حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ہم
حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہِ اقدس میں حاضر تھے کہ ایک اُونٹ بھاگتا ہوا آیا اور حضور نبی
اکرم ﷺ کے سرانور کے پاس آکر کھڑا ہوگیا (جیسے کان میں کوئی بات کہہ رہا ہو)۔
آپ ﷺنے فرمایا: اے اُونٹ! پرسکون ہوجا۔ اگر تو سچا
ہے تو تیرا سچ تجھے فائدہ دے گا اور اگر تو جھوٹا ہے تو تجھے اس جھوٹ کی سزا ملے گی۔
بے شک جو ہماری پناہ میں آجاتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اسے امان دے دیتا ہے اور ہمارے دامن
میں پناہ لینے والا کبھی نامراد نہیں ہوتا۔
ہم نے عرض کیا: یارسول
اللہ! یہ اونٹ کیا کہتا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اس اونٹ کے مالکوں نے اسے ذبح کرکے اس
کا گوشت کھانے کا ارادہ کرلیا تھا۔ سو یہ ان کے پاس سے بھاگ آیا ہے اور اس نے تمہارے
نبی سے مدد مانگی ہے۔
ہم ابھی باہم اسی گفتگو میں مشغول تھے کہ
اس اونٹ کے مالک بھاگتے ہوئے آئے۔ جب اونٹ نے ان کو آتے دیکھا تو وہ دوبارہ حضور نبی
اکرم ﷺ کے سر مبارک کے قریب ہوگیااور آپ ﷺ کے پیچھے چھپنے لگا۔
ان مالکوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہمارا یہ اونٹ
تین دن سے ہمارے پاس سے بھاگا ہوا ہے اور آج یہ ہمیں آپ کی خدمت میں ملا ہے۔ اس پر
آپ ﷺ نے فرمایا: یہ میرے سامنے شکایت کر رہا ہے ۔ یہ کہتا ہے کہ یہ تمہاری پاس کئی
سال تک پلا بڑھا۔ جب موسم گرما آتا تو تم گھاس اور چارے والے علاقوں کی طرف اس پر سوار
ہوکر جاتے اور جب موسم سرما آتا تو اسی پر سوار ہوکر گرم علاقوں کی جانب کوچ کرتے
۔ اب جبکہ یہ اس خستہ حالی کی عمر کو پہنچ
گیا ہے تو تم نے اسے ذبح کر کے اس کا گوشت کھالینے کا منصوبہ بنالیا ہے۔
انہوں نے عرض کیا: خدا کی قسم، یا رسول اللہ! یہ
بات با لکل اسی طرح ہے جیسے آپ نے بیان فرمائی۔ اس پر حضور ﷺ نے فرمایا: ایک اچھے خدمت
گزار کی اس کے مالکوں کی طرف سے کیا یہی جزا ہوتی ہے؟! وہ عرض گزار ہوئے یا رسول اللہ!
اب ہم نہ اسے بیچیں گے اور نہ ہی اسے ذبح کریں گے۔
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ
والہ وسلم نے اس اونٹ کو ان سے ایک سو درہم میں خرید لیا اور پھر فرمایا: اے اونٹ!
جا، تو اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر آزاد ہے۔ اس اونٹ نے حضور ﷺ کے سر مبارک کے پاس
اپنا منہ لے جاکر کوئی آواز نکالی تو آپ ﷺ نے فرمایا: آمین۔ اس نے پھر دعا کی۔ آپ ﷺ
نے پھر فرمایا: آمین۔ اس نے پھر دعا کی۔ آپ ﷺ نے پھر فرمایا: آمین۔ اس نے جب چوتھی
مرتبہ دعا کی تو آپ ﷺ آبدیدہ ہوگئے۔
ہم
نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ اونٹ کیا کہہ رہا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اس نے پہلی دفعہ
کہا: اے نبی مکرم! اللہ تعالیٰ آپ کو اسلام اور قرآن کی طرف سے بہترین جزا عطا فرمائے۔
میں نے کہا: آمین۔ پھر اس نے کہا: اللہ تعالیٰ قیامت کے روز آپ کی امت سے اسی طرح خوف
کو دور فرمائے جس طرح آپ نے مجھ سے خوف کو دور فرمایا ہے۔ میں نے کہا: آمین۔ پھر اس
نے دعا کی: اللہ تعالیٰ دشمنوں سے آپ کی اُمت کے خون کو اسی طرح محفوظ رکھے جس طرح
آپ نے میرا خون محفوظ فرمایا ہے۔ اس پر بھی میں نے آمین کہا۔ پھر اس نے کہا: اللہ تعالیٰ
ان کے درمیان جنگ و جدال پیدا نہ ہونے دے یہ سن کر مجھے رونا آگیا کیونکہ یہی دعائیں
میں نے بھی اپنے رب سے مانگی تھیں تو اس نے پہلی تین تو قبول فرما لیں لیکن اس آخری
دعا سے منع فرما دیا۔ جبرائیل نے مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر دی ہے کہ میری یہ
امت آپس میں تلوار زنی سے فنا ہوگی۔ جو کچھ ہونے والا ہے قلم اسے لکھ چکا ہے۔
( الترغيب
والترهيب للمنذري ، 3 /144، 145، رقم: 3431 ملخصاً )