مدینے میں خطبے کی آواز میلوں دور تک پہنچی




ایران کے شہر ہمدان کے جنوبی حصے میں   پہاڑوں   کے پاس واقع ایک بستی جس کا نام ’’نہاوند‘‘ہے،امیرالمؤمنین حضرت  سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہنے حضرت سیِّدُنا ساریہ بن زنیم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکو ایک لشکر کا سپہ سالار بنا کر  جہاد کرنے  کے لیے روانہ فرمایا۔ جنگ شروع ہوگئی, اسلامی لشکر کھلے میدان میں   لڑ رہا تھا کچھ دیر بعددشمن  اسلامی لشکر کو چار جانب سے گھیر کر پسپا کرنے کی کوشش میں   لگ گیا ،جب جنگ فیصلہ کن مرحلےمیں   داخل ہوئی تو اسلامی لشکر’’سخت آزمائش ‘‘ کا شکار ہوگیا۔

یہ صورتحال تو نہاوند میں تھی ،دوسری طرف مدینہ منورہ میں  عین اس وقت امیر المومنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہمسجد نبو ی میں   منبر رسول پر جلو ہ افروز ہوکر جمعہ کا  خطبہ ارشاد فرمارہے تھے۔(بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ خطبہ بھی ارشاد فرمارہے تھے اور اس کے ساتھ کفر و اسلام کی اس جنگ کو بھی دیکھ رہے تھے)جب اسلامی لشکر پر کفار کے غالب ہونے کے آثار دیکھے تو آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہنے وہیں   (مدینہ منورہ میں رہتے ہوئے خطبہ کے الفاظ کو چھوڑا اور ) منبر سے اسلامی لشکرکی مدد فرماتے ہوئے لشکر کے سپہ سالار ’’حضرت سیِّدُنا ساریہ بن زنیم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ‘‘کو ان الفاظ میں   جنگی ہدایت ارشاد فرمائی: ’’یَاسَارِیَۃُ الْجَبَلَ یعنی اے ساریہ !پہاڑ کو اپنی آڑ بناکر لڑو۔‘‘

(حیرانگی کی بات کہ مدینہ منورہ سے) حضرت سیِّدُنا ساریہ بن زنیم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہنے سینکڑوں   میل دُور نہاوند کی سرزمین پر امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کا یہ حکم سن لیامسجد میں بیٹھے ہوئے لوگ بہت حیران ہوئے کہ آج امیر المومنین رضی اللہ تعالی عنہ دوران خطبہ ایسا کیوں کیا بہرحال،اُدھر نہاوند میں سیدنا ساریہ رضی اللہ تعالی عنہ نے فوراً ’’لَبَّیْک‘‘ کہتے ہوئے اس پر عمل کیا(اور پہاڑ کو آڑ بناکر جب جنگ کی تو)۔

امیر المؤمنین کے حکم پر عمل سے جنگ کا پانسہ پلٹ گیا۔مجاہدین اسلام کی بہادری اور دلیری دیکھ کر کفار کے قد م اکھڑنے لگےاورمیدان جنگ سے بھاگنے میں   ہی عافیت جانی اور اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکی ’’دستگیر ی‘‘ کے سبب لشکر اسلام نے فتح پائی۔

قاصد نے آکر تصدیق کی:
  اس واقعے کے چند دن بعد حضرت سیِّدُنا ساریہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ  کا قاصد آیااور جنگ کی کیفیت بتاتے ہوئے کہنے لگا:میدان جنگ میں جب کفار سے مقابلہ ہوا تو ہم کو شکست ہونے لگی اتنے میں ناگہاں ایک چیخنے والے کی آواز آئی جو چلا چلا کریہ کہہ رہا تھا کہ اے ساریہ ! تم پہاڑ کی طرف اپنی پیٹھ کرلو ۔
 حضرت ساریہ رضی اللہ  تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ یہ تو امیر المؤمنین حضرت فاروق اعظم رضی اللہ  تعالیٰ عنہ کی آواز ہے، یہ کہا اورفوراً ہی انہوں نے اپنے لشکر کو پہاڑ کی طرف پشت کر کے صف بندی کا حکم دیا اور اس کے بعد جو ہمارے لشکر کی کفار سے ٹکر ہوئی تو ایک دم اچانک جنگ کا پانسہ ہی پلٹ گیا اوردم زدن میں اسلامی لشکرنے کفار کی فوجوں کو روندڈالا کفار کا لشکر میدان جنگ چھوڑ کر بھاگ نکلا اور افواج اسلام نے فتح مبین کا پرچم لہرا دیا۔      
(مشکوٰۃ باب الکرامات ، ص۵۴۶وحجۃ اللہ  ج۲،ص۸۶۰وتاریخ الخلفاء،ص۸۵)

دلائل النبوۃ، ج۶، ص۳۷۰۔ مشکاۃ المصابیح، ج۲، ص۴۰۱، حدیث:۵۹۵۴۔

اسد الغابۃ ، ساریۃ بن زنیم، ج۲، ص۳۶۴ ملتقطا۔دلائل النبوۃ لابی نعیم، ص۳۴۵،الرقم:۵۲۸ملتقطا۔