حضرت اسید عدوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مختصر تعارف


حضرت ساریہ بن زنیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ جن کو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مدینہ منورہ میں مسجد نبوی  شریف کے منبر سے پکاراتھا اوروہ نہاوند میں تھے یہ انہی کے بھتیجے ہیں ، یہ شاعرتھے اور حضور نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام کی ہجو میں اشعار کہا کرتے تھے۔

فتح   مکہ کے دن بھاگ کر طائف چلے گئے تھے ۔ یہ ان اشتہاری مجرموں میں سے تھے جن کے بارے میں یہ فرمان نبوی تھا کہ یہ جہاں اورجس حال میں ملیں قتل کردئیے جائیں۔

 اتفاق سے حضرت ساریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا طائف میں گزرہوا جب ملاقات ہوئی تو  آپ نے اسید بن ابی ایاس کو بتایا کہ اگر تم بارگاہ رسالت میں حاضر ہوکر اسلام قبول کرلو تو تمہاری جان بچ جائے گی ۔

   
اسید یہ سن کر طائف سے اپنے مکان پر آئے اورکرتا پہن کر اورعمامہ باندھ کر خدمت اقدس میں حاضر ہوگئے اور عرض کیا کہ کیا آپ نے اسید بن ابی ایاس کا خون مباح فرمادیا ہے ؟آپ نے فرمایا کہ ہاں !
انہوں نے عرض کیا کہ اگر وہ مسلمان ہوکر آپ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوجائے تو کیا آپ اس کا قصور معاف فرمادیں گے؟ ارشادہوا کہ ہاں!

یہ سن کر انہوں نے اپنا ہاتھ حضوراکرم علیہ الصلوۃ والسلام کے دست اقدس میں دے کر کلمہ پڑھا اورعرض کیا کہ یا رسول اللہ! عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم اسید بن ابی ایاس میں ہی ہوں ۔

حضوراکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے فوراً  ہی ایک آدمی کو بھیج کر اعلان کرادیا کہ اسید بن ابی ایاس مسلمان ہوگئے ہیں 

اورسرکاررسالت نے ان کو امن کا پروانہ عطا فرمادیا ہے ۔ پھر انہوں نے حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی مدح میں ایک قصیدہ پڑھا۔

   
جب یہ مسلمان ہوگئے تو حضور انور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے خوش ہوکر ازراہ کرم ان کے چہرے اورسینے پر اپنا منور ہاتھ پھیرا جس سے ان کو یہ کرامت نصیب ہوگئی کہ یہ جب کسی اندھیرے گھر میں قدم مبارک رکھتے تھے تو اس گھر میں ان کے نورانی چہرے کی روشنی سے اجالا ہوجایا کرتا تھا۔

تبصرہ   سبحان اللہ!جب تک سرکاررحمت مدار صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم ان سے ناراض رہے ان کا خون مباح تھا اورکہیں ان کا ٹھکانانہیں تھا ۔

بھاگتے پھرتے تھے اورجان کی امان نہیں ملتی تھی اورجب رحمۃللعالمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم ان سے خوش ہوگئے تو ان کو دنیا میں کرامت اورآخرت میں جنت دونوں جہان کی دولت مل گئی ۔ یہ سچ ہے ؎

جس سے تم روٹھو وہ سرگشتۂ دنیا ہوجائے
جس کو تم چاہو وہ قطرہ ہو تو دریا ہوجائے

( کرامات صحابہ، ص،191 تا 193 ، مدینہ لائبریری ، دعوت اسلامی )

(  منجانب : سوشل میڈیا ، دعوت ِ اسلامی)