آپ ﷺ تین دن تک ایک ہی جگہ کیوں ٹھہرے رہے ؟




 وعدہ کی پابندی اخلاق کی ایک بہت ہی اہم اور نہایت ہی ہری بھری شاخ ہے۔ اس خصوصیت میں بھی رسولِ عربی صلی اللّٰہ تعالٰی  علیہ واٰلہٖ وسلم کا خُلق عظیم ترین ہے ۔ چنانچہ

حضرتِ سیدنا ابوالحَمساء رضی اللّٰہ تعالٰی  عنہ کہتے ہیں کہ اعلانِ نبوت سے پہلے میں نے حضورصلی اللّٰہ تعالٰی  علیہ واٰلہٖ وسلم سے کچھ سامان خریدا ،اسی سلسلے میں آپ کی کچھ رقم میرے ذمے باقی رہ گئی، میں نے آپ صلی اللّٰہ تعالٰی  علیہ واٰلہٖ وسلم سے کہا : آپ یہیں ٹھہریئے میں ابھی ابھی گھرسے رقم لا کر اسی جگہ پر آپ  کو دیتا ہوں ۔

حضورِ اکرم صلی اللّٰہ تعالٰی  علیہ واٰلہٖ وسلم نے اسی جگہ ٹھہرے رہنے کا وعدہ فرما لیا مگر میں گھر آکر اپنا وعدہ بھول گیا پھر تین دن کے بعد مجھے جب خیال آیا تو رقم لے کراس جگہ پر پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضورصلی اللّٰہ تعالٰی  علیہ واٰلہٖ وسلم اُسی جگہ ٹھہرے ہوئے میرا انتظار فرما رہے ہیں ۔

 مجھے دیکھ کر آپ صلی اللّٰہ تعالٰی  علیہ واٰلہٖ وسلم کی پیشانی پر بل نہیں آیا اوراس کے سوا آپ صلی اللّٰہ تعالٰی  علیہ واٰلہٖ وسلم نے اور کچھ نہیں فرمایا کہ :  اے نوجوان !تم نے تو مجھے مشقت میں ڈال دیا کیونکہ میں اپنے وعدے کے مطابق تین دن سے یہاں تمہارا انتظار کر رہاہوں ۔
(الشفا،الباب الثانی، فصل واما خلقہ۔۔۔الخ ،ص۱۲۶،جزء ۱)

(  منجانب : سوشل میڈیا ، دعوت ِ اسلامی) 

ایک نوجوان جس کی داڑھی زبردستی کاٹ دی گئی




ایسانازک دور آ پہنچا ہے کہ آج مُسلمان کہلانے والے اپنی اَولاد کو زبردستی سُنّتوں سے دُور رکھتے ہیں بلکہ سُنَّتوں پر عمل کرنے پر بسا اوقات طرح طرح کی سزائیں دیتے ہیں ،ایسے ایسے دِلخراش واقعات دیکھے گئے کہ بس خدا کی پناہ ۔کئی نوجوان اِسلامی بھائیوں نے اگر دعوت اسلامی  کے مَدَنی ماحول سے متاثر ہو کر داڑھی رکھ لی تو خاندان بھر میں گویا زلزلہ آگیا ۔۔۔!

اگر دھونس دھمکی اور مارپیٹ سے باز نہ آئے تو داڑھی رکھنے کیوجہ سے بے چارے گھروں سے نِکال دیئے گئے، یا پھر نیند کی حالت میں ان کی  داڑھیوں پر قَینچیاں چلا دی گئیں ۔۔۔

امیر اہلسنت حضرت مولانا الیاس قادری  دامت برکاتھم العالیہ  اپنی مایہ ناز تصنیف ’’نیکی کی دعوت‘‘ میں ایک نوجوان کا واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ :


دعوتِ اسلامی سے وابَستہ اَورنگی ٹاؤن،بابُ المدینہ کراچی کا ایک نوجوان عاشقِ رسول جس کی عمر بمشکل  20سال ہوگی ، داڑھی جب سے آئی رکھ لی تھی، بے چارہ خُون کے سَرطان یعنی بلڈ کینسر میں مُبتلاہوگیا۔مَیں (یعنی سگِ مدینہ عُفِیَ عنہ ) اُس کی عِیادت کے لیے اَسپتال پہنچا،بے چارہ زندگی اورموت کی کشمکش میں تھا، زَبان ساتھ نہیں دے رہی تھی، داڑھی چہرے سے اُتارلی گئی تھی، میں چَونکا، اُس مظلوم نے چہرے کی طرف بمشکل تمام ہاتھ اُٹھایا اور اِشارے سے فریاد کی، میں اِتنا سمجھ سکا گویا وہ کہہ رہا تھا: ’’میں نے نہیں مُنڈوائی ۔ میرے گھر والوں نے  نیند یا بے ہوشی کی حالت میں میری داڑھی صاف کر ڈالی ہے۔‘‘

 آہ ! چند ہی دِنوں کے بعد وہ دُکھیارادُنیا سے چل بَسا۔اللہ عَزَّوَجَلَّ مرحوم کی بے حساب مغفِرت فرمائے اور اُس کی داڑھی صاف کر ڈالنے والے کو توبہ کی سعادت بخشے۔  آمِین  بجاہِ النَّبِیِّ الامِین ﷺ

رُوح میں سَوز نہیں ،قَلب میں اِحساس نہیں
کچھ بھی پیغامِ محمد ﷺ کا تمہیں پاس نہیں

(  منجانب : سوشل میڈیا ، دعوت ِ اسلامی) 


نکاح میں کیا دیکھنا چاہئے ؟




  حضرت سيدناانس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روايت ہے کہ ميں نے حضورِ پاک ﷺ کو فرماتے سنا کہ :

جس نے کسی عورت سے اس کی عزت کی وجہ سے نکاح کيا ۔۔۔ تو اللہ تعالیٰ اس کی ذلت کو بڑھائے گا ،

جس نے عورت کے مال و دولت (کے لالچ)کی وجہ سے نکاح کيا ۔۔۔  اللہ تعالیٰ اس کی غربت ميں اضافہ کریگا ،

جس نے عورت کے حسب نسب(يعنی خاندانی بڑائی)کی بنا پہ نکاح کيا ۔۔۔ اللہ تعالیٰ اس کی کمينگی کو بڑھائے گا،

اور جس نے صرف اور صرف اس لئے نکاح کيا کہ اپنی نظر کی حفاظت کرے،اپنی شرمگاہ کو محفوظ رکھے،يا صلہ رحمی کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے عورت ميں برکت دے گااور عورت کے لئے مرد ميں برکت دے گا ۔

(المعجم الاوسط: الحديث۲۳۴۲،ج۲،ص۱۸)

(  منجانب : سوشل میڈیا ، دعوت ِ اسلامی) 


مجوسی کی دیوار




 ایک مرتبہ امامِ اعظم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم اپنے ایک مَقروض مَجوسی (یعنی آتَش پرست) کے یہاں قَرضہ وُصُول کرنے کیلئے تشریف لے گئے۔ اِتِّفاق سے اُس کے مکان کے قریب آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی جُوتی مبارَک میں کیچڑ لگ گئی، کیچڑ چُھڑانے کیلئے نعلِ پاک کو جھاڑا تو کچھ کیچڑ اُڑ کر مَجوسی کی دیوار سے لگ گئی۔

 پریشان ہوگئے کہ اب کیا کروں ! کیچڑ صاف کرتا ہوں تو دیوار کی مِٹّی بھی اُکھڑے گی اور صاف نہیں کرتا تو دیوار خراب ہورہی ہے۔ اِسی سوچ میں دروازے پر دستک دی،  مَجُوسی نے باہَر نکل کر جب امامِ اعظم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم کو دیکھا تو اُس نے قَرض کی ادائیگی کے سلسلے میں ٹالَم ٹَول شروع کردی۔

 امامِ اعظم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم نے قَرض کامُطالَبہ کرنے کے بجائے دیوار پر کیچڑ لگ جانے کی بات بتا کر نہایت ہی عاجزی کے ساتھ مُعافی مانگتے ہوئے ارشاد فرمایا: مجھے یہ بتائیے کہ آپ کی دیوار کس طرح صاف کروں۔۔۔ ؟

 امامِ اعظم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم کی حُقُوقُ الْعِباد کے مُعاملے میں بے قراری اور خوفِ خداوندی عزوجل دیکھ کر  مَجُوسی بے حدمتأ ثر ہُوا اور بولا: اے مسلمانوں کے امام! دیوار کی کیچڑ تو بعد میں بھی صاف ہوتی رہے گی، پہلے میرے دل کی کیچڑ صاف کرکے مجھے مسلمان بنا دیجئے۔ چُنانچِہ وہ مَجُوسی امامِ اعظم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم کا تقویٰ دیکھ کر مسلمان ہوگیا۔
(تفسیر کبیر ج۱ص۲۰۴ داراحیاء التراث العربی بیروت بتغیر)

 اِس حِکایت سے اُن لوگوں کو دَرس حاصِل کرنا چاہئے جو لوگوں کی دیواروں اور سیڑھیوں کے کونوں وغیرہ کو پِیک(یعنی پان کے رنگین تھوک) کی پچکاریوں سے بد نُما کردیتے ہیں ، اِسی طرح بِغیر  مالک کی اجازت کے جگہ جگہ اِسٹیکرز  ، پوسٹر  یا  چاکنگ کرکے لوگوں کے حُقُوق پامال ہوتے ہیں ۔  یاد رہے دنیا میں جس کسی کا حق ضائِع کیا ہواگر اُس سے مُعافی تَلافی کی ترکیب دنیا ہی میں نہ بنی ہو گی تو قِیامت کے روز اُس صاحِبِ حق کو نیکیاں دینی پڑیں گی اور اگر اس طرح بھی حق ادا نہ ہوا  تو اُس کے گناہ اپنے سر لینے ہوں گے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے اور دیگر تمام مخلوقات  کے حقوق صحیح طرح ادا کرنے کی ہمت اور  توفیق عطا فرمائے ۔۔۔ آمین۔

(  منجانب : سوشل میڈیا ، دعوت ِ اسلامی) 

مدینے میں خطبے کی آواز میلوں دور تک پہنچی




ایران کے شہر ہمدان کے جنوبی حصے میں   پہاڑوں   کے پاس واقع ایک بستی جس کا نام ’’نہاوند‘‘ہے،امیرالمؤمنین حضرت  سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہنے حضرت سیِّدُنا ساریہ بن زنیم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکو ایک لشکر کا سپہ سالار بنا کر  جہاد کرنے  کے لیے روانہ فرمایا۔ جنگ شروع ہوگئی, اسلامی لشکر کھلے میدان میں   لڑ رہا تھا کچھ دیر بعددشمن  اسلامی لشکر کو چار جانب سے گھیر کر پسپا کرنے کی کوشش میں   لگ گیا ،جب جنگ فیصلہ کن مرحلےمیں   داخل ہوئی تو اسلامی لشکر’’سخت آزمائش ‘‘ کا شکار ہوگیا۔

یہ صورتحال تو نہاوند میں تھی ،دوسری طرف مدینہ منورہ میں  عین اس وقت امیر المومنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہمسجد نبو ی میں   منبر رسول پر جلو ہ افروز ہوکر جمعہ کا  خطبہ ارشاد فرمارہے تھے۔(بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ خطبہ بھی ارشاد فرمارہے تھے اور اس کے ساتھ کفر و اسلام کی اس جنگ کو بھی دیکھ رہے تھے)جب اسلامی لشکر پر کفار کے غالب ہونے کے آثار دیکھے تو آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہنے وہیں   (مدینہ منورہ میں رہتے ہوئے خطبہ کے الفاظ کو چھوڑا اور ) منبر سے اسلامی لشکرکی مدد فرماتے ہوئے لشکر کے سپہ سالار ’’حضرت سیِّدُنا ساریہ بن زنیم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ‘‘کو ان الفاظ میں   جنگی ہدایت ارشاد فرمائی: ’’یَاسَارِیَۃُ الْجَبَلَ یعنی اے ساریہ !پہاڑ کو اپنی آڑ بناکر لڑو۔‘‘

(حیرانگی کی بات کہ مدینہ منورہ سے) حضرت سیِّدُنا ساریہ بن زنیم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہنے سینکڑوں   میل دُور نہاوند کی سرزمین پر امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کا یہ حکم سن لیامسجد میں بیٹھے ہوئے لوگ بہت حیران ہوئے کہ آج امیر المومنین رضی اللہ تعالی عنہ دوران خطبہ ایسا کیوں کیا بہرحال،اُدھر نہاوند میں سیدنا ساریہ رضی اللہ تعالی عنہ نے فوراً ’’لَبَّیْک‘‘ کہتے ہوئے اس پر عمل کیا(اور پہاڑ کو آڑ بناکر جب جنگ کی تو)۔

امیر المؤمنین کے حکم پر عمل سے جنگ کا پانسہ پلٹ گیا۔مجاہدین اسلام کی بہادری اور دلیری دیکھ کر کفار کے قد م اکھڑنے لگےاورمیدان جنگ سے بھاگنے میں   ہی عافیت جانی اور اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکی ’’دستگیر ی‘‘ کے سبب لشکر اسلام نے فتح پائی۔

قاصد نے آکر تصدیق کی:
  اس واقعے کے چند دن بعد حضرت سیِّدُنا ساریہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ  کا قاصد آیااور جنگ کی کیفیت بتاتے ہوئے کہنے لگا:میدان جنگ میں جب کفار سے مقابلہ ہوا تو ہم کو شکست ہونے لگی اتنے میں ناگہاں ایک چیخنے والے کی آواز آئی جو چلا چلا کریہ کہہ رہا تھا کہ اے ساریہ ! تم پہاڑ کی طرف اپنی پیٹھ کرلو ۔
 حضرت ساریہ رضی اللہ  تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ یہ تو امیر المؤمنین حضرت فاروق اعظم رضی اللہ  تعالیٰ عنہ کی آواز ہے، یہ کہا اورفوراً ہی انہوں نے اپنے لشکر کو پہاڑ کی طرف پشت کر کے صف بندی کا حکم دیا اور اس کے بعد جو ہمارے لشکر کی کفار سے ٹکر ہوئی تو ایک دم اچانک جنگ کا پانسہ ہی پلٹ گیا اوردم زدن میں اسلامی لشکرنے کفار کی فوجوں کو روندڈالا کفار کا لشکر میدان جنگ چھوڑ کر بھاگ نکلا اور افواج اسلام نے فتح مبین کا پرچم لہرا دیا۔      
(مشکوٰۃ باب الکرامات ، ص۵۴۶وحجۃ اللہ  ج۲،ص۸۶۰وتاریخ الخلفاء،ص۸۵)

دلائل النبوۃ، ج۶، ص۳۷۰۔ مشکاۃ المصابیح، ج۲، ص۴۰۱، حدیث:۵۹۵۴۔

اسد الغابۃ ، ساریۃ بن زنیم، ج۲، ص۳۶۴ ملتقطا۔دلائل النبوۃ لابی نعیم، ص۳۴۵،الرقم:۵۲۸ملتقطا۔

عام مشک کا پانی تبرک بن گیا




صَحابیات طیبات رضی اللّٰہ تعالٰی عنہن کرم سرکار کی اس قَدْر مشتاق تھیں کہ وہ ہر وَقْت موقع کی تلاش میں رہتیں۔جیسا کہ حضرت سیدتنا  اُمِّ عامر اسما بنتِ یزید اَشْہَلِیَّہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عنہا سے مَرْوِی ہے  کہ :

 ایک بار میں نے آقائے نامدار، رَسولوں کے سالار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو قریب کی ایک مَسْجِد میں نمازِ مَغْرِب اَدا فرماتے دیکھا

تو اپنے گھر سے گوشت اور روٹیاں لے کر حاضِرِ خِدْمَت ہوئی اور عَرْض کی: میرے ماں باپ آپ پر قربان! حُضُور رات کا کھانا تَناوُل فرمائیے۔

چنانچہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے صَحابۂ کِرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان سے فرمایا:اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  کا نام لے کر کھاؤ۔

آپ فرماتی ہیں: اس ذات کی قَسَم جس کے قبضۂ قُدْرَت میں میری جان ہے! سرکار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ آئے ہوئے تمام صَحابۂ کِرام اور گھر والوں سے جو وہاں حاضِر تھے سب نے مِل کر  کھانا تَناوُل فرمایا

 مگر میں نے دیکھا کہ کچھ بوٹیاں جوں کی توں پڑی تھیں اور بَہُت سی روٹیاں بھی بچ گئیں،حالانکہ کھانے والے 40اَفراد تھے۔ پھر واپسی پر حُضُور نے میرے پاس مَوجُود ایک پُرانی مَشک سے پانی نوش فرمایا اور تشریف لے گئے۔

میں نے  اس پر روغن مل کر اپنے پاس بَطَورِ تَبَرُّک مَحْفُوظ کر لیا، اس کے بعد ہم اس کا پانی بیماروں اور مرنے والوں (یعنی قریب الموت لوگوں)کو بَرَکت کے لیے 
پلایا کرتے تھے۔

( الطبقات الکبری لابن سعد، تسمیہ نساءالانصار…الخ،۴۲۹۲-ام عامر اشھلية،  ۸/ ۲۴۴ )


(  منجانب : سوشل میڈیا ، دعوت ِ اسلامی) 

سب کا حساب چکتا اور پیسے بھی بچ گئے یہ کیسے ؟





ایک افریقی شخص ایسے شہر میں پہنچا جو شہر قرض میں غرق تھا ۔  

وہ افریقی شخص نے 1000 کا نوٹ  ہوٹل کے کاؤنٹر پر رکھااور بولا میں جا رہا ہوں کمرہ پسند کرنے۔

ہوٹل کا مالک فورا" 1000 کا نوٹ لے کر بھاگا گھی والے کے پاس اور اس کو دے کر گھی کا حساب چکادیا۔        

گھی والا بھاگا دودھ والے کے پاس اور 1000 دے کر دودھ والے کا پورا حساب چکادیا۔
دودھ والا بھاگا گائے والے کے پاس اور گائے والے کو 1000 دے کر دودھ کا حساب پورا کردیا۔

گائے والا بھاگا چارے والے کے پاس اور چارے کا 1000 کٹوا آیا۔

چارے والا گیا اسی ہوٹل پر وہ وہاں ادھار میں کھانا کھاتا تھا اس نے 1000 دے کر کھانے کا حساب چکتا کیا ۔  

وہ افریقی شخص واپس آیا اور یہ کہہ کر اپنے 1000 کا نوٹ واپس لے گیا کہ اسے کوئی کمرہ پسند نہیں آیا۔

نہ کسی نے کچھ لیا ،نہ کسی نے کچھ دیا ،سب کا حساب چکتا ۔۔۔۔ !

تو گڑبڑ کہاں ہے ۔۔۔؟

کہیں گڑبڑ نہیں ہے بلکہ سبھی کی غلط فہمی ہے کہ پیسے ہمارے ہیں جبکہ  دراصل ہر شخص ۔۔۔

’’ خالی ہاتھ آیا تھا  خالی ہاتھ ہی جائےگا  ‘‘

(  منجانب : سوشل میڈیا ، دعوت ِ اسلامی) 


گناہ سے چھٹکارے کے چھ آسان علاج




حضرتِ سَیِّدُنا ابراہیم بن اَدھَم عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْاَکرَم کی خدمتِ میں ایک شخص حاضِر ہوا اورعرض کی:یاسیِّدی !مجھ سے بَہُت گناہ سر زد ہوتے ہیں،برائے کرم! گناہوں کا علاج تجویز فرما دیجئے۔ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتعالٰی علیہ نے اسے یہ چھ نصیحتیں فرمائیں:

پہلی نصیحت: جب گناہ کرنے کا پکّا ارادہ ہو جائے تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا رِزق کھانا چھوڑ دو۔اُس شخص نے حیرت سے عَرض کی: حضرت !آپ کیسی نصیحت فرما رہے ہیں!یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ جبکہ رَزاق وُہی ہے، میں اُس کی روزی چھوڑ کربھلا کس کی روزی کھاؤ ں گا ! فرمایا: دیکھو!کتنی بُری بات ہے کہ جس پَروَردَگار کی روزی کھاؤ اُسی کی نافرمانی بھی کرو ۔

دوسری نصیحت: جب بھی گناہ کا ارادہ ہو جائے تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے مُلک سے باہَر نکل جاو ٔ۔عَرض کی:حُضُور!یہ بھی کیسے ہو سکتا ہے! جِدھر جاؤں اُدھر اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہی کا مُلک پاؤں،اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے مُلک سے باہَر کس طرح جاؤں!فرمایا:دیکھو !کتنی بُری بات ہے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے مُلک میں بھی رہواور پھر اُس کی نافرمانی بھی کرو۔

تیسری نصیحت: جب پختہ ارادہ ہو جائے کہ بس اب گناہ کر ہی ڈالنا ہے تو اپنے آپ کو اتنا چُھپالو کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ دیکھ نہ سکے۔ عَرض کی: حُضُور ! یہ کیونکر ممکِن ہے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ مجھے دیکھ نہ سکے،وہ تو دلوں کے اَحوال سے بھی باخبر ہے۔فرمایا:دیکھو !کتنی بُری بات ہے کہ تم اللہ عَزَّ وَجَلَّ کو سننے والا اوردیکھنے والابھی تسلیم کرتے ہو اور یہ بھی یقین کے ساتھ کہہ رہے ہو کہ ہر لمحے مجھے اللہ عَزَّ وَجَلَّ دیکھ رہا ہے مگر پھر بھی گناہ کئے جا رہے ہو۔

چوتھی نصیحت: جب مَلَکُ الْمَوْت سَیِّدُنا عِزرائیل عَلَیْہِ السَّلَام تمہاری رُوح قبض کرنے کیلئے تشریف لائیں تو اُن سے کہہ دینا،تھوڑی سی مہلت دے دیجئے تا کہ میں توبہ کرلوں۔ عرض کی: حُضُور! موت کا وقت مقرّرہے اور مجھے ایک لمحہ بھی مہلت نہیں مل سکے گی ۔ فرمایا:جب تم یہ جانتے ہو کہ میں بے اختیار ہوں اور توبہ کی مُہْلَت حاصِل نہیں کر سکتا تو فی الحال ملے ہوئے لمحات کو غنیمت جانتے ہوئے مَلَکُ الْمَوْت عَلَیْہِ السَّلَام کی تشریف آوَری سے پہلے پہلے توبہ کیوں نہیں کر لیتے؟

پانچویں نصیحت: جب تمہاری موت واقِع ہو جائے اور قَبْر میں مُنکَرنکِیر تشریف لے آئیں تواُنکو قَبْر سے ہٹا دینا۔عرض کی: سرکار!یہ کیافرما رہے ہیں!میں انہیں کیسے ہٹا سکوں گا !مجھ میں اتنی طاقت کہاں! آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتعالٰی علیہ نے ارشاد فرمایا:جب تم نکِیرَین کو ہٹا نہیں سکتے تو اُنکے سُوالات کے جَوابات کی تیّاری ابھی سے کیوں نہیں کرلیتے؟
چھٹی نصیحت: اگر قِیامت کے دن تمہیں جہنّم کا حکم سنایا جائے توکہہ دینا:’’ نہیں جاتا۔‘‘عرض کی:حُضُور ! وہاں تو گناہ گاروں کو گھسیٹ کر دوزخ میں ڈال دیا جائے گا۔فرمایا:جب تم اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی روزی کھانے سے بھی باز نہیں آسکتے،اُس کے مُلک سے باہَر بھی نہیں نکل سکتے،اُس سے نظر بھی نہیں بچا سکتے،مُنکَر نکِیر کو بھی نہیں ہٹا سکتے اور اگرجہنّم کا حکم سنادیا جائے تواُسے بھی نہیں ٹال سکتے تو پھر گناہ کرنا ہی کیوں نہیں چھوڑ دیتے ۔۔۔!

اُس شخص پر سَیِّدُنا  ابراہیم بن اَد ھم عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْاَکرَم  کے تجویز کردہ گُناہوں کے عِلاج کے ان چھ نصیحت آموز مَدَنی پھولوں کی خوشبوؤں نے بَہُت اثر کیا،زار و قِطار روتے ہوئے اُس نے اپنے تمام گناہوں سے سچّی توبہ کرلی اور مرتے دم تک توبہ پر قائم رہا۔ 

(نیکی کی دعوت، ص۳۰۷ بحوالہ تذکرۃالاولیاء، ص ۱۰۰ ملخّصاً)

(  منجانب : سوشل میڈیا ، دعوت ِ اسلامی) 


امام رازی اور شیطان کا مناظرہ





امام فخر الدین رازی رحمۃ اﷲتعالیٰ علیہ کی نزع کا جب وقت آیا ،شیطان آیا کہ اس وقت شیطان پوری جان توڑ کوشش کرتا ہے کہ کسی طرح اس کا اِیمان سلب ہوجائے ،(یعنی چھین لیا جائے) اگر اس وقت پھر گیا تو پھر کبھی نہ لوٹے گا۔

 اُس نے اِن سے پوچھا کہ تم نے عمر بھر مُناظروں مُباحثوں میں گزاری ،خدا کو بھی پہچانا؟ آپ نے فرمایا :بیشک خدا ایک ہے ۔اس نے کہا اس پر کیا دلیل؟آپ نے ایک دلیل قائم فرمائی، وہ خبیث مُعَلِّمُ الْمَلَکُوت(یعنی فرشتوں کا استاد)رہ چکا ہے اس نے وہ دلیل توڑ دی۔

 اُنہوں نے دوسری دلیل قائم کی اُس نے وہ بھی توڑ دی۔ یہاں تک کہ 360 دلیلیں حضرت نے قائم کیں اور اس نے سب توڑ دیں۔

اب یہ سخت پریشا نی میں اور نہایت مایوس۔ آپ کے پیر حضرت نجم الدین کبریٰ رضی ا ﷲ تعالیٰ عنہ کہیں دُور دراز مقام پر وُضو فرمارہے تھے، وہاں سے آپ نے آواز د ی: ’’ کہہ کیوں نہیں دیتا کہ میں نے خدا کو بے دلیل ایک مانا ۔‘‘
(ملفوظات اعلٰی حضرت ، ص ؛ 494)


(  منجانب : سوشل میڈیا ، دعوت ِ اسلامی) 

ایثار کا بے مثال مظاہرہ




حضرت سیدنا ابو جہم بن حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:'' غزوہ یرموک کے دن میں اپنے چچا زاد بھائی کو تلاش کر رہا تھا اور میرے پاس ایک بر تن میں پانی تھا۔ میرا یہ ارادہ تھا کہ میں زخمیوں کو پانی پلاؤں گا ۔اتنی ہی دیر میں مجھے میرے چچا زاد بھائی نظر آئے۔میں ان کی طر ف لپکا دیکھاتو وہ زخموں سے چُورچُوراور خون میں لت پت تھے، میں نے ان کے چہرے سے خون صاف کیا اور پوچھا :'' کیا تم پانی پیؤ گے؟'' انہوں نے گردن کے اشارے سے ہاں کی تو میں نے پانی کا پیالہ ان کی طرف بڑھا دیا ۔
  
  ابھی انہوں نے برتن منہ کے قریب ہی کیا تھاکہ اچانک کسی زخمی کے کراہنے کی آواز آئی ، فوراً پیالہ میری طر ف بڑھایا اور کہا: ''جاؤ، پہلے اس زخمی کو پانی پلاؤ۔'' میں دوڑ کر وہاں پہنچا تو دیکھا کہ وہ حضرت سیدنا عمر و بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بھائی حضرت سیدنا ہشام بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے ۔ میں نے ان سے پوچھا :''کیا تم پانی پینا چاہتے ہو؟ ''انہوں نے اثبات میں سر ہلایا۔ میں نے ان کو پانی دیا ۔

اتنے میں ایک اور زخمی کی آواز آئی ، تو انہوں نے فرمایا :''جاؤ ،پہلے میرے اس زخمی بھائی کو پانی پلاؤ۔'' میں دوڑ کر وہاں پہنچا تووہ بھی جامِ شہادت نوش فرما چکے تھے،میں واپس حضرت سیدنا ہشام بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پا س آیا تو وہ بھی اپنے خالقِ حقیقی عزوجل کی بارگاہ میں جا چکے تھے۔ پھر میں اپنے چچا زاد بھائی کے پاس آیا تووہ بھی واصلِ بحق ہو چکے تھے۔

   اسی طرح کا ایک اور واقعہ امام واقدی اور حضرت سیدنا ابن الا عرابی ر حمہمااللہ تعالیٰ سے مروی ہے :'' حضرت سیدنا عکرمہ بن ابو جہل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جب پانی دیا گیا تو انہوں نے دیکھا کہ حضرت سیدنا سہل بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی شدید پیاس میں مبتلا ہیں اور ان کی طر ف دیکھ رہے ہیں تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پانی نہ پیا، اور فرمایا: ’’جاؤ، پہلے میرے بھائی کو پانی پلاؤ۔‘‘

جب ان کو پانی دیا گیا توانہوں نے دیکھا کہ حضرت سیدنا حارث بن ہشام رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی شدید زخمی حالت میں ہیں اور شدّتِ پیاس کی وجہ سے ان کی طرف دیکھ رہے ہیں تو آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا:'' جاؤ،پہلے میرے بھائی کو پانی پلاؤ ، جب ان کے پاس پہنچے تووہ بھی دم تو ڑ چکے تھے۔دوبارہ جب حضرت سیدناسہل بن حارث اور حضرت سیدناعکرمہ بن ابو جہل رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے پاس گئے تووہ بھی جاں بحق ہو چکے تھے۔
    
حضرت سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب ان کے پاس سے گزرے تو ارشادفرمایا:’’ تم جیسے عظیم لوگو ں پر میری جان قربان ہو ۔‘‘ (عیون الحکایات ، ص:73، مدینہ لائبریری ، دعوت اسلامی )
اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو اور اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ

(  منجانب : سوشل میڈیا ، دعوت ِ اسلامی)