضرت  عمر رضی اللہ عنہ سے ہوئی ، تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے اویس قرنی رحمہ اللہ تعالیٰ  کے بارے میں معلوم  کیا، تو اس نے جواب دیا کہ:  "میں اسے خستہ حالی  اور ناداری کی حالت میں چھوڑ کر آیا ہوں۔ "
                       تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے بھی حدیث نبوی ﷺ سنائی کہ : "میں نے رسول اللہ ﷺ کو سنا ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’ تمہارے پاس  یمن کے حلیف قبائل کے ساتھ  اویس بن عامر آئے گا، اس کا تعلق قرن قبیلے کی شاخ مراد سے ہوگا، اسے برص کی بیماری لاحق تھی، جو کہ ختم ہو چکی ہے، صرف ایک درہم  کے برابر باقی ہے،  وہ اپنی والدہ کیساتھ نہایت نیک سلوک کرتا ہے، اگر اللہ تعالی پر  قسم  بھی اٹھالے تو اللہ تعالی اس کی قسم پوری فرما دے گا، چنانچہ اگر  تم اس سے اپنے لیے استغفار کروا سکو ،تو  لازمی کروانا ‘‘
یہ آدمی بھی واپس جب اویس قرنی رحمہ اللہ تعالیٰ  کے پاس آیا تو ان سے کہا: "میرے لیے دعائے استغفار کر دو۔ "
اویس قرنی رحمہ اللہ تعالیٰ  نے کہا: "تم  ابھی نیک سفر سے آئے ہو تم میرے لیے استغفار کرو "
اس نے پھر کہا: "آپ میرے لئے  استغفار کریں۔ "
اویس قرنی رحمہ اللہ تعالیٰ  نے پھر وہی جواب دیاکہ : "تم  ابھی نیک سفر سے آئے ہو تم میرے لیے استغفار کرو۔
پھر ارشاد فرمایا: "کہیں آپ کی ملاقات حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے تو نہیں ہوئی؟"
           آدمی نے کہا: ہاں میری ملاقات حضرت  عمر رضی اللہ عنہ سے ہوئی ہے۔


تو  حضرت اویس قرنی رحمہ اللہ تعالیٰ  نے  ان کیلئے دعائے استغفار فرمائی،پھر لوگوں کو اویس قرنی رحمہ اللہ کے بارے میں معلوم ہونا شروع ہوگیا، تو اویس قرنی رحمہ اللہ اپنا علاقہ چھوڑ کر تشریف لے گئے۔ ( صحیح مسلم؛  حدیث : 2542 )

باتیں کرنے والا بھیڑیا

 حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ایک دفعہ ایک بھیڑیا بکریوں پر حملہ آور ہوا اور ان میں سے ایک بکری کو اٹھالیا۔ چرواہے نے اس کا پیچھا کیا اور اس سے بکری چھین لی۔
                        بھیڑیا پچھلی ٹانگوں کو زمین پر پھیلا کر بیٹھ گیا اور اگلی ٹانگوں کو کھڑا کرلیا اور اس نے چرواہے سے کہا: کیا تم اللہ سے نہیں ڈرتے کہ مجھ سے اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ رزق چھین رہے ہو؟
                    چرواہے بھیڑیے کی اس طرح باتیں کرنے پر چونک گیا اور اس نے حیران ہوکر کہا: بڑی حیران کن بات ہے کہ بھیڑیا اپنی دم پر بیٹھا مجھ سے انسانوں کی طرح باتیں کر رہا ہے؟
                   بھیڑیے نے کہا: کیا میں تمہیں اس سے بھی عجیب تر بات نہ بتاؤں؟  کہ محمد ﷺ جو کہ  مدینہ منورہ میں تشریف فرما ہیں لوگوں کو گزرے ہوئے زمانے کی خبریں دیتے ہیں۔
                  راوی بیان کرتے ہیں کہ وہ چرواہا اسی وقت  اپنی بکریوں کو ہانکتا ہوا مدینہ منورہ میں داخل ہوا اور ان بکریوں کو اپنے ٹھکانوں میں سے کسی ٹھکانے پر چھوڑ کر حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔
                               پھر اس نے آپ ﷺ کو اس تمام معاملہ بتایا  ۔ حضور نبی اکرم ﷺکے حکم پر با جماعت نماز کے لئے اذان کہی گئی۔ اس  کے بعد  آپ ﷺ باہر تشریف لائے اور چرواہے سے فرمایا: سب لوگوں کو یہ  واقعہ سناؤ ۔  تو اس نے وہ واقعہ سب کو سنایا۔
                             اس کے بعد حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایاکہ : اس نے سچ کہا۔ مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک کہ درندے انسان سے کلام نہ کریں اور انسان سے اس کے چابک کی رسی اور جوتے کے تسمے کلام نہ کریں۔ اس کی ران اسے خبر دے گی کہ اس کے بعد اس کے گھر والے کیا کرتے رہے ہیں۔


(مسند امام أحمد بن حنبل ، 3 /83، 88، الرقم: 11809، 11859(

مدنی چینل کی بہاریں


کیا آپ کو معلوم ہے ک آپکا مدنی چینل اس وقت دنیا کی 6 بڑی سیٹیلائٹس پر موجود ہے اور 3 مختلف زبانوں میں ٹیلی کاسٹ ہو رہا ہے، 3 سیٹیلائٹ پر اردو میں۔
ایک پر بنگلہ زبان میں اور دو پر انگریزی زبان میں فیضان اسلام لٹا رہا ہے۔
اسکے علاوہ دنیا کے کچھ بڑے DTH اور  IPTV نیٹ ورکس پر بھی موجود ہے جس میں عرب شریف کا مشہور نیٹ ورک OSN ، یوروپ کا Sky  شامل ہیں ساتھ ہی امریکہ، نیوزیلینڈ، آسٹریلیا، جاپان، کوریہ، اور دیگر ممالک کے IPTV نیٹ ورک پر دیکھا جا سکتا ہے۔ اور انٹرنیٹ یعنی موبائل اپلیکیشن اور ویب سائٹ کے ذریعے تو پوری دنیا میں کہیں بھی کبھی بھی دیکھ سکتے ہیں اور مدنی چینل ریڈیو ایپ کی تو کیا ہی بات ہے ! اسکے ذریعے تو کم انٹرنیٹ سپیڈ پر سفر کے دوران بھی مدنی چینل کی نشریات سنی جا سکتی ہے۔
مدنی چینل تو اپنی بہاریں لٹا رہا ہے کیا ہم اسکو دیکھ کر اور اسکی تشہیر کر کے اپنا کام پورا کر رہے ہیں؟
مدنی چینل کا کم و بیش ایک دن کا خرچہ 15 لاکھ روپے ہے کیا ہم اسکی آدھی تعداد کو بھی روز مدنی چینل دیکھانے میں کامیاب ہو رہے ہیں؟ آئیے اپنے مدنی چینل کے بارے میں جانیے اور دوسروں تک بھی اسکی معلومات کو عام کریں تاکہ ہم زیادہ سے زیادہ لوگوں تک نیکی کی دعوت پہنچانے میں کامیاب ہو جائیں۔ آمین یا رب العالمین۔
  


دودھ پیتا بچہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں ایک غیر مسلم عورت اپنا بچہ اٹھائے  ہوئے حاضر آئی ۔یہ عورت پیارے آقا صلی للہ علیہ وآلہ وسلم کا امتحان لینے کی نیت سے آئی تھی   ۔   مگر جیسے ہی وہ بچے کو لے کر حضو ر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں پہنچی تو وہ  دودھ پیتا بچہ خود ہی بولنے لگا اور کہا : السلام علیکم یا رسول اللہ  صلی للہ علیہ وآلہ وسلم  ، ہم آپ صلی للہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں ۔
                    یہ دیکھ کر عورت  کے چہرے کا رنگ اڑ  گیا اور غصے سے  بچے کو کہنے لگی : خاموش  ! تجھے یہ الفاظ کس نے سکھائے؟
                    بچہ کہنے لگا:ماں  ! اپنے سر کے اوپر دیکھ  جبرائیل علیہ السلام  کھڑ ےہیں ۔ وہ  مجھے  پورے چاند کی طرح واضح نظر آ رہے ہیں  ۔  وہی مجھے  وصفِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سکھا رہے ہیں  اور شرک و کفر کے ناپاک علم سے خلاصی دلا رہے ہیں ۔
                     اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے  اس بچے سے فرمایا    :  اے بچے  یہ بتا کہ تیرا نام کیا ہے  ۔۔۔ ؟  بچے نے کہا : میرا نام اللہ تعالیٰ کے نزدیک عبد العزیز  ہے  ۔ مگر  ان مشرک لوگوں نے میرا نام عبد ِ عزیٰ   رکھا ہے ۔   اس ذات ِ پاک کی قسم جس نے آپ صلی للہ علیہ وآلہ وسلم کو  پیغمبر بنایا  ؛  میں اس عزیٰ معبود باطل سے بیزار اور بری ہوں ۔
      حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نگاہ کے صدقے اسی وقت جنّت سے ایسی خوشبو آئی   جس نے اس بچے اور اس کی ماں کا دماغ  معطّر کر دیا   اور بچے کے ساتھ ساتھ اس کی ماں بھی ایمان لے آئی اور اسی وقت  کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گئی ۔

 ( حکایاتِ رومی  صفحہ نمبر 61)

قرض دار

 بنی اسرئیل میں ایک  شخص کو ایک  ہزار  اشرفیوں  کی ضرورت پڑی  تو وہ کسی کے پاس گیا اور اس کو کہا مجھے ہزار اشرفیوں کی ضرورت ہے مجھے قرض دے دو   ۔  اس نے کہا کہ قرض تو دےدوں گا مگر کوئی گواہ لاؤ جس کے سامنے میں تمہیں دوں  تا کہ واپس بھی لے سکوں۔
                              اِس شخص نے کہا کہ   اللہ کا گواہ ہونا کافی ہے ۔ قرض دینے والے نے کہا  کہ  چلو کوئی ایسا شخص ہی لے آؤ  جو تمہاری ضمانت لے سکے  ۔ تو اس  نے کہا کہ ضمانت کے لیے بھی اللہ ہی کافی ہے ۔  قرض دینے والے نے کہا کہ   آپ نے ٹھیک کہا کہ ضمانت کے لیے  خدا ہی کافی ہے ۔  یہ کہہ کر اس نے ہزار اشرفیاں اس کو دے دیں اور بولا کہ خدا کو ضامن بناتے ہوئے یہ اشرفیا ں آپ کو دے رہا ہوں اور فلاں  تاریخ کو مجھے واپس کر دینا  ۔
                          وہ شخص وہ اشرفیاں لے کر  کمانے کے غرض سے سمندر پار چلا گیا ۔ جب   مدت پوری ہونے کے قریب آئی تو وہ شخص قرض واپس کرنے کے لیے سمندر پر آ گیا اور کسی جہاز کا انتظار کرنے لگا ۔مگر کوئی جہاز اسے نہ مل سکا  ۔  ادھر جہاز ملنے کے کوئی آثار نہیں تھے اور ادھر  مدت پوری ہوتی جا  رہی تھی ۔ 
                                  جب اس شخص کو کوئی  حل نہ ملا تو اس نے ایک لکڑی لی اس میں سوراخ کر کے  اس میں اشرفیاں ڈال دیں اورساتھ ہی قرض دینے والے کے نام ایک خط لکھ کر اس میں ڈال  دیا اور  سوراخ کو اچھی طرح  بند کر کے اس لکڑی کو سمندر میں ڈال دیا اور کہا  ’’ اے اللہ تو جانتا ہے کہ میں نے تیری ضمانت پر فلاں شخص سے یہ اشرفیاں لی تھیں اور وہ شخص تیری ضمانت پر دینے کو راضی ہو گیا تھا ۔ اب چونکہ مدت پوری ہو گئی ہے  اور کوئی جہاز نہیں مل رہا   کہ میں اس کا قرض واپس کر سکوں ۔ اب میں یہ امانت تیرے سپرد کرتا ہوں تو  یہ اشرفیاں اس شخص تک پہنچا دے ‘‘ یہ کہہ کر اس نے وہ لکڑی سمندر میں بہا دی اور خود واپس چلا گیا ۔
                                  ادھر وہ قرض دینے والا اس امید پر  ساحل تک آیا کہ شاید وہ سوداگر  اس کا قرض لیکر  آیا ہو ۔  اس نے دیکھا کہ یہاں کوئی جہاز تو نہیں ہے  مگر ایک لکڑی بہتی ہوئی آ رہی ہے ۔ جب وہ لکڑی کنارے تک آ لگی تو وہ اسے اٹھا کر  جلانے کی خاطر گھر لے آیا ۔ جب اسے کاٹا تو اس میں سے ایک ہزار  اشرفیاں اور ایک خط نکلا  جو اسی کے نام تھا۔
                      ایک مدت کے بعد جب وہ سوداگر  واپس آیا تو  یہ سوچ کر کہ پتہ نہیں وہ  لکڑی اس کو ملی بھی ہو گی یا نہیں  وہ ایک ہزار اشرفیاں لیکر اس قرض دینے والے کے گھر گیا  اور اسے بولا کہ  خدا کی قسم  میں تمہارا قرض لیکر  ساحل تک آیا مگر مجھے کوئی جہاز نہیں ملا ۔اب میں آیا ہوں تو یہ لواپنا قرض  ۔
                                                             قرض دینے والے نے پوچھا کہ پہلے یہ بتاؤ کہ تم نے کوئی ایک ہزار اشرفیاں اور خط میری طرف بھیجا تھا ؟ وہ بولا کہ جب مجھے  کوئی جہاز نہ ملا تو  میں نے ایک لکڑی میں سوراخ کر کے اس میں خط اور اشرفیاں رکھ کر اللہ کے سپرد کر دیا تھا  کہ وہ آپ تک پہنچا دے ۔
                             قرض دینے والا بولا : تو سن لو کہ وہ لکڑی مجھ تک پہنچ گئی تھی  اور میرا  سب مال مجھے مل چکا ہے ۔  اب تم یہ اشرفیاں واپس لے جاؤ ۔ ( صحیح بخاری ؛  حدیث : 2291(

  نتیجہ نیت صاف منزل آسان۔  معلوم ہوا کہ دینے والے کی نیت درست ہو تو اللہ تعالیٰ کوئی نہ کوئی سبب پیدا فرما دیتا  ہے ۔اللہ تعالیٰ ہمیں آسانیاں عطا فرمائے اور اگر مجبوراً کبھی قرض لینا بھی پڑ جائے تو  اپنے وقت  پر اتار دینے کی ہمت اور توفیق عطا ء فرمائے ۔ ۔۔ آمین ۔

ماں


اب وہ بظاہر ایک کامیاب آدمی بن چکا تھا ۔ گاڑی بنگلہ بہترین نوکری  اور وہ سب کچھ تھا اس کے پاس جو آج کل ایک  کامیاب شخص  کہلانے کے لیے ضروری شمار کیا جاتا ہے  اس نے اپنے آبائی علاقے کو چھوڑ کر مہنگی سوسائٹی میں گھر لے لیا تھا شادی بھی اونچے خاندان کی لڑکی سے کر لی تھی   ۔
کچھ عرصہ گزرا ،تو  اس کی بیوی اس سے کہنے لگی کہ  میں تمہاری ماں کے ساتھ نہیں رہ سکتی   کیونکہ وہ ایک  اَن پڑھ عورت ہیں  ، مجھے کسی کو بتاتے ہوئے شرم آتی ہے  کہ یہ میری ساس ہیں  لہذا  مجھے ایک علیحدہ گھر لیکر دو یا اپنی ماں کو کہیں اور چھوڑ آؤ ۔  اور فی الحال میں اپنی امی کے گھر جارہی ہوں
وہ کافی حیران ہوا اور بولا میں اپنی ماں کو کیسے چھوڑ سکتا ہوں ۔  لیکن اس کی روز روز کی ضد اور لڑائی سے تنگ آ کر آخر ایک دن اس  نے ہتھیار ڈال دیئے  اور  اپنی ماں سے اس بارے میں بات کرنے پر آمادہ ہو گیا ۔
آج رات جب وہ گھرآیا تو  اپنے کمرے میں جانے کے بجائے سیدھا ماں کے کمرے میں چلا گیا  ۔ ماں اپنے لخت جگر کوآ ج اپنے کمرے میں دیکھ کر خوش ہو ئی او ربیٹھنے کا بولا ۔
حال احوال پوچھنے کے بعد ماں نے آج اس طرح بجائے اپنے کمرے میں جانے کے سیدھا اس کے کمرے میں آنے کی وجہ پوچھی  تو وہ کہنے  لگا  کہ   ماں میں  اب اس قابل ہو گیا ہوں کہ آپ کے تمام احسانات کا بدلہ چار گناہ کر کے  آپ کو واپس کر دوں  یہ حساب چکتا کر کے میں اپنی بیوی  کو لیکر کہیں اور گھر لے لوں گا  ۔ میں اور میری بیوی وہاں رہیں گے اور آپ آرام سے یہاں رہیے  گا ۔
ماں نے جواب دیا کہ بیٹا حساب ذرا لمبا ہے  اس لیے تھوڑا وقت درکار ہو گا ۔ وہ بولا  کوئی جلدی نہیں ہے آپ آرام سے کر لیجئے ۔ اتنا بول کر وہ واپس اپنے کمرے کی طرف چلا گیا ۔
رات جب کچھ گہری ہونے لگی تو ماں نے ایک جگ میں پانی بھرا اور بیٹے کےکمرے میں جا کر  اس کے بستر کے ایک طرف ڈال دیا   بیٹے نے جب اس طرف کروٹ لی پانی کی وجہ سے  اسکی آنکھ کھل گئی  جب دیکھا کہ ماں ہاتھ میں جگ لئے کھڑی ہے  اور بستر پر پانی بھی اس نے ہی ڈالا ہے  تو  چلانے لگا کہ یہ آپ کیا کر رہی ہیں ؟
ماں بولی کہ بیٹا اپنے بچپن میں پتا نہیں کتنی دفعہ تو نے میرا، بستر اسی طرح گیلا کیا تھا اور میں نے غصہ کرنے کے بجائے تمہیں خشک جگہ پر ڈالا اور خود گیلی جگہ لیٹ گئی بلکہ بعض اوقات اپنے پیٹ پر بھی سلایا تھا، سوچا تمہیں بتادوں حساب چکانا بہت مشکل ہوجائے گاتم اسی گھر میں رہو مجھے کہیں بھی ایک کمرے کا گھر لے دویا تمہارے گھر کے پچھلی طرف کا کمرہ ہی مجھے دے دومیں وہیں رہ لوں گی۔
وہ  اٹھ  کربیٹھ چکا  تھا اور ادا س آنکھوں سے ماں کی طرف دیکھ رہا تھا  ۔ اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ ماں کو کیا جواب دے ۔ماں کچھ دیر رک کر اپنے کمرے میں جاچکی تھی ۔ یہ کافی دیر تک جاگتا رہا اور پھر اچانک اس نے ایک فیصلہ کیا اور سکون کی نیند سوگیا۔
صبح ہوئی  بیوی کو گھر بلایا،اس کی پسند کی کچھ چیز مہیاکی اور کہا :یہ بتائو کہ تمہاری امی کہاں رہتی ہیں ،
یہ کیسی بات کررہے ہیں آپ ،آپ کومعلوم تو ہے کہ وہ میرے بھائی کے گھر رہتے ،بیوی نے جواب دیا
تو ایک کام کرتے ہیں ہم اچھا سا ایک گھر لیتے ہیں جس میں تمہاری اور میری امی رہیں گی۔
نہیں ایسا نہیں ہوسکتا میری امی اپنے بیٹے کے بغیر کیسے رہیں گی وہاں ان کا کون خیال رکھے گا۔بیوی نے بجھے بجھے لہجے میں جواب دیا۔
جس طرح آپ کو اپنی امی کا خیال ہے اور ہونا بھی چاہئے ،بلکہ جو اپنی والدہ کا خیرخواہ نہ ہو، وہ اچھا انسان نہیں تو آپ مجھے بتاو کہ میں اچھا انسان بنوں یا کیا؟
اس آدمی کی حکمت بھری گفتگو سے بیوی کو بات سمجھ آچکی تھی ،اور ۔۔۔پھر جب رات آئی تو گھر کا منظر بھی عجیب سماں پیش کررہا تھا ،رات دسترخوان پر ایک ماں اس کا بیٹا بہواور اس کے پوتے پوتیاں مل کر کھانا کھارہے تھے خوشیاں بکھر رہی تھیں ،رات میاں بیوی کی  آنکھوں میں آنسوں اور  زباں پر ایک ہی جملہ تھا کہ یقیناً جو سکون آج ملا وہ سکون ساری زندگی میں نہ مل سکا
جی ہاں والدین کی خدمت ان کی خیرخواہی میں دونوں جہاں کی بھلائیاں پوشیدہ ہیں
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے ماں باپ سے محبت کرنے والا اور ان کا فرمانبردار بنائے ۔۔۔ آمین۔